وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعدوزیراعظم کی معاون
خصوصی برائے فردوس عاشق اعوان نے میڈیابریفنگ میں بتایاکہ کابینہ اجلاس سے
پہلے ان کیمرہ بریفنگ ہوئی ۔ جس میں نیب آرڈی نینس اورنیب قوانین کاجائزہ
لیاگیا۔ اس دوران اراکین نے کھلم کراپنی آراء کااظہارکیا۔ ان کیمرہ بریفنگ
میں یہ تومعلوم نہیں کہ ارکان پارلیمنٹ نے کیاکیارائے پیش کی۔ ویسے ہماری
معلومات کے مطابق آرڈی نینس اس وقت لایاجاتاہے جب کوئی آئینی یاقانونی
مجبوری ہو، جب کوئی آئینی یاقانونی مسئلہ درپیش ہواوراس دوران قومی اسمبلی
کااجلاس نہ ہورہاتواس وقت آرڈی نینس لایاجاتاہے۔ جن حالات میں نیب آرڈی
نینس لایاگیاہے۔ ایسے کوئی حالات نہیں تھے کہ اسمبلی کے اجلاس کاانتظارنہ
کیاجاسکتاہو۔ اس میں تاجروں اورسرکاری ملازمین کوجورعائت دی گئی ہے ۔وہ
قومی اسمبلی کے اجلاس میں نیب قوانین میں ترمیم کابل پاس کراکے بھی دی
جاسکتی تھی۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات نے انکشاف کرتے ہوئے کہاکہ نیب آرڈی
نینس پراپوزیشن کیلوگ اندرسے خوش ہیں۔ اوراس سے فائدہ اٹھانے والے ہی
شورمچارہے ہیں۔ اپوزیشن اس آرڈی نینس کومن وعن قبول کرلیتی توحکومت نے
اپوزیشن کی رضامندی کوبھی قبول نہیں کرناتھا۔ کیونکہ حکومت نہیں چاہتی کہ
اپوزیشن خوش ہو۔ ان کاکہناتھا کہ نیب آرڈی نینس پارلیمنٹ میں پیش ہونے
جارہاہے۔ اس پرپارلیمنٹ کی مہرکے بعدقانون بنناہے۔ فردوس عاشق اعوان
کاکہناتھا کہ ڈی جی اے این ایف کوبھی کابینہ نے آج بلایاتھا انہوں نے
کابینہ کوراناثناء اﷲ کے کیس کے بارے میں بریف کیا۔ان کاکہناتھا کہ
بینظیرانکم سپورٹ پروگرام میں آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد مستحق نہیں تھے۔
سیکنڈل سامنے آنے کے بعدان آٹھ لاکھ افرادکوفہرست سے نکال دیاگیا۔ ان
کاکہناتھا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ معاشی استحصال ہورہاہے۔ جس
پرکابینہ نے بھارت کے شہریت کے متنازع قانون کے موذی حکومت کے اقدام کی
مذمت کی ہے۔ بھارت میں متنازع شہریت قانون کی مذمت پرہی اکتفانہ کیاجائے
بلکہ اس قانون کے خلاف بھرپورسفارتی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ جب کہ کابینہ
نے کشمیرمیں جاری بھارتی مظالم کی مذمت کی اورمذمتی قراردادپاس کی۔مسئلہ
کشمیرپرپی ٹی آئی کی حکومت نے جوسفارتی مہم شروع کی تھی وہ اب سست ہوچکی
ہے۔ حکومت کواس بارے سفارتی مہم کومزیدفعال کرناچاہیے۔ اوآئی سی کااجلاس
اپریل میں نہیں رواں ماہ ہی بلانا چاہیے۔ مسئلہ کشمیرکوعالمی عدالت میں لے
جانے کااعلان کیاگیاتھا ۔اس پربھی اب عمل ہوجاناچاہیے۔فردوس عاشق اعوان
کاکہناتھا کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم اشیائے خوردونوش پرچھ ارب کی
سبسڈی کاپروگرام شروع کریں گے۔ حکومت کی جانب سے غریبوں کے لیے مالی
امدادکاکارڈ جاری کرنے کافیصلہ بھی کیاگیاہے۔ جب کہ ہیلتھ کارڈ کے ذریعے
صحت کی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ ان کاکہناتھا کہ وزیراعظم کاہرشہرمیں
پناہ گاہیں اورلنگرخانے کھولنے کاعزم ہے۔ ملک کے پسے ہوئے طبقات کے لیے
وزیراعظم کے پناہ گاہوں اورلنگرخانوں کے اقدام کوکابینہ نے سراہاہے۔ پسے
ہوئے طبقات کی مددکرنے کے وزیراعظم کے یہ اقدام قابل تعریف ہیں۔اس سے
بہترہے کہ وزیراعظم روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی
کرائیں۔اشیائے خوردونوش کی قیمتیں ڈبل ہوچکی ہیں۔ روزہ مرہ کے استعمال کی
چیزوں کی قیمتیں سابقہ دورحکومت میں چیزوں کی جوقیمتیں تھیں اتنی ہی
ہوجائیں توعوام کوواضح ریلیف مل جائے گا۔معاون خصوصی کاکہناتھا کہ کابینہ
اجلاس میں مجموعی سیاسی، معاشی صورت حال کاجائزہ لیاگیا۔ سال دوہزاربیس
عوام کی ترقی ،خوش حالی اورریلیف کاسال ہوگا۔اس سال معیشت کی بہتری کے
فوائدعام شہریوں کودیے جائیں گے۔ان کاکہناتھا کہ کابینہ کوبریفنگ میں
بتایاگیاہے کہ برآمدات میں چاراشاریہ سات فیصداضافہ ہواہے
اورسروسزٹریڈبیلنس میں چھ اعشاریہ چھ فیصدبہتری آئی ہے جب کہ ٹریڈبلینس میں
چالیس فیصدکمی آئی ہے۔اس کے علاوہ فارن یکسچینج میں ۱۴فیصدبہتری آئی ہے
اورٹیکس وصولی میں سترہ فیصداضافہ ہواہے۔قوم کویہ ترقی مبارک ہو۔
سوشل میڈیامیں وفاقی اورصوبائی وزراء کی مبینہ ویڈیوزکی گردش کے حوالے سے
ایک سوال پرفروس عاشق اعوان کاکہناتھاکہ ٹیکنالوجی جہاں زندگی کوآسان بناتی
ہے وہی زندگی کوجہنم بھی بنادیتی ہے۔ان ویڈیوزکی تحقیقات کرانی چاہییں۔ اس
میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ معاون خصوصی نے کہاکہ ایجنڈے
کے پہلے نکتے میں کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ۲۳سمبرکے فیصلوں کی
توثیق کی۔دوسرے نمبرمیں نیپرایکٹ میں ترامیم کی سفارش پرجوسقم تھے ان
کودورکرنے کے لیے ای سی سی کے پاس بھیج دیاہے۔ان کاکہناتھا کہ کابینہ نے
نینشنل کالج آف آرٹس کوانسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کرنے کے مجوزہ بل کی منظوری دی
اورچاروں صوبوں میں اس کے کیمپس کھولے جائیں گے تاکہ پاکستان کے اندرفن
اورفن کارکوجدیدتقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیاجائے۔
وزیرمنصوبہ بندی اسدعمرنے وزیراعظم اورکابینہ کوبریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ
بتایاکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں پچھلے سال کے مقابلے میں ۷۳فیصدبہتری
اورتجارتی توازن میں چالیس فیصدکمی آئی ہے۔ گزشتہ سال تجارتی توازن تیرہ
اعشاریہ چارارب ڈالرتھا جوروں مالی سال میں آٹھ ارب ڈالرہے۔انہوں نے کابینہ
کوبتایاکہ برآمدات میں چاراشاریہ سات فیصداضافہ دیکھنے میں آیاہے۔گزشتہ
مالی سال میں اعدادوشماراعشاریہ نوارب ڈالرتھے جواب دس اعشاریہ تین ارب تک
پہنچ گئے ہیں۔ درآمدات گزشتہ مالی سال میں ۲۳اعشاریہ دوارب ڈالرتھیں ۔ اس
سال ۱۸اعشاریہ تین ارب ڈالرہیں۔ان کاکہناتھا کہ ترسیلات زرگزشتہ سال کی سطح
پربرقرارہے جو۹ اعشاریہ تین ارب ڈالرتک پہنچ چکی ہیں۔ایف بی آرکی ٹیکس
وصولیوں میں اضافہ ہواہے۔ پبلک سیکٹرڈویلپمنٹ پروگرام کی مدمیں اب تک ۸۷ارب
خرچ ہوئے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ بیرونی مالی شعبے میں بہتری سے ریئل سیکٹرمیں
مثبت اثرات نمایاں ہوئے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے بتایاگیاکہ
بہتری آئی ہے جوگزشتہ مالی سال میں محض ۱۴۷ملین ڈالرتھی جواب بڑھ
کردوہزارچھ ملین تک پہنچ چکی ہے۔انہی اشاریوں کی بنیادپروزیراعظم نے سال
دوہزاربیس کومعیشت کے استحکام کاسال قراردیاہے۔اگلے سال کے اوائل میں ایسے
اقدامات کیے جائیں تاکہ عوام تک فائدہ پہنچ سکے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزراء نے راناثناء اﷲ کے خلاف منشیات سمگلنگ کیس
سے متعلق سخت تحفظات کااظہارکیا۔وفاقی وزراء کی جانب سے ڈی جی اے این ایف
سے سخت سوالات کیے گئے۔وزیراعظم عمران خان نے ڈی جی اے این ایف کوراناثناء
اﷲ کیس میں قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ حکومت قانون
کے ساتھ کھڑی ہوگی۔اے این ایف کامقابلہ سمگلرزاورقوم کی نسلوں کے دشمن
مافیاسے ہے۔ ادارہ اپنی قانونی اورمیڈیاسے متلعق استعدادبڑھائے۔ذرائع کے
مطابق ڈی جی اے این ایف نے کہاکہ ہمارے پاس راناثناء اﷲ کیس سے متعلق
ناقابل تردید شواہد موجود ہیں ۔ راناثناء اﷲ کئی سالوں تک وزیرقانون رہے
۔کوئی جج ان کاکیس سننے کوتیارنہیں تھا۔ہمارے پاس ایک لاکھ روپے فیس
والاوکیل ہے۔ راناثناء اﷲ کاکیس ایک ریٹائرڈ جج لڑرہاہے۔ ۹ سی کے ملزم کوآج
تک کسی عدالت نے ضمانت نہیں دی۔فوادچوہدری کاکہناتھا کہ راناثناء اﷲ کیس
کودرست طریقے سے ہینڈل نہیں کیاگیا۔جس سے حکومت کوسبکی کاسامناکرناپڑا۔ایف
آئی آراورپریس کانفرنس کے موقف میں واضح تضادتھا۔شیریں مزاری نے کہا کہ آج
کل ہرکارروائی کی فوٹیج بنائی جاتی ہیں ۔اے این ایف کی کارروائی کی فوٹیج
کیوں نہیں بنائی۔ ایک وزیرکوایک نیوزچینل پرہم نے یہ کہتے ہوئے سناکہ اس کے
پاس راناثناء اﷲ سے پکڑی جانے والی منشیات کی ویڈیوز ہیں۔ وہ صاحب تویہ بھی
کہہ رہے تھے کہ جان اﷲ کودینی ہے۔ اگراے این ایف کی اس کارروائی کی فوٹیج
بھی نہیں بنائی گئیں توپھراس وزیرنے یہ کیوں کہا کہ اس کے پاس
ویڈیوزہیں۔ایف آئی آراورپریس کانفرنس کے موقف میں تضادکااعتراف وفاقی
کابینہ کے اجلاس میں کیاگیاہے۔ جب دوگواہوں کے بیانات میں تضادہوتودعویٰ
جھوٹا تصورکیاجاتاہے۔ اب کسی ایک میں توجھوٹ ہوگا ۔ ایف آئی آرمیں جھوٹ
لکھاگیاہے یاپریس کانفرنس میں جھوٹ بولاگیاہے۔ جھوٹ لکھنے یابولنے
والاجوبھی ہے ۔ اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔مرادسعیدکاکہناتھا
کہ کارروائی اورکیس کی مس ہینڈلنگ کے باعث اپوزیشن کوتنقیدکاموقع ملا۔
حکومت کوسبکی کاسامناکرناپڑا اوراپوزیشن کوتنقیدکاموقع ملا۔یہ دونوں جملے
ملاکرپڑھے جائیں توجونقشہ سامنے آتاہے ۔ اس کوسامنے رکھیں اوراس بات
پرغورکریں کہ ادارے آزادہیں۔ ادارے واقعی آزادہیں تواس کیس میں حکومت کی
سبکی کہاں سے ہوگئی۔ اورڈی جی اے این ایف کووفاقی کابینہ کے اجلاس میں
بلانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس نے کارروائی کی۔ معاملہ عدالت میں لے گئی۔
وہاں جوکچھ ہوا۔ یہ سب وفاقی کابینہ کواے این ایف پرچھوڑ دیناچاہیے۔ ملزم
کومجرم ثابت کرنااے این ایف کی ذمہ داری ہے۔ ڈی جی اے این ایف نے کہاکہ
ہماری کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے ۔ہم شواہدکی بنیادپرکارروائی کرتے ہیں۔
فردوس عاشق اعوان کاکہناتھا کہ اے این ایف کوداغدارکرنے کے لیے میڈیامیں
مہم چلائی گئی۔ جنگ لڑنے والے ادارے کااستحصال کیاگیا۔ قومی اداے کاسیاسی
عزائم اورمعاملات سے کوئی لینادینانہیں ہے۔ایک طرف کہاجاتاہے کہ کیس میں مس
ہینڈلنگ ہوئی ۔ حکومت کی سبکی ہوئی ،۔دوسری طرف کہاجاتاہے کہ اے این ایف
کوداغدارکرنے کی میڈیامیں مہم چلائی گئی۔ اس میڈیامہم میں اس وزیرکے
کردارکوبھی دیکھ لیاجائے توبہترہوگاجومیڈیاپرکہہ رہاتھا کہ اس کے پاس
ویڈیوزہیں۔کابینہ کوبتایاگیاکہ وزارت انسانی حقوق کی جانب سے بچوں کے تحفظ
کے لیے بارہ ٹیمیں تشکیل دی جاچکی ہیں جن میں اساتذہ اورسول سوسائٹی سے
تعلق رکھنے والے افرادشامل ہیں۔اس اقدام کامقصدبچوں کوہرقسم کے استحصال سے
تحفظ فراہم کرناہے۔ وفاقی حکومت کایہ اچھااقدام ہے۔ اس مقصدکے لیے بچوں کے
ساتھ کیے جانے والے جرائم کی سزاؤں کوبڑھاناہوگا۔ بچوں کی نگرانی کے لیے
ایک فورس تعینات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جوبچوں کی نگرانی بھی کرے اوران
کوتحفظ بھی دے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم ترین فیصلے کیے گئے ہیں۔ ان فیصلوں کے دوررس
اثرات مرتب ہوں گے۔ اس اجلاس میں جوفیصلے کیے گئے ہیں وہ قوم کے لیے
مفیدثابت ہوجائیں تویہ موجودہ حکومت کی کام یابی ہوگی ۔اوراس اجلاس میں جن
خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کودورکرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس اجلاس
میں معیشت میں بہتری کی جوخو ش خبری سنائی گئی ہے۔ اس میں سابقہ حکومتوں کی
محنت بھی شامل ہے۔ |