او آئی سی،کشمیر اور مسلم امہ ۔۔

کوالالمپورسمٹ کے بعد اب سعودی عرب اسلامی ممالک کومتحداورامہ کے مسائل کے حوالے سے متحرک ہواہے سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے پاکستان کادورہ کیا اوراس دورے کے دوران انہوں نے ولی عہدمحمدبن سلمان کاخصوصی پیغام حکومت پاکستان تک پہنچایاجس میں یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اوآئی سی (اسلامی تعاون تنظیم )کشمیراوربھارت کے متنازعہ بل پرخصوصی اجلاس اسلام آبادمیں میں بلائے گی، اوآئی سی کایہ اجلاس وزرائے خارجہ کی سطح کا ہو گا، شہزادہ فیصل بن فرحان کا اکتوبر میں سعودی وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا جونہایت کامیاب رہا شہزادہ فیصل کا شمار سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی اور وفادار ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ وہ اس سے قبل شہزادہ سلمان کے مشیر اور کئی مغربی ممالک میں سعودی عرب کے سفیر رہ چکے ہیں۔اس دورے کے دوران انہوں نے وہ غلط فہمیاں دورکی ہیں جوکوالالمپورسمٹ کے موقع پرسعودی عرب اورپاکستان کے درمیان پیداکی گئی تھیں ان سازشوں کابھی توڑ کیاگیا جو عالم اسلام کے دونوں اہم ملکوں کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے کی گئی تھیں ۔

25 ستمبر 1969 کوقائم ہونے والی اوآئی سی کے قیام کوپچاس سال مکمل ہوچکے ہیں او آئی سی میں پالیسی ترتیب دینے میں سب سے اہم کام رکن ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہے، جو ہر تین سال بعد منعقد ہوتا ہے۔1969 سے 2016 تک تیرہ اسلامی سربراہ کانفرنسیں منعقد ہوئی ہیں اور سات ہنگامی سربراہ اجلاس اسلامی دنیا کے مختلف ممالک، مراکش ، سعودی عرب ، انڈونیشیا ، کویت ، مصر ، پاکستان اور ترکی کے دارالحکومتوں میں منعقدہوئے ہیں پہلاغیرمعمولی سربراہی اجلاس 23مارچ 1997کواسلام آبادمیں منعقدہواتھا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کویہ اعزازبھی حاصل ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے قیام کے بعد دوسراسربراہی اجلاس 22فروری 1974کولاہورمیں منعقدہواتھا اس کے ساتھ ساتھ سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔
پاکستان اورسعودی عرب کے عوام دونوں ممالک کواپنادوسراگھرسمجھتے ہیں اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب جانے والوں میں پاکستانی سرفہرست ہیں ،نئے عمرہ سیزن میں سعودی وزارت الحج نے23لاکھ 71ہزار 441عمرہ ویزے جاری کیے،جن میں سے4لاکھ95ہزار 270ویزوں کے ساتھ پاکستان پہلے، انڈونیشیا 4لاکھ 43ہزار 879کے ساتھ دوسرے اوربھارت2لاکھ 62ہزار 887کے ساتھ تیسرے نمبر پررہے یہ اعدادوشماربتارہے ہیں کہ پاکستانیوں کی خراب معاشی حالت اورعمرہ پیکیج میں بے تحاشااضافے کے باوجود اپنے روحانی مرکزسے کس حددرجے کی وابستگی ہے ؟اس وابستگی اورتعلق کوکوئی کمزوریاختم نہیں کرسکتا ۔

بدقسمتی سے ایک مخصوص لابی کی طرف سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیاجاتاہے کہ اوآئی سی ناکام ہوگئی،اوآئی سی مردہ گھوڑاہے ،یہ فورم امہ کے مسائل حل نہیں کرسکتا یہ سازشی سوالات تاریخ ،حالات اورواقعات کوپرکھے بغیرپھینکے جاتے ہیں ایک ذہن بنادیاگیاہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے متبادل فورم بنایاجائے حالانکہ متبادل فورم کسی بھی مسئلے کاحل نہیں بلکہ پہلے سے موجودفورم کوفعال کرنے کی ضرورت ہے ،اسی سوچ اورفکرکے تحت اوآئی سی کومتحرک کرنے کافیصلہ کیاگیاہے اسلامی تعاون تنظیم کاکشمیراوربھارت کے معاملے پرخصوصی اجلاس کاانعقادنہایت خوش آئندہ فیصلہ ہے ،اوآئی کافعال ہوناوقت کی ضرورت ہے -

امت مسلمہ ایک ایسے وقت میں 2020میں داخل ہورہی ہے کہ ہرطرف مایوسیاں ہی مایوسیاں ہیں لاس اینجلس سے دہلی تک مسلمان پریشان ہیں ،عراق سے کشمیرتک ،فلسطین سے برماتک مسلماں خوں ریزی کاشکارہیں ،مودی کا بھارت مسلمانوں سے شہریت کے حقوق سلب کرنے پر تلا ہے جس پر ہندوستان کے طول و عرض میں شدید احتجاج جاری ہے۔ شام، یمن ،عراق ،لیبیا اور افغانستان اب بھی میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں۔مقبوضہ کشمیرکوہندوعفریت ہڑپ کرگیاہے ،برما اورسنکیانک کے مسلمانوں کی تشویشناک حالت ہے ، لاکھوں مسلمان اپنے ہی ملک میں ہجرت پرمجبورہیں چند لفظوں میں کہیے تو دنیا مسلمانوں کے لیے بڑی ہی خطرناک اور بے رحم بن چکی ہے مغربی اوریورپی ممالک میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں بلکہ اسلام کے خوف اور اس کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم اب ایک طرح کی پوری صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس منافع بخش صنعت کو مسلمانوں کے مخالف ادارے اور افراد فراخدلی سے مالی امداد دیتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2013 میں اس سلسلے میں امریکہ میں 205 ملین ڈالرز کے عطیات اسلام مخالف تحقیقی اداروں کو دیے گئے۔ یہ ادارے اپنی ساکھ بڑھانے کے لیے عموما تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور لکھاریوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ان اداروں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2010 میں ایسے اداروں کی تعداد تقریبا پانچ تھی جو 2018 میں تیزی سے بڑھتے ہوئے 114 کے قریب پہنچ گئی ہے۔ان چیلنجزسے نمٹناکسی ایک مسلم ملک کے بس میں نہیں بلکہ اس کے لیے اوآئی سی جیسے ممالک کوآگے بڑھ کراپناکرداراداکرناہوگا ۔

ملائشیا سمٹ کے بعد جہاں سعودی وزیرخارجہ نے پاکستان کادورہ کیا وہاں ہی قومی اسمبلی کے سپیکراسدقیصرنے پارلیمانی وفدکے ہمراہ ریاض کادورہ کیا اسدقیصراس حوالے سے خوش قسمت رہے کہ انہوں نے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی جبکہ ہمارے وزیراعظم اپنے حالیہ اورگزشتہ دورے میں خادم الحرمین سے ملاقات نہیں کرپائے تھے ،حکومت پاکستان نے کشمیرکے مسئلے پرایک بین الاقوامی پارلیمانی کانفرنس کااعلان کیاہواہے اسدقیصرکے اسی دورے کے دوران چیئرمین سعودی مجلس شوری کونسل ڈاکٹر عبداﷲ بن محمد آل الشیخ نے کشمیر پر بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اورکہاہے کہ سعودی عرب اور شوری کونسل اپنے کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، وہ بھارتی فورسز کے مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و بربریت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور کشمیری عوام کو آئینی حقوق دلوانے کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔ انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ او آئی سی بین الاقوامی وعدوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے.

ہم پرمسلط حکمران اپنابوجھ خود اٹھانے کی بجائے دوسرے کے کندھے پرلادناچاہتے ہیں مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے اصل فورم اقوام متحدہ ہے مگرہماری حکومت نے اپنے قیام کے پہلے سودنوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین کے انتخاب میں بھارت کی حمایت کی جس کے نتیجے میں مودی کابھارت آئندہ دو برس کے لیے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بناہم اوآئی سی سمیت دنیاسے کہتے ہیں کہ وہ کشمیرکے مسئلے پرہماراساتھ دیں مگرہمیں دیکھناہوگا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کتنے کھڑے ہیں ؟ پانچ اگست کے بعد ہم نے کشمیراوراہل کشمیرکے لیے کیاکیاہے ؟کشمیراب نہیں توکبھی نہیں کی صورتحال پرپہنچ چکاہے جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہماری حکومت کشمیراب بھی نہیں اورکبھی بھی نہیں کی پالیسی پرعمل پیراہے ،اوآئی سی سے پہلے ہمیں کشمیریوں کے ساتھ کھڑاہوناہوگا جب ہم خود کشمیریوں سے منہ پھیرلیں گے توکوئی اورکس طرح ہماراساتھ دے گا ؟ہماری خارجہ پالیسی کایہ حال ہے کہ اوآئی سی بھارتی مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے اگراپنے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ہندوستان کودعوت دے توہم بائیکاٹ کردیتے ہیں لیکن اب اوآئی سی سے مطالبہ کررہے ہیں کہ مودی کے اقدامات پر وہ بھارت پردباؤڈالے ؟کیااوآئی سی کے اسلام آبادمیں ہونے والے اجلاس میں ہم بھارتی وزیرخارجہ کوشرکت کی دعوت دیں گے ۔ ؟

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 95863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.