حکومت وقت ایک طرف مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک بنانے کے
لیے نت نئےاقدامات کررہی ہےاس صورتحال سے پریشان حال علماء و دانشور
مسلمانوں کے اندر اجتماعی ارتداد کے اندیشوں کا اظہار کرنے لگے ہیں ایسے
میں تمل ناڈو سے یہ دلچسپ خبر آئی کہ وہاں تمل پُلگل نامی تنظیم کے ارکان
نے اپنے اہل عیال کے ساتھ اجتماعی قبول اسلام کی دھمکی دے دی ہے۔ ان لوگوں
کا دعویٰ ہے کہ اس تنظیم سے منسلک افراد اور ان کے تین ہزار افرادِ خانہ ۵
جنوری سے مرحلہ وار اسلام قبول کریں گے ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ
تمل پُلگل کے لوگ ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ مسلمان ہوجانے کے بعد تو ان کی
شہریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ان کو سارے آئینی تحفظات سے محروم کردیا جائے
گا۔ ان کے سارے بنیادی حقوق چھین لیے جائیں گے ۔ ان کو اس ملک میں دوسرے
درجہ کا شہری بنا کر عقوبت خانوں میں ٹھونس دیا جائے گا ؟ اس لیے انہیں
اسلام سے دور رہنا چاہیے ۔
ان سوالات پر نہ صرف زعمائے امت کو بلکہ سنگھ پریوار کے دانشوروں کو بھی
غور کرنا چاہیے۔ انہیں ایک سیاسی شعبدہ بازی قرار دے کر ٹالا نہیں جاسکتا۔
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے وہ لوگ اسلام کو
ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ بات اگر سچ ہو تب بھی یہ تسلیم کرنا
ہوگا کہ اسلام آج بھی مظلوموں کے لیے ڈھال ہے اس لیے اتنے سارے غیر ہندو
مذاہب کو نظر انداز کرکے وہ اسلام کے دامن رحمت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ دین
اسلام ان کو اپنی تحفظ کی ضامن نظر آتا ہے۔ یہ اہم سوال ہے کہ وہ کسی اور
مذہب کے زیر سایہ میں اپنے حقوق کی جنگ کیوں لڑنا نہیں چاہتے؟ ان سارے
سوالات پر غور کرنے سے قبل یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ آخر تمل پُلگل نامی
تنظیم میں کون لوگ شامل ہیں اور انہوں نے میٹو پلایم میں منعقدہ ۲۲ دسمبر
۲۰۱۹ کی نشست میں یہ انقلابی فیصلہ کیوں کیا؟ تمل پُلگل دلتوں کی ایک
تنظیم ہے اوران لوگوں نے ۲ دسمبر کو نادُر گاوں میں پیش آنے والے ایک
ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے یہ اہم فیصلہ کیا۔
۲۹ نومبر سے تمل ناڈو میں زور دار بارش شروع ہوئی ۔ اس قیامت خیز برسات کے
سبب روزمرہ کی زندگی ٹھپ ہوگئی ۔ اسکول اور کالجس بند کردیئے گئے۔ ۴ ضلعوں
کے ایک ایک ہزار لوگوں کو راحت کیمپوں میں پہنچایا گیا ۔ اس آسمانی تباہی
میں جملہ ۲۵ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے ۱۷ کا تعلق نادُر گاوں کے تین
خاندانوں سے تھا۔ وہ ایک دیوار کے گرنے سے لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ حکومت نے
مہلوکین کی مدد کے لیے چار لاکھ روپئے کی امداد کا اعلان کیا ۔ بارش کے سبب
کسی دیوار کا گرنا ایک معمولی سانحہ ہوسکتا تھا لیکن اس بیس فٹ اونچی دیوار
کو تعمیر کرنے کے مقصد اور طریقۂ کار نے تنازع پیدا کردیا۔ سیوا سبرامنیم
نامی ایک کپڑوں کے تاجر نے غیر قانونی دیوار بنائی تھی یعنی اس کے لیے
سرکاری اجازت نامہ وغیرہ لینے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی۔ اس کی تعمیر کا
معیار نہایت گھٹیا تھا ۔ اس میں کوئی ستون نہیں تھا اس لیے وہ بارش کے ایک
جھکڑ سے زمین بوس ہو گئی ۔نادُر کے کلکٹر کے راجہ منی نے تسلیم کیا کہ یہ
حادثہ دیوار کا ایک حصہ گرنے سے رونما ہوا نیز باقیماندہ دیوار کو بھی
گرانے کے احکامات صادر کردیئے۔
دیوار کے معیار اور طریقۂ کار سے زیادہ سنگین سوال یہ ہے کہ اسے تعمیر کی
غرض و غایت کیا تھی ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسے دلتوں کو دور رکھنے کے
لیے بنایا گیا تھا گویا یہ ایک چھوت چھات کی دیوار تھی۔انتظامیہ کے سامنے
مہلوکین کے رشتے دار اس کو منہدم کرنے کی فریاد کرچکے تھے لیکن اسے نظر
انداز کردیا گیا اور بالآخر جب وہ گری تو اپنے ساتھ ۱۷ بے قصور لوگوں کو
بھی لے گئی ۔ اس سانحہ کے خلاف مہلوکین کے رشتے داروں نے سب سے پہلے
کوئمبتور اسپتال کے سامنےاحتجاج کیا ۔ اس کے بعد تمل ٹائیگرس، دراڈار تملار
کچھی اورودوتھلائی چیرو تھیگل کے ساتھ میٹوپلایم گورنمنٹ اسپتال کے سامنے
مظاہرہ کیا گیا ۔ تمل پُلگل کچھی نے اس کے خلاف اوٹی جانے والی سڑک بند
کردی ۔ پولس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جس کا اعتراف مقامی
رکن پارلیمان روی کمار نے مرکزی وزیر برائے سماجی انصاف تھاور چند گہلوت کو
لکھے گئے اپنے محضر نامہ میں کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ پولسننے نہ صرف
مظاہرین کو زدو کوب کیا بلکہ ایک فرد کو ڈھکیل کر اسے تقریباً کچل دیا۔ روی
کمار نے یہ سوال بھی کیا چونکہ دلت کی موت ہوئی ہے اس لیے کیا اس کے جان کی
قیمت صرف ۴ لاکھ روپئے ہے؟
اس معاملے میں روی کمار سمیت سارے احتجاج کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ
سبرامنیم کے خلاف ایس سی ، ایس ٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور
مہلوکین کے اہل خانہ کو ۲۵ لاکھ روپئے ہرجانہ کے ساتھ اور سرکاری ملازمت دی
جائے لیکن این ڈی اے میں شامل اے آئی ڈی ایم کے کی صوبائی حکومت نے ان
سارے مطالبات کو ٹھکرا دیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جہاں سیوا سبرامنیم
کو ضمانت مل گئی وہیں تمل پلگل کے رہنما ہنوز جیل میں بند ہیں ۔ اسی لیے
انہوں نے تبدیلیٔ مذہب کا فیصلہ لیتے ہوئے کہا یہ ہمارے لیے آخری راستہ ہے
’’اس مذہب میں ہماری زندگی کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ ان کو اگر دلتوں کی
ضرورت نہیں ہے تو ہمیں بھی ان کی حاجت نہیں ہے‘‘۔ وطن عزیز میں مسلمانوں کی
اس دگر گوں صورتحال کے باوجود مظلومین کا اسلام کی جانب امید کی نظر سے
دیکھنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اسلام کے سوا کوئی اور دین انسانوں کو ظلم و
جبر سے نجات نہیں دلا سکتا ۔ دیگر ادیان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے لیکن جو
لوگ حکومتی جبر و استبداد سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اسلام کی پناہ
میں آنا چاہتے ہیں۔ اس دین کو قبول کرنے کے نتیجے میں جن مسائل و مشکلات
سے ان کا سابقہ پڑ سکتا ہے وہ اس کی پر وا نہیں کرتے کیونکہ اس دنیا میں
عدل و مساوات سے بڑی کوئی اور نعمت نہیں ہے ۔ خوددار قومیں عزت و وقار کی
زندگی گذارنے کے لیے بغیر کسی مصالحت کے بڑی بڑی سے قربانی دینے کے لیے
تیار ہوجاتی ہیں ۔ ایسے میں مسلمانوں کا ان فسطائی طاقتوں سے مرعوب ہوکر ان
سے خوف کھانااور ارتداد کی باتیں کرنا مضحکہ خیز نہیں تو کیا ہے؟
(۰۰۰۰۰۰جاری)
|