عجلت کیوں؟

نومبر1999 میں جب قومی احتساب بیورو کی داغ بیل ڈالی گئی تو اس کے مقاصد میں سب سے اہم مقصد ملک میں موجود مالی تخریب کاری اور کرپشن کا خاتمہ تھا،لگتا تھا کہ اب ملک میں کسی کوبھی جراٗت جسور نہیں ہوگی کہ وہ ملکی معاملات میں کسی بھی قسم کی کرپشن کا ارتکاب کر سکے۔اس کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد جبکہ ہر صوبائی دارلخلافہ میں بھی ایک پرانچ قائم کی گئی،اس وقت ملک میں تقریبا پچیس کے قریب احتساب عدالتیں فرائض منصبی ادا کر رہی ہیں۔جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے ان کا ایک ہی شور ہے کہ ہم کرپشن کے مرتکب افراد کو نہیں چھوڑیں گے خواہ اس کے لئے ہماری حکومت بھی چلی جائے۔مزید برآں کہ گذشتہ دنوں وزارتِ قانون نے قومی احتساب بیورو ترمیمی بل 2019 کا جب نوٹیفکیشن جاری کیا،جس کے خلاف اگرچہ کراچی رجسٹری میں ایک درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے کہ یہ آرڈینینس آئین کے آرٹیکل 25 کے خلاف ہے لہذا اسے ختم کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کای جائے،اس ترمیمی بل کی دفعات اور عجلت میں پیش کئے جانے سے تو پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا نہیں پوری دال ہی شائد اسود ہو گئی ہے۔ترمیمی بل کے اہم نکات سے تو پتہ چلتا ہے کہ اس ترمیم کا مقصد ماسوا سیاستدانوں،بیوروکریٹس اور تاجر برادری کو کرپشن جائز کرنے کی نوید کے کچھ نہیں،جیسے کہ
محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف قومی احتساب بیورو کارروائی نہیں کرے گی،گویا افسر شاہی کو صحیح معنوں میں شاہ بن کر شاہی خزانے کو لوٹنے کا لائسنس جاری کردیا گیا۔اگرآپ لوگوں کو یاد ہو تو وزیر ریلوے شیخ خورشید نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں لیکن ریلوے کے بابویعنی بیوروکریٹس مجھے اعدادوشمار کے چکروں میں گھما رہے ہیں۔اب ذرا اندازہ کریں کہ ان لوگوں کو جب کوئی انکوائری کرنے والا ہی نہ ہوگا تو کون کس کی ماں کو خالہ کہے گا؟ایسے ہی سرکاری ملازمین کی جائیداد کو عدالتی حکم نامہ کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا۔اب یہ بھی ایسے بیوروکریٹس کے حق میں بات جاتی ہے جن کے پاکستان میں کم دوبئی اور انگلینڈ میں جائیدادیں زیادہ ہیں بھلا کسی نائب قاصد اور کلرک کی کیا اوقات کہ وہ ناجائز ذرائع سے پاکستان میں کوئی جائیداد بنا لے۔علاوہ ازیں مالی فائدہ اٹھانے کے واضح ثبوت ہونے پر ہی سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔تو جناب عرض یہ ہے کہ ہمارے پنجابی میں ایک اکھان ہے کہ جنہاں موترنا انہاں نے پاجامیاں نوں راہ وی رکھے ہوندے نیں۔کیا آج تک کسی بھی سرکاری یا سیاستدان کی مالی کرپشن کا کسی بھی حکومت کو ثبوت ملا ہے جو اب ملے گا۔تین ماہ تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا،جس ملک میں ایک پان والے کو جیل میں ڈال کر پانچ سال بعد اسے رہا کردیا جاتا ہے اس معزرت کے ساتھ کہ تمہارا کیس ایسا نہیں تھا کہ ضمانت نہ دی جاتی اس ملک میں ہم توقع لگا لیں کہ تین ماہ میں مکمل تحقیقات ہو سکی گی کیا؟

ترمیمی بل میں عوام کے ساتھ جو سب سے بھونڈا مذاق کیا گیا وہ یہ ہے کہ نیب پچاس کروڑ سے زائد کی کرپشن اور سکینڈل پر کارروائی کر سکے گی۔گویا پچاس کروڑ تک کی اگر کوئی کر بھی لیتا ہے تو نیب اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گی،اب اس کو کیا سمجھا جائے کہ اتنی رقم کی سرکاری ملازمین،بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو چھوٹ ہوگی یا کوئی پاکستانی عدالت اتنی مالی کرپشن پر کارروئی کرنے کی مجاز ہوگی۔ٹیکس،سٹاک ایکسچینج کے معاملات میں نیب کا دائرہ اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔گویا اب، ایف بی آر،ایس ای سی پی اور بلڈنگ اتھارٹیز کو مکمل اختیار حاصل ہوگا کہ وہ جو چاہیں کریں جس سے جیسے چاہیں معاملات سیدھے رکھیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا،یعنی یہ سب اب جنگل کے بادشاہ ہوں گے۔یوں لگتا ہے کہ نیب کے اختیارات میں کمی کر کے اصل میں ادارہ کے پر کاٹ دئے ہیں تاکہ یہ ملکی بیوروکریٹس،سیاستدانوں اور تاجروں سے اپنی اڑان اونچی نہ کر پائے۔توکیا سمجھ لیا جائے کہ حکومت اس تثلیث کے ہاتھوں کھلونا بننے کو تیار ہو گئی ہے،کیا یہ ٹرائیکا حکومت کو بلیک میل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے کہ صدر پاکستان کو اتنی عجلت میں آرڈینینس جاری کرنا پڑا۔یاد رکھئے اگر ایسا ہی ہے تو تاریخ فراموش کرنے میں زیادہ دن نہیں لگاتی،کیلنڈر تبدیل ہو جاتے ہیں،تاریخ بدل دی جاتی ہے،حکومتیں اور بادشاہتیں زوال کا شکار ہوجایا کرتی ہیں ،تاریخ انہیں لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو تاریخ کا دھارا بدلنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتے ہوں۔عجلت میں کیا گیا یہ فیصلہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ حکومت پسپائی اختیار کرنے جا رہی ہے،اگر یہ سب کرنا ہی تھا تو پھر سترہ سے زائد سیاستدانوں کو جیل یاترا پر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی،میاں صاحبان کو جیل کے ذریعے بیرونِ ملک راہ فرار کی اجازت کیوں دی گئی،کتنے ہی بڑے بڑے سیاستدان جیل سے ضمانت پر رہا ہو کر واپس آچکے ہیں۔ایسے بہت سے سولات ہیں جو حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں؟دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان صاحب کیسے ان سوالات کا سامنا کرتے ہیں۔

Murad Ali Shahid
About the Author: Murad Ali Shahid Read More Articles by Murad Ali Shahid: 100 Articles with 86116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.