خصوصی عداٖ جو لو گ تاریخ کی صحیح [ رائیٹ] جانب
کھڑے ہوتے ہیں وہی فاتح قرار پاتے ہیں۔تاریخ کبھی صحیح کو غلط اور غلط کو
صحیح قرار نہیں دیتی ۔ حکمران سچ اور جھوٹ کا گلہ ضرور دباتے ہیں لیکن ان
کے گلہ دبانے سے سچ اور جھوٹ میں فرق تھوڑا مٹتا ہے۔ شب خون کسی بھی تعریف
سے جائز قرار نہیں پا سکتا اور مزاحمت کار کبھی تہمتوں اور الزامات سے
ملامتی قرار نہیں پا سکتا۔بھگت سنگھ کو بغاوت کے الزام میں پھانسی ضرور ہو
گئی لیکن تاریخ نے آخری فیصلہ بھگت سنگھ کے حق میں سنایا کیونکہ زمانہِ
قدیم سے تاریخ کا یہی چلن ہے اور بھگت سنگھ کی سلامی اسی کا تسلسل ہے ۔
پاکستان میں شب خونوں کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں منتخب حکمران تختہ مشق
بنتے رہے اور غاصب طاقت کے زور پر جائز قرار پاتے رہے ۔لاکھوں توجیہات اور
دلائل غاصب کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔جبر کے منحوس سائے تلے وقتی طور پر
غاصب خود کو فاتح قرار دے لیتا ہے لیکن تاریخ اسے جائز ہونے کی کوئی سند
عطا نہیں کرتی ۔ اس کا قتدار اورجبر چونکہ وقتی اور ہنگامی ہوتا ہے اس لئے
وہ ایک مقررہ مدت کے بعد اپنا تشخص کھو دیتا ہے۔جنر ل محمد ایوب خان سے
شروع ہونے والی داستان کا آخری باب جنرل پرویز مشرف تھا ۔اس کا غرور اورر
تمکنت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔وہ کسی کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھتا تھا
۔ وہ خود کو عقلِ کل قرار دیتا تھا اور خود پسندی کے خول میں بند رہتا
تھا۔وہ اپنے فیصلوں کو انتہائی دنشمندانہ اور جرات مندانہ قرار دیتا تھا۔وہ
خود کوقوم کا نجات دہندہ سمجھتا تھا اور اسی زعم میں جائز و ناجائز کی تمیز
بھول جاتا تھا۔جب دنیا کی اکلوتی سپر پاور کسی کی پشت پر کھڑی ہو تو انسان
کا بہک جانا فطری ہوتا ہے۔سپر پاور کی حمائت اگر چہ وقتی ہوتی ہے لیکن
کوتاہ اندیش حکمران اسے مستقل سمجھ بیٹھتے ہیں جس سے انھیں سخت خفت اٹھانی
پڑتی ہے۔سپر پاور سب کچھ اپنے مفادات کے آئینے میں دیکھتی ہے اور اپنے
مفادات کے مطابق حکمرانوں کو اہمیت دیتی ہے لیکن حریص حکمرانوں کو اس کا
ادراک نہیں ہوتا ۔نائن الیون میں سپر پاور کو پاکستان کی اشد ضروت تھی لہذا
جنرل پرویز مشرف کی ناز برداریاں اٹھانی لازم تھیں اور سپر پاور نے ایسا ہی
کیا لیکن جب وہ لمحہ ٹل گیا تو ناز برداریوں کو بھی الوداع کہہ دیا گیا۔وہی
جنرل پرویز مشرف تھا اور وہی سپر پاور تھی لیکن اب ہاتھ جنرل پرویز مشرف کے
شانے پر نہیں بلکہ کسی اور کے شانے پر تھا۔ ہاتھ بدلنے کی دیر تھی تو پھر
وہ جھنیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی انہی سے این آر او کرنا
پڑ گیا ۔ ساری اکڑ اورسارا غرور ہاتھ کے بدل جانے سے ایک ہی جھٹکے میں زمین
بوس ہو گیا۔دوسروں کو وطن کی مٹی سے محروم رکھنے والا خود جلا وطنی پر
مجبور ہو گیا۔وطن کی مٹی گواہ رہنا کہ کہ تیرے جانثاروں نے تیری آن بان اور
عظمت کی خاطر ہر طرح کی مصلحت کو بالائے طاق رکھا تھا۔وہ سرِ دار تو جھول
گئے تھے لیکن انھوں نے تیری حرمت پر حرفِ ملامت نہ آنے دیا۔انھوں نے اپنی
جوانیاں لٹا کر تجھے توانائی عطا کی تھی۔ان کی قربانی تاریخ کا حسن ،
انسانیت کی پیشانی کا جھومر اور انسایت کا فخر ہے۔اگرچہ وقتی طور پر انھیں
حزیمت اٹھانی پڑی تھی لیکن تاریخ نے ان کی قربانیوں کو ہمیشہ سنہری حروف
میں لکھ کر ہر حریت یت پسند کی آنکھ کا سرمہ بنا دیا۔بے نام اور گمنام ہیرو
تو اپنی جگہ اہم ہیں لیکن وہ جھنوں نے ساری دنیا کے سامنے آمر کو للکارا
تھا ان کی شان و عظمت ملحوظِ نظر رہنی چائیے۔محبوبیت کی دولت یونہی تو
سمیٹی نہیں جاتی اس کیلئے جان جیسی بیش بہا دولت کو لٹانا پڑتا ہے۔سوال کسی
کی ذات کا نہیں ہے ،کسی کے نام اور قبیلے کا نہیں ہے،کسی کی برادری کا نہیں
،کسی کے علاقے اور مذ مہب کا نہیں ہے بلکہ انسانی عظمت کی ناطر آزادی کی
جنگ لڑنے کا ہے، انسان سے محبت کرنے کا ہے،انسان ہو نے کے ناطے اسے تقدیس
عطا کرنے کا ہے،جھنیں ان کی ماؤں نے آزاد جنا تھا انھیں غلامی کی زنجیروں
سے رہائی دینے کا ہے ۔ہم آج بھی جبر کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن
آمروں کو للکارنے والی آوازیں ہماری سماعتوں کو توانا ئی سے سرفراز نہیں
کرتیں ۔ہمیں وقت کی کوکھ سے کسی بطلِ حریت کے نمو دار ہونے کی آس ہے لیکن
افسوس ہماری نگاہیں ایسے کسی بطلِ حریت کے وجود کو دیکھنے سے محروم ہیں۔
لت کے حالیہ فیصلہ کی روشنی میں یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچ گئی ہے کہ اب
پاکستان میں کسی مہم جوئی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔شب خونوں کے حمائیتی اب
بھی اپنی زبانیں دراز کئے ہوئے ہیں کیونکہ انھیں ان ہاتھوں کی اشد ضرورت ہے
جو اقتدار کا حتمی فیصلہ کرتی ہیں لیکن اب وقت تیزی سے اس جانب رواں دواں
ہے جہاں پر عوام کی رائے حرفِ آخر قرار پائے گی۔ ۵ جو لائی ۱۹۷۷ کو جس طرح
آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری گئیں اور ایک منتخب وزیرِ اعظم کو جس طرح سرِ
دار کھینچا گیا اس کی باز گشت سے تاریخ کے درو دیوار لرزاں تھے لیکن اس وقت
کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ آمرِوقت کے فیصلہ سے انحراف کرتے ہوئے
اسے مجرم قرار دیتا ۔آئین اس معاملے میں بالکل خاموش تھا لیکن یہ تو
ذولفقار علی بھٹو کی نگاہِ دور رس کا کمال تھا جس نے آئین میں دفعہ چھ کا
اضافہ کیا اور اسے غداری سے تعبیر کیاجسے اٹھارو یں ترمیم میں موت کی سزا
کا حقدار ٹھہرایا گیا ۔خصوصی عدالت کا فیصلہ آمریت کے تابوت میں آخری کیل
ہے لیکن عدلیہ کو یہ تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے کئی دہائیاں لگ گئیں۔سچ تو یہی
ہے کہ غیر آئینی اور غیر قانونی عمل کو ایک دن قانون کی عدالت میں شرمندہ
ہونا پڑتا ہے۔ ۱۲ اکتو بر ۱۹۹۹ کو اقتدار پر قبضہ ہوا عوام خا موش رہے
کیونکہ عدلیہ کمزور تھی جبکہ اسٹیبلشمنٹ انتہائی طاقتور تھی۔لیکن آٹھارویں
ترمیم کے بعد اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوئی اور عدلیہ کو نئی طاقت نصیب ہوئی ۔سوال
یہ ہے کہ وہ کون تھا جس نے ۱۲ اکتوبر کو شب خون مارا؟ سات نومبر کو ایمر
جنسی نافذ کی؟ججز کو گرفتار کیا؟ ملک کے منتخب وزیرِ اعظم کو جہاز کی سیٹ
کے ساتھ باندھ کر کراچی لایا؟ کون تھا جس نے قوم کے دو محبوب راہنماؤں کو
ملک سے جلا وطن کیا؟ کون تھا جس نے ۱۸ اکتوبر ۲۰۰۷ کو محترمہ بے نظیر بھٹو
کی وطن واپسی پر ان کے جلوس پر خود کش حملہ کروایاجس میں ۱۵۰ لوگ شہید ہوئے
جبکہ سینکڑو ں لوگ زخمی ہوئے ؟۲۷ دسمبر ۲۰۰۷ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو دن
دحاڑے قتل کر دیا گیا اور جائے وقوعہ پر خون کے دھبوں کو دھو دیا گیا۔ایسا
کس کے حکم پر ہوا؟ سرداراکبر بگٹی کا قاتل کون تھا؟ کون تھا جس نے اس کے
چہرہ کو گھر والوں کو دیکھنے کی اجازت نہ دی ؟اکبر بگٹی کے تابوت کو
ٹیلیویژن پر دکھایا گیا تھا جس پر تا لا لگا ہوا تھا اور اس منظر کو پوری
قوم نے دیکھا تھا؟ ۱۲مئی ۲۰۰۷ کو کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور
درجنوں افراد کو اقتدار کے نشہ میں قتل کر دیا گیا۔آمریت کا ایک ایساہالہ
قائم کیا گیا جس پر انصاف پسند حلقے تلملا اٹھے لیکن کسی میں اتنی جرات نہ
تھی کہ وہ سفاک آمرکی آمریت کو للکارتا ۔ یہ تو چیف جسٹس افتحار احمد
چوہدری کی باجرات اور توانا آواز تھی جس نے آمریت کے محل کو زمین بوس
کیا۔کسے گمان تھا کہ چیف جسٹس افتحار احمد چوہدری کی آواز جنرل پرویز مشرف
کی بے رحم آ مریت کو بھسم کر دے گی ؟ جنرل پرویز مشرف نے جس طرح ملک کے
جمہوری نظام کو تباہ و برباد کیا اور عوام کو ظلم و جبر کا نشان بنا یا کسی
سے ڈھکا چھپا نہیں ۔آئیے عدلیہ کے تاریخی فیصلہ پر اس سے اظہارِ یکجہتی
کریں اور تاریخ کی رائٹ سائڈ پر کھڑا ہونے کی سعادت حاصل کریں کیونکہ ازل
سے یہی دل والوں کا خاصہ رہا ہے۔،۔
|