پاکستان اور سقوط بغداد

عرفان علی سھتو میں شھید بینظیر بھٹو یونیورسٹی سے ہوں

سقوط بغداد ایک ایسا دل خراش واقعہ جس نے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا جس کے اثرات آج تک مسلمانوں کی سیاسی، علمی ، معاشی، اور معاشرتی زندگی پر آویزاں ہیں۔ ، سقوط بغداد کے باد مسلمان کبھی بھی علم کے میدان میں آگے نہیں بڑ سکے۔

بغداد جو صدیوں سے تھذیب و تمدن، اور علم و حکمت کا مرکز تھا، دنیا کہ بڑے بڑے فلسفی وہیں پیدا ہوئے ، اور تعلیم حاصل کی اور وہیں سے ہی انہوں نے تجرباتی سائینس کا آغاز کیا۔ شہر کی شان و شوکت ایسی کے دنیا اس شہر کی مثالیں دیتی تھی۔ لیکن پہر کچھ ایسا ہوا جس نے بغداد اور مسلمانوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔

یہ 1257 کی بات ہے جب منگول اپنے عروج پر تھے ایک کے باد ایک علاقے فتح کررہے تھے، چین سے لیکر فارس تک سب علاقوں پر ان کا ہی سکہ چلتا تھا۔ ان حالات کو دیکھ کر ساری دنیا یہ تیاری کرہی تھی کہ منگولوں کو کسیے روکیں۔ لیکن ایک ملک تھا جو ان سب خطروں سے بے نیاز اپنی ہی زندگی جی رہا تھا۔ اس ملک یا شہر کو دنیا بغداد کے نام سے جانتی ہے۔ اس سلطنت کا بادشاہ جو اس وقت سارے مسلمانوں کا خلیفہ تھا، دولت کے نشے میں ہیرے اور جواہرات جما کرنے میں مصروف تھا، اس کے درباری عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے تھے۔ ان لوگوں کو نہ تو اسلام کی فکر تھی نہ ہی مسلمانوں کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس وقت کے علماء لوگوں میں اسلامی تعلیمات اجاگر کرکے لوگوں اور بادشاہ کو صحیح راستے پر لے آتے، لیکن وہ خود ہی ہر روز اس بحث میں مصروف رہتے کہ کوا کھانا حلال ہے یہ حرام۔ علماء لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتانے کے بجائے فرقاواریت سمجھانے میں مصروف تھے۔ ان سب لوگوں کے درمیان غدار بھی ملک کو کمزور کرنے میں جٹے ہوئے تھے۔

جب ایسی صورتحال ہو تو کوئی ملک کیسے اللہ کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔ یہ عذاب آیا اور ایسا آیا کہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ منگول آرمی ہلاکو خان کی سربراہی میں بغداد پہنچی، منگولوں کو خلیفہ مستعصم باللہ کے ایک وزیر ابن الکامی کی بھی مدد حاصل تھی سو بغداد پر ٹوٹ پڑی اور سارے شہر کو تباہ کردیا۔ عورتوں سے لیکر بچوں، اور نوجوانوں سے لے کر بوڑھوں تک کسی کو بھی نہیں چھوڑا جو سامنے آیا اس کو قتل کردیا۔ سب لوگوں کو قتل کرنے کے باد ان کے سروں کا مینار بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حملے میں دس لاکھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جن میں کثیر تعداد فلسفیوں اور سائنسدانوں کی تھی۔ اس کے علاؤہ بغداد کی لائبریری جس کا نام (the house of wisdom) تھا جس میں لاکھوں مختلف علوم کے کتابیں شامل تھیں جو کے بڑے بڑے سائنسدانوں اور فلسفیوں نے لکھیں تھیں، اس کو بھی تباہ کرکے، کتابیں دریائے دجلہ میں پھینک دیں۔ مفکروں نے لکھا ہے کہ دریائے دجلہ کا پانی ان کتابوں کی سیاہی کی وجہ سے سیاہ ہوگیا تھا۔ پہر خلیفہ جس کا نام مستعصم باللہ تھا اس کو گرفتار کیا گیا۔ جب خلیفے نے بھوک لگنے پر کھانا مانگا تو ہلاکو خان نے وہ ہیرے و جواہرات منگوائے جس کو خلیفہ وقت نے دولت کے نشے میں جما کیا تھا۔ ہلاکو خان نے خلیفہ کو کہا اب کھائو ہیرے و جواہرات، جس سے تم بہت پیار کرتے تھے تو خلیفے نے جواب دیا کہ میں یہ کیسے کھا سکتا ہوں۔ پہر ہلاکو نے خان نے کہا اگر کھا نہیں سکتے تو جما کیوں کرتے ہو۔ باداذاں، خلیفہ کو چادر میں اوڑھ کر گھوڑوں کے پاؤں کے نیچے کچلوادیا گیا۔ اس کے بعد ابن الکامی جس نے منگولوں کے مدد اس شرط پر کی تھی کہ وہ ان کو بغداد کا بادشاہ بنائیں گیں، اس کو بھی یہ کہکر عبرتناک موت دی کہ اگر تم اپنوں کہ نہیں ہو سکے تو ہمارے کیسے ہوگے۔ بغداد کی اس تباہی نے مسلمانوں کا سنہری دور ختم کردیا، اور مسلمان جو علم و حکمتِ میں ترقی کرہے تھے وہ علم میں آگے نہیں بڑھ کرسکے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے کہ اگر مسلمان اللہ کے احکامات کو بھلا کر شیطان کے رستے پے چلیں گے تو اللہ ان پر ظالموں کو مسلط کردے گا، سو بغداد کی تباہی اس کی ایک نشانی ہے۔

آج مسلمانوں اور بلخصوص پاکستان کے مسلمانوں حالات بھی ووہی ہیں جو بغداد کی تباہی سے پہلے بغداد کے مسلمانوں کے تھے۔ پاکستان میں حکمران طبقہ ملکیت اور پیسہ کمانے میں مصروف ہیں، وزراء اور مشیر عیاشیاں کرہے ہیں، ہمارے پاس الکامی جیسے غدار بھی ہیں جو اقتدار پر قبضہ کرنے کےلیے یا تو آمریکہ سے مدد لیتے ہیں یا پہر مارشل لاء لگا کر اپنے منظنوم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے علماء جن کو پاکستان کے مسلمانوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اسلامی اصولوں سے دوری پر لوگوں کی اصلاح کرنی چاہیئے لیکن وہ فرقہ فرقہ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ سنی شیعہ کو کافر، شیعہ سنی کو کافر قرار دے ہے۔ ایسی صورتحال میں تاریخ پہر اپنے آپ کو دھرا سکتی ہے، ہمیں سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم اللہ کے عذاب کو دعوت تو نہیں رہے، اگر واقعے ایسا کررہے ہیں تو پہر ہمیں ایک بڑی تباہی کےلیے تیار رہنا چاہئیے۔
 

Irfan
About the Author: Irfan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.