آرایس ایس کےسربراہ موہن بھاگوت جب بہت دنوں تک ذرائع
ابلاغ کے ذریعہ نظر انداز کیے جانے کے سبب پریشان ہوجاتے ہیں تو کوئی نہ
کوئی متنازع بیان دے کر دوبارہ میڈیا کی توجہاپنی جانب مبذول کرانے کی سعی
کرتے ہیں۔ ان کے پاس کہنے کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے اس لیے پرانے بیانات
کو نئے قالب میں ڈھال کر دوہرا دیتے ہیں ۔ حال میں حیدرآباد کے اندر انہوں
نےکہاکہ آرایس ایس کی نظر میں ملک کے اندر بسنے والی 130 کروڑآبادی
ہندوسماج ہے۔ان کامذہب اورتہذیب چاہےکچھ بھی ہو۔مذہب اورتہذیب پرتوجہ
دیئےبغیرجذبۂ قومیت سے سرشارہندوستان کی ثقافت اور وراثت کااحترام کرنے
والے لوگ ہندوہیں۔ موہن بھاگوت کے کسی ہندو کہہ دینے سے وہ ہندو نہیں
ہوجاتا بلکہ جب تک کوئی خود یہ نہیں کہتا کہ میں ہندو ہوں وہ ہندو نہیں
ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ بھاگوت جیسے لوگوں کے سبب لنگایت جیسے ہندو سمجھے
جانے والے لوگ بھی ہندو مذہب سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
موہن بھاگوت نےمزیدکہاکہ مادروطن کاسپوت چاہےکوئی بھی زبان بولےچاہےوہ کسی
بھی علاقےکاہواسکی عبادت کاطریقہ کچھ بھی ہووہ ایک ہندوہے۔اسی لیےآرایس
ایس سبھی کوقبول کرتاہے۔اوران کےتعلق سےبہترسوچ رکھتاہے ۔ وہ اگر اپنے بیان
میں مخلص ہیں تو انہیں یوگی ادیتیہ کے ذریعہ اترپردیش میں مسلمانوں کے خلاف
ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف لب کشائی کر نا چاہیے لیکن وہ ایسا ہر گز
نہیں کریں گے اس لیے ہاتھی کے کھانے کے اور دکھانے کے دانت مختلف ہوتے ہیں۔
یہی سلوک اگر کوئی غیر بی جے پی وزیر اعلیٰ کاوڑیا لوگوں کے خلاف کرتا جو
اودھم مچانے اور دنگا فساد کرنے کے لیے مشہور ہیں تو اب تک قیامت آجاتی۔
پورا سنگھ پریوار کیل کانٹوں سے لیس ہوکر میدان میں اتر جاتا ۔ سنگھ سنچالک
بھی خاموش تماشائی نہیں بنے رہتے کیونکہ وہ ان کو اپنا ہندو بھائی سمجھتے
ہیں اور بی جے پی ان کے ووٹ کی توقع کرتی ہے۔ مسلمان چونکہ ان پاکھنڈیوں کے
نزدیک کہنے کو بھائی مگر حقیقت میں قصائی ہیں اس لیے یہ لوگ ظلم کو روکنے
کے بجائے اس کو حق بجانب ٹھہرانے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔
چھوت چھات جیسی سماجی برائیوں سے برسرِ پیکار رہنے والےرہنما ای وی آر پیر
یار کی 46 ویں برسی کے موقع پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک ٹویٹ سےاس بات کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمل ناڈو کے براہمنوں میں دیگر طبقات کے تئیں کس
قدر بغض ہے ۔ وہ پسماندہ طبقات کی فلاح وبہبود کرنے والوں سے کتنا نفرت
کرتے ہیں ۔بی جے پی نے پیر یار اور ان کی اہلیہ کی تصویر کے ساتھ ٹویٹ میں
کہا’’منیا ممائی کے والد ای وی راما سوامی کی برسی کے موقع پر بچوں کا جنسی
استحصال کرنے والوں كو پھانسی کی سزا کی حمایت کرنے اور پاكسو جرائم سے
مبرا معاشرے کے قیام کا عزم کریں ‘‘۔ ٹویٹ کرنے والے یہ احمق نہیں جانتے کہ
تمل ناڈو میں پیر یار کو گاندھی جی سے زیادہ مقبول اور قدر آور
مصلحماناجاتاہے۔ مذکورہ تضحیک آمیز ٹویٹ پر تمل ناڈو کی سیاست پر خلفشار
پیداہوگیا ۔ وہاں کی باشعور عوام نے بی جے پی کو یاد دلایا کہ جس جرم کی
سزا وہ پیریار کو دینا چاہتے ہیں اس کا ارتکاب تو خود نریندر مودی نے کیا
ہے۔ شادی کے وقت جسودھا بین کی عمر ۱۳ سال تھی اس لیے کیوں نہ بچوں کا جنسی
استحصال کی سزا وزیر اعظم کو دی جائے
پی ایم کے پارٹی کے بانی ڈاکٹر ایس رام داس نے بی جے پی کی مذمت کرتے ہوئے
اسے ’نفرت‘ اور بیمار ذہنیت کا غماز بتایا ۔ اس مسئلے پر بی جے پی کی
اتحادی اور ریاست میں حکمراں اے آئی اے ڈی ایم کے ساتھ اہم اپوزیشن ڈی ایم
کے کے لیڈروں نے بھی بی جے پی کے آئی ٹی ونگ کی پرزور مذمت کرتے ہوئے معافی
مانگنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ آج کل بی جے پی والے مخالفین کے ساتھ ساتھ
حامیوں کو بھی ناراض کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔موہن بھاگوت سب کو اپنا سمجھتے
ہیں مگر ان کا پریوار پیریار کو اپنا نہیں سمجھتا ۔ اس لیے تمل ناڈو کی
سیاسی جماعتیں سنگھ پریوار کو اپنا نہیں سمجھتیں اور نہ اس صوبے کے باشندے
سنگھ کو اپنا سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مہاراشٹر کے اندر جہاں آر ایس ایس
کا مرکزی دفتر ہے اگر ہندوتوادی جماعت شیوسینا کو سنگھ پریوار اپنا نہیں
بنا سکا تو وہ کسی اور کو کیا اپنائے گا؟
پیریار پر چوطرفہ حملہ بی جے پی برداشت نہیں کرسکی اور مجبوراً اس نے ٹویٹ
تو ہٹا لیا لیکن تب تک یہ مختلف سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا تھا ۔ اے آئی
اے ڈی ایم حکومت میں وزیر سیلورکے راجو نے کہا’’پیریار ، سی این انادورائی
اور ایم کروناندھی جیسے لیڈروں کی وجہ سے ہی اس ریاست کے لوگ مل جل کر
اتحاد کے ساتھ رہ رہے ہیں‘‘ لیکن چونکہ سنگھ یہ نہیں چاہتا اس لیے وہ ان سب
کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ ڈی ایم کے سربراہ اور حزب اختلاف کے رہنما ایم کے
اسٹالن نے کہا کہ ’’بی جے پی کو ان سے ڈرتے رہنے چاہئے کیونکہ انتقال کے
بعد بھی پیر یار سے بی جے پی کو اتنا خوف ہے‘‘۔ اپنے سیاسی مخالفپر فقرہ
کستے ہوئے وہ بولے’’ اب یہ دیکھنا ہے کہ ایسے میں اے آئی اے ڈی ایم کے شیر
کی طرح اچھلےگا یا کیڑے کی طرح چھپےگا‘‘۔
بی جے پی کے رکن پارلیمان سبرامنیم نےاس طرح کے تکبر کا اظہار اس وقت کیا
تھا جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ٹوئیٹر پر ’’میں بھی چوکیدار‘‘ کیوں
نہیں لکھا۔ اس پر وہ بولے میں براہمن ہوں اس لیے چوکیداری کیسے کرسکتا ہوں۔
ایک آکسفورڈ میں پڑھا لکھا آدمی یہ سوچ رکھتا ہے تو عام براہمن کیا سوچتا
ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔ اس پر یہ لوگ پورے ہندو سماج کو
متحد کرکے ہندو راشٹر قائم کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ہندوستان کے اندر ذات
پات کی تفریق اس قدر عام ہے کہ شہر میں کمرہ لینے کے لیے اور گاوں میں
کنویں سے پانی لینے کے لیے بھی ذات بتانی پڑتی ہے۔ دلت دولہے کو بارات میں
گھوڑے سے اتار دیا جاتا ہے۔ نام نہاد اونچی ذات کے لوگ تمل ناڈو میں بھی
دلت کی لاش کو اپنے کھیت میں گزرنے نہیں دیتے اور نہ اپنی شمسان بھومی میں
جلانے کی اجازت دیتے ہیں ۔مندر میں داخل ہونے سے روکنا تو عام سی بات ہے۔
ایسے میں یہ کون سا ہندو راشٹر بنائیں گے؟ واٹس ایپ میں دن رات ہندو راشٹر
سے مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے ان کی حوصلہ شکنی کرنے والوں کو ان حقائق پر
بھی نظر ڈالنی چاہیے۔
|