این آر سی،سی اے اے اور این پی آر کے تعلق سے جدوجہد
جاری ہے،اس تعلق سے ہم ایک ہی بات کہنا چاہیں گے کہ یہ لڑائی صرف قانون کی
لڑائی نہیں بلکہ اُن چوروں کے خلاف لڑائی ہے جو کبھی گوروں کے چاپلوس ہوا
کرتے تھے،فرق اتنا ہے کہ اس نسل کے دادا و نانا نے گوروں کے خلاف جنگ
کااعلان کیا تھا،لیکن ان کی نسل اُن چوروں کے خلاف لڑرہی ہے،جو ملک کی
سالمیت کو نقصان پہنچا رہی ہے،ملک کی جمہوریت کو ختم کرنا چاہ رہی ہے اور
ملک کے دستورکو بدلنے کی کوشش کررہی ہے۔ہندوستان میں جو حالات ہیں ان حالات
کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری صرف کسی مخصوص طبقے کی نہیں بلکہ ہر شہری کی
ہے،یہ دورپھر سے آزادی کادور لایاہواہے،بعض لوگ یہ سوچ کر خاموش بیٹھے
ہوئے ہیںکہ حکومت این آر سی اور سی اے اے جیسے قوانین کو نافذ نہیں
کریگی،چلئے مان لیں کہ حکومت ان قوانین کو نافذ نہیںکریگی،لیکن ان قوانین
کو یہ کبھی بھی کسی بھی طرح سے استعمال کرسکتی ہے،ممکن ہے کہ وہ اس قانون
کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں ودلت طبقات کو بلاک میل بھی کرنے لگے۔سنگھ
پریوارکی پچھلی95 سالہ حرکتوں کاجائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ
وہ ہر حال میں اس قانون کو نافذ کرکے ہی رہے گی،کیونکہ1925 میں قائم شدہ
آر ایس ایس نے بھارت کو ہندوراشٹر بنانے کے مقصد سے ہی دستور سے زیادہ
منوسمرتی کو نافذ کرنے کیلئے زوردیاتھا،حالانکہ ہندوتوا ان کے نزدیک مذہب
ہے،مگر یہ برہمن ازم کی چال ہے۔تحقیق کے مطابق برہمن اور یہودی ایک ہی جنس
سے تعلق رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ دنیا بھرمیں شر پھیلاتے پھر تے
ہیں۔ہندوستان میں بھی ہندوراشٹر نافذ کرنے کا مقصد برہمن ازم کو نافذ کرنا
ہے،جس رام کی بات آج برہمن ازم اور ہندوتوا تنظیمیں کرتی ہیںاور ملک کو
رام راجیہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں،اُس کا پس منظر دیکھا جائے تو یہ بات
سامنے آئیگی کہ رام بھی اونچی ذات سے تعلق رکھتا تھا اور وہ بھی شودھر،دلت
اور پسماندہ طبقات کو اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتا تھا۔آج وہی رام راجیہ
قائم کرنے کیلئے این آر سی،سی اے اے اور این پی آر کو نافذ کرنے کیلئے
پیش رفت کی جارہی ہے۔ان سنگین حالات میں مسلمانوں کو بھی اپنے طو رپر
ذمداری سنبھالنے کی ضرورت ہے،خاص طو رپر اہل علم حضرات کو اس جانب فکر
کرناچاہیے۔پچھلے چند سالوں سے ہماری تقریریں اور ہدایتیں صر ف اور صرف
اعمال،فضیلتیں،مسلکی و مکتبہ فکرکی تبلیغ اور ایک دوسرے کو بہتر وبرتر ثابت
کرنے پر مشتمل تھیں،اب ان تقریروںکے ساتھ ساتھ کچھ وقت موجودہ حالات پر بھی
بات کریں تو اس سے بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔مولانا ابولکلام آزاد،مولانا
حسرت موہانی،مولانا رشید گنگوئی،فضل حق خیرآبادی جیسی شخصیات بھی علمی
شخصیات تھیں،انہوںنے ہی انگریزوں کے خلاف جہاد کااعلان کیا تھا،آج پھر وقت
آچکا ہے کہ علماء اس وقت میدانِ کارمیں نہ سہی میدانِ کلام اور میدانِ قلم
سے اُمت مسلمہ کی قیادت کریں،یہی حق ہے۔ان حالات میں اس لڑائی کو اگر مزید
موثر اور قومی لڑائی بنانی ہے تو اس کیلئے مسلمانوں کو صرف اور صرف
مسلمانوںکے درمیان کام کرنا نہیں چاہیےبلکہ دلتوں،پسماندہ طبقات و دیگر
اقلیتوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑنے کیلئے کام کرنا چاہیے۔حالانکہ موجودہ
صورتحال میں کئی غیر یہ سوال کررہے ہیںکہ جس وقت دلتوں پر حملے ہوئے تھے تو
اُس وقت تو کسی مسلمان نے ہماری تائید میں احتجاج نہیں کیا؟۔ہماری
تحریکوںمیں حصہ نہیں لیا؟جتنی اذیتیں برہمنوں و دوسری ذاتوں سے جھیلنی پڑی
ہے اُس کے برابرہی تکلیفیں مسلمانوںنے بھی پہنچائی ہے،کبھی حق کا ساتھ دینے
کیلئےہمارے ساتھ نہیں جڑے تو اب کیونکراب ہم اُن کا ساتھ دیں۔ان حالات میں
ہماری ذمہ داری ہے کہ دلتوں و پسماندہ طبقات کی تنظیموں سے رجوع کریںاور
انہیں اعتماد میں لیں،بہوجن کرانتی مورچہ،بیم سف،مسلم راشٹریہ مورچہ جیسی
تنظیموں کے ساتھ کام کریں،یہ وہ پلاٹ فارم ہیںجو دلت دانشوروںکی رہنمائی
میں کام کررہے ہیںاور ہندوستان کے جمہوری نظام کوبچانے کیلئے العلان کام
کررہے ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ ہوجائیں تویقیناً مسلمانوں کو کوئی
نقصان نہیں پہنچا سکتا اور جس دستور کوبدلنے کیلئے برہمن کوشش کررہے ہیںان
کی کوشش بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکرکے ملک کو بچانے کیلئے وہ خودآئینگے
تو ہماری بھی حفاظت ہوجائیگی۔
|