امریکہ کی ایران پر جارحیت

امریکہ بہادر نے بغداد میں اپنے سفارت خانے پر پر تشدد حملے کا انتقام لینے کے لئے ایران میں آیت اﷲ خامنہ ای کے بعد سب سے زیادہ عوامی مقبول شخصیت بریگیڈ القدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو عراق کے ائیرپورٹ کے باہر ڈرون حملے کا نشانہ بنا کر پورے مشرقی وسطیٰ میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ایران کے خلاف بدترین جارحیت کا ارتکاب کرنے میں امریکہ نے اس حرکت کے ذریعے براہ راست طور پر ایران کو للکارنے کی جرئات کی ہے اور اس کھلی جارحیت کے بعد اب امریکہ ، ایران کے درمیان مصالحت، دوستی کی وہ کمزور ڈور بھی کٹ گئی ہے جس کی تھوڑی بہت امید تھی۔ اگرچہ چین، روس اور دیگر ممالک نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے حوالے سے کہا ہے کہ اس سے خطے میں امن واستحکام کو خطرہ لاحق ہوگیاہے۔ وزارت کی جانب سے جاری کردہ اعلان میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ واقعات باعث تشویش ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے اندیشوں کے حامل واقعات نے خطے میں امن و استحکام کی فضا کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجانی شروع کر دی ہیں۔ حاکمیت و زمینی سالمیت جیسے معاملات کا احترام اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں کا ایک جزو ہونے پر مبنی بیان میں کہا گیا ہے کہ یک طرفہ اقدامات اور طاقت کے استعمال سے اجتناب کرناچاہئیے، دریں اثناء چینی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ چین بین الاقوامی معاملات میں طاقت کے استعمال کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہے۔ مزید چین نے عراق کی آزادی اور حاکمیت کے احترام پر زور دیا۔ اسی طرح روسی وزارت خارجہ کے بیان میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت کو ایک مہم جوئی قرار دی گیا اور کہا ہے کہ یہ خطے میں کشیدگی بڑھنے کا سبب بنے گی۔ فرانسی وزیر برائے یورپ ایمیلی ڈی موں کا کہنا ہے کہ ایسے آپریشن سے مجموعی صورتحال میں کشیدگی بڑھتی ہے اور دنیا کی کوشش ہونی چاہئیے کہ خطے کے امن واستحکام کو برقرار رکھا جائے۔ شامی حکومت نے امریکہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سلیمانی کو قتل کرکے ٹرمپ حکومت نے مشرقی وسطیٰ کے تنازعے کی آگ پر تیل چھڑکا ہے۔ دمشق نے اس امریکی اقدام کو ایک بزدلانہ فعل قرار دیا ہے۔ لبنانی سیاسی وعسکری تحریک حزب اﷲ نے کہا ہے کہ سلیمانی کو ہلاک کرنے والوں سے انتقام لینا دنیا بھر کی مزاحمتی قوتوں کا ٹاسک ہونا چاہئیے۔ حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصراﷲ نے کہا کہ وہ سلیمانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمام ادھورے مقاصد کی تکمیل کریں گے۔ عراقی وزیر اعظم نے امریکی حملے کو جارحیت قرار دیا۔ہندوستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ سے پوری دنیا تشویش میں مبتلا ہے اور یہ ضروری ہے کہ صورت حال اور زیادہ نہ بگڑے البتہ اس امریکی جارحیت پر عرب، اسرائیل اور چند امریکی حلیف یورپی و ایشیائی ممالک کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ امریکہ دفاعی ادارے پنٹگان نے واضح کیا ہے کہ یہ حملہ صدر ٹرمپ کی ایماء یعنی حکم پر کیا گیا ہے کیونکہ حالیہ برس میں خطہ میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور بغداد میں سفارت خانے پر حملے کے پیچھے جنرل سلیمانی کا ہی ہاتھ تھا۔ مگر پنٹگان نے جنرل سلیمانی کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے۔ اس امریکی جارحیت کے فوری ردعمل کے طور پر تیل اور سونا چاندی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیاہے جس کے پاکستان سمیت خطے میں اثرات پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مغربی ممالک خصوصاًامریکی اخبارات کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے اس حملے کے دو مقاصد ہیں ایک تحریک مواخذہ سے توجہ ہٹانا ہے جو ایوا نی نمائندگان میں پاس ہونے کے بعد اب سینیٹ میں زیر بحث لائی جائے گی دوسرا یہ کہ اس سال کے آخر میں آنے والے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں عوام کے دل جیتنا ہیں۔دوسری جانب ایران کی قیادت اورسپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای نے امریکی قیادت ٹرمپ کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لیا جائے گا،آیت اﷲ نے جرئات کے ساتھ سخت لب و لہجہ میں کہا ہے کہ ــ’’سخت انتقام ان مجرمین کا منتظر ہے جنہوں نے قاسم سلیمانی اور دیگر شہیدوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں‘‘۔ آیت اﷲ نے قاسم کی ہلاکت پر ایران میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو ایران آسانی سے ہر گز نہیں لے گا اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایرانی قیادت ان کی موت پر جس انتقام لینے کی بات کررہاہے اس کے بعد خطے میں کشیدگی کے اضافے کے امکان بڑھ گئے ہیں۔ دوسری طرف عراق، شام اور لبنان میں موجودکثیر شیعہ عسکری گروپس نے جنرل قاسم کی موت کا انتقام لینے کا اعلان کر دیاہے اور یقینی طور پر یہ اقدامات دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑے ٹکراؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ کیونکہ امریکہ کافی عرصہ سے ایران سے ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن ہے۔امریکی صدر ٹرمپ ایرانی قیادت کو بزورطاقت تابع اور مطیع کرنا چاہتا ہے مگر ایرانی قیادت دبنے کے بجائے ابھرنے پر زور لگا رہا ہے ۔ روس چائنا طاقتیں بھی ایران کی پشت پر ہیں۔ ایرانی تیل پر امریکی پابندی لگائی جانے کے بعد سے اس علاقہ میں کشیدگی پائی جارہی ہے اور اب اس میں مزید شدت پیدا ہو سکتی ہے اور جارحیت و تباہی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ کئی سیاسی و دفاعی مبصرین نے جنرل سلیمانی کو نشانہ بنائے جانے کو ’’امریکہ کا ایران کے خلاف اعلان جنگ ‘‘قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایران اب خاموش نہیں رہے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اپنی لگائی ہوئی اس آگ سے نمٹنے کے لئے کیا اقدام اٹھاتا ہے اور یہ جلتی آگ کس حد تک پھیلتی ہے اور کتنے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ ایران امریکہ تناؤ میں شدت اس وقت بڑھا جب 27دسمبر2019ء کو عراقی فوج کے ایک احاطے میں راکٹ کے فائر سے ایک امریکی فوجی کی موت واقع ہوئی اس کے بعد امریکی فضائیہ نے بمباری کرتے ہوئے شیعہ عسکری گروپ کے پچیس افراد کو ہلاک کردیا۔ اس کا جوابی انتقام شیعہ ملیشیا نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے ذریعے لیا لیکن ایران اور عراق نے شاید کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ امریکہ اس کے خلاف اتنا بڑاقدم اٹھا سکتا ہے لیکن ٹرمپ بہادر نے یہ جارحانہ قدم اٹھا کر انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے اور مواخذہ کی تحریک سے پہلے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ امریکہ کے تحفظ کے لئے فیصلہ کن قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔ یہ وہی ٹرمپ موصوف ہیں جس نے مشرقی وسطیٰ اور افغانستان سے فوج کے انخلاکے معاملے پر اپنے ہی وزیر دفاع کو تبدیل کر دیاتھااور اب اپنی چال میں یوٹرن لے لیاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پورے خطے میں امریکی مفادات ،فوجیوں ، کمپنیوں، سفارتخانوں کے تحفظ اور سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے عراق میں رہائش پذیر اپنے تمام شہریوں کو فوری عراق چھوڑنے کی ہدایت دی ہے۔ یاد رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کوئی عام فوجی سربراہ نہیں تھے۔ وہ ایرانی قوم میں ایک ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔رہبر اعلیٰ آیت اﷲ خامنہ ای کے بعد ان کو دوسری طاقت ور ترین شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ خودامریکی سی آئی اے ان کو ایران کی سب سے طاقتور شخصیت تصور کرتی تھی۔حزب اﷲ اور حماس بھی ان کو اپنا ہیرو تصور کرتی تھیں۔ ایک ایسی شخصیت کو نشانہ بنا کر یقینی طور پر ٹرمپ نے کسی دانشمندی کا ثبوت نہیں دیاہے بلکہ اپنے مفاد کے لئے مشرقی وسطیٰ سمیت خطے کو ایک مرتبہ پھر انتقام جنگ اور جارحیت بدلے کی بھٹی میں جھونکنے کی جسارت کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں سامراجی چالوں سے محفوظ رکھے مزید اب پاکستان کسی امتحان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔۔
 

Idrees Jaami
About the Author: Idrees Jaami Read More Articles by Idrees Jaami: 26 Articles with 19134 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.