امن عالم کے جعلی دعویدار امریکہ نے ایرانی پاسدران
انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کو شہید کرکے اپنے خونخوار چہرے
سے نقاب نوچ کر پھینک دی ۔ امریکہ ایک طرف تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے
دہشت گردی کے خاتمہ کی خاطر یہ جرم کیا ہے ۔ دوسری طرف وہ داعش کو عالمی
دہشت گرد قرار دیتا ہے اور داعش کےخلاف برسرِ پیکار پاپولر موبلائزیشن فورس
کے کمانڈر ابو مہدی المہندس کوجنرل قاسم سلیمانی کے ساتھ شہید کردیتا ہے ۔
امریکی آستین کے پر لگا یہ خون کا دھبہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ
عالمی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ فروغ ہے۔ اس حرکت کے متوقع ردعمل سے
بچنے کے لیے اس نے مزید 3 ہزار فوجی مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا اعلان کیا
ہے۔عراق میں امریکہ کے سفارت خانے پرمظاہرے کے بعد امریکہ نے 750 فوجی عراق
میں بھیجے تھے ۔امریکہ کے 14 ہزار سے زائد فوجی پہلے ہی خطے میں موجود ہیں
جن میں سے 5200 عراق میں ہیں۔
مواخذے کی بدنامی سے بچنے کے لیے اپنے پیش رو صدور کی مانند ٹرمپ نے بھی
وہی پرانا گھسا پٹا طریقہ استعمال کیا جو امریکی جمہوریت کی شناخت بن گیا
ہے۔ اس بزدلانہ حملے کے بعد عراقْی ایوان ِ پارلیمان کا ہنگامی اجلاس ہورہا
ہےتاکہ عراق کی سرزمین پر امریکی وجود کو جواز دینے والے معاہدے کو ختم کیا
جاسکے۔ اس طرح اپنے انتخابی فائدے کے لیے صدر ٹرمپ نے قومی مفاد کو داوں پر
لگا دیا ہے۔ اس حملے کے بعدصدر ٹرمپ نے پہلے تو ٹویٹر پر صرف امریکہ کا
پرچم لہرا کر بلا واسطہ اس کی ذمہ داری قبول کی مگر بعد میں میڈیا سے بات
کرتے ہوئے کہا کہ قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کے لیے بہت عرصہ پہلے یہ حملہ
ہو جانا چاہئے تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت پہلے سے کیا مراد ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ نومبر 2011 میں کیے گئے ایک ٹویٹ میں اس کا جواب اور
وجہ دونوں موجود ہے ۔ انہوں نے لکھا تھا براک اوبامہ انتخاب جیتنے کے لیے
ایران سے جنگ چھیڑ دے گا ۔ انتخاب جیتنے کی خاطر اگر براک اوبامہ ایران سے
جنگ چھیڑ سکتے تھے تو اپنی امیدواری کو یقینی بنانے کے لیے ٹرمپ یہ مجرمانہ
حرکت کیوں نہیں کرسکتے؟ امریکہ کے اندر صدارتی انتخابات دو مراحل میں ہوتے
ہیں ۔ پہلے اپنی جماعت کے اندر امیدواری دوڑ میں کامیاب ہونا پڑتا ہے اور
اس کے بعد ہی عوام کو بیوقوف بناکر انتخاب جیتنے کا مرحلہ آتا ہے۔ ڈونلڈ
ٹرمپ کو فی الحال پہلا مرحلہ درپیش ہے۔ مواخذے کی کارروائی نے ان کی دوبارہ
امیدواری پر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے اس لیے حواس باختہ ہوکر وہ
درندگی پر اتر آئے ہیں ۔
ایک عجیب حماقت یہ بھی ہے کہ امریکہ اپنے حملے کومدافعانہ کارروائی اور
مخالفین کی مدافعت کو حملہ قرار دے دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے شہید قاسم سلیمانی
کو ہزاروں امریکی، عراقی اور ایرانی شہریوں کی اموات کا ذمہ دار قرار دے
دیا ہےجبکہ ہیرو شیما سے لے کر ویتنام اور عراق سے افغانستان تک امریکہ بے
قصور لوگوں کا خون بہاتا رہا ہے۔ جنرل قاسم کی ہلاکت پر چین ، ہندوستان ،
پاکستان اور افغانستان سمیت اقوام متحدہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔روس کی
وزارت خارجہ نے جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کو خطرناک مہم جوئی قرار
دیا اور کہا کہ اس کا نتیجہ میں خطے کے اندر تناو کی شدت میں اضافہ ہو گا۔
انہوں نے ایران ایرانی قوم سے ہمدردی کے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنرل
سلیمانی اپنے ملک کے قومی مفادات کے محافظ بتایا۔
ایران اس موقع پر عزم کا اظہار کیا ہے کہ عالمی مزاحمت کی علامت قاسم
سلیمانی کے قاتلوں اور مجرموں کے خلاف ضرور کامیابیحاصلکی جائے گی ۔ اس
مجرمانہ اقدام سے امریکہ کا مقصد نہ صرف عراق اور ایران بلکہ پورے خطے میں
اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ جنرل قاسم
سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت اسلامی مزاحمتی بلاک میں نئی روح
پھونک دے گی اور مجاہدین اسلام پہلے سے زیادہ پرعزم و حوصلہ کے ساتھ شیطانی
سازشوں کے خلاف سرگرم عمل ہو جائیں گے۔ بے شک جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے
ساتھیوں کا پاکیزہ خون اسلامی مزاحمت کے درخت کی آبیاری کرتے ہوئے اسے مزید
طاقتور بنا دے گا۔
عراق کےروحانی پیشوا آیت اللہ علی سیستانی نے اس بزدلانہ حملہ کوعراق کی
خودمختاری اور بین الاقوامی اقدار کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ عراق کے صدر
برہم صالح نے کہا کہ "ہم عراق کی مسلح افواج سے وابستہ سیکورٹی کمانڈرز پر
امریکہ کے ہوائی حملے کی مذمت کرتے ہیں ‘‘۔ عراق کے نگران وزیراعظم عادل
عبدالمہدی نے کہا: "ہم برادر ابو مہدی المہندس اور قاسم سلیمانی کےقتل کی
شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ دونوں شہید داعش کے خلاف فتح کی علامت تھے۔" بدر
آرگنائزیشن کے چیف کمانڈر ہادی العامری کے مطابق : "امریکہ کے اس مجرمانہ
اقدام نے جہاد کے راستے اور الہی اصولوں اور اقدار کی پاسداری کیلئے جدوجہد
میں ہمارا عزم مزید پختہ کر دیا ہے۔" عراق کے اہم سیاسی رہنما مقتدیٰ
الصدرکے مطابق : "عالمی استبداد و استکبار نےمجاہدین کو نشانہ بنانا کر
عالمی سطح جہاد کےانقلابی جذبے کو ہد ف بنایا ہے لیکن اس سے ہمارا عزمِجہاد
کم نہیں ہو گا۔" امریکہ نے عراق کی سرزمین پر قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ
کر کے اپنے خلاف انتقامی کاروائی کے بھی نئے باب کھول دیے ہیں اور اب خطے
میں ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جنگ کے اصول تبدیل ہو چکے ہیں۔
عراق فی الحال ایک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے ۔ بغداد میں حکومت مخالفین
مظاہرے ایک عرصے سے ہورہے ہیں۔ وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے اپنے عہدے سے
استعفیٰ دے رکھا ہے۔ امریکی جنگی طیاروں نے اتوار29 جنوری 2019 کو ایک
کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا جس میں تنظیم کے اہم
کمانڈروں سمیت کم از کم 25 جنگجو ہلاک اور 51 زخمی ہوئے تھے۔امریکی فوج کی
اس کارروائی کے خلاف ہزاروں افراد نے امریکی سفارت خانے کی جانب مارچ
کیا۔مظاہرین سخت سیکیورٹی والے 'گرین زون' کی رکاوٹیں توڑکر امریکی سفارت
خانے کی عمارت تک پہنچے اور 'امریکہ مردہ اباد' کے نعرے لگاتےہوئے امریکی
پرچم نذر آتش کیا۔ اس حملے کو عراق کی حکومت نے قومی خودمختاری کی خلاف
قرار دیتے ہوئے امریکی سفیرکو طلب کیا۔عراق کے منتخب ارکان پارلیمان نے
امریکی فوج کو ملک سے بےدخل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
زندگی اور موت سے متعلق اسلام اور دیگر ادیان کے ماننے والوں میں جو فرق ہے
وہ بھی قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ساری دنیا کے سامنے آگیا ۔ یوروپ میں
جب کوئی رہنما ہلاک ہوتا ہے تو زبردست ہائے توبہ مچتی ہے۔ رونا دھونا اور
سوگ و ماتم کا طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس قاسم سلیمانی کی شہادت
پرآیت اللہ خامنہ آئی نے جو تعزیتی پیغام لکھا اس کو دیکھیں ۔ آپ
رقمطراز ہیں ’’ اسلام کے عظیم، باعث فخر اور مایۂ ناز کمانڈر عالم ملکوت
کی جانب پرواز کر گئے۔گزشتہ شب شہدا کی ارواح نے قاسم سلیمانی کی پاکیزہ
روح کو اپنی آغوش میں لیا۔دنیا کے شیطانوں اور شرپسندوں کے مقابلے میں
برسوں کی مخلصانہ اور شجاعانہ جد و جہد اور راہ خدا میں شہید ہونے کی انکی
آرزو رنگ لائی اور سلیمانی کو اس بلند و بالا مقام سے ہمکنار کیا اور ان کا
خون بشریت کے شقی ترین افراد کے ہاتھوں زمین پر بہا دیا گیا۔میں اس عظیم
شہادت پر حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ اور خود شہید کی روح کی خدمت میں
مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا
ہوں۔ اسی کو علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
جنرل قاسم سلیمانی کی موت کے بعد بھی ان کی آخریایمان افروز تقریر امت کو
زندگی کا پیغام دیتی ہے :انہوں نے کہا تھا :جب تک کوئی شہید نہیں تھا، شہید
نہیں ہوگا ۔شہادت کی شرط ہونے میں ہے۔ اگر آج آپ نے کسی کو دیکھا جس کی
باتوں اور کردار و عمل سےشہید کی خوشبو آئے تو جان لیں کے وہ شہید
ہوگا۔ہمارے تمام شہداء میں یہ بات تھی ۔ اپنی شہادت سے پہلے وہ شہید تھے۔
علم جاننے سے پہلے کوئی عالم نہیں بنتا۔عالم بننے کی شرط علم جاننا ہے۔شہید
ہونے کی شرط شہید رہنا ہے۔ اسی لیے ان کو زندہ شہید کے خطاب سے نوازنے والے
آیت اللہ خامنہ آئی آگے لکھتے ہیں : برسوں پر مشتمل انکی انتھک جدو جہد
کا پھل انہیں شہادت کی شکل میں ملا،
اس پیغام میں آگے لکھا ہے کہ ان کے چلے جانے سے بلطف و اذن خدا ان کا مشن
نہ رکے گا اور نہ تعطل کا شکار ہوگا۔مگر سخت انتقام ان مجرموں کے انتظار
میں ہے جنہوں نے اپنے ناپاک ہاتھوں کو انکے اور گزشتہ شب شہید ہونے والوں
کے خون سے رنگا ہے۔شہید سلیمانی مزاحمتی و استقامتی محاذ کا ایک عالمی چہرہ
ہیں اور اس محاذ سے وابستہ تمام افراد انکی خونخواہی اور انتقام کے طالب
ہیں۔سبھی دوست اور سبھی دشمن یہ سمجھ لیں کہ مزاحمت و استقامت کی راہ مزید
مستحکم عزم و حوصلے کے ساتھ جاری و ساری رہے گی اور یقینی طور پر کامیابی
اس مبارک راہ میں گامزن رہنے والوں کے قدم چومے گی۔ہمارے عزیز اور جانثار
کی شہادت ہمارے لئے تلخ ضرور ہے مگر آخری کامیابی کے حصول تک اپنی جد و جہد
قاتلوں اور مجرموں کے لئے اِس سے کہیں زیادہ تلخ ثابت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سے
دعا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی خطا و ں کو معاف فرما کر انہیں جنت الفردوس
میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ قاسم سلیمانی جاتے جاتے اس شعر کی زندہ تفسیر
بن گئے کہ ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصود ِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
|