ایرانی انقلاب کے بعد مشرق وسطیٰ اور امت مسلمہ

شہنشاہ نقوی نے پریس کانفرنس کرکے پاکستان کو دھمکی اور امریکہ کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ عالم اسلام کے خلاف جو کردار فرانس نے ادا کیا وہ کبھی یہود نے بھی نہ کیا لیکن امام خمینی فرانس کی سرزمین پر بیٹھ کر ایران میں اسلامی انقلاب لے آتے ہیں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایران میں خمینی انقلاب کے بعد سے مشرق وسطیٰ متعدد بار شورش، عدم استحکام اور جنگوں کا سامنا کرچکا ہے جبکہ اسرائیل کو عربوں کی مزاحمت و جنگوں سے مکمل چھٹکارا مل گیا ہے، ایرانی انقلاب کے فوراً بعد ایک طرف تو ایران امریکہ تنازعہ پیدا ہوگیا اور Hostage Crisis کے نام دنیائے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا تو دوسری طرف ایران عراق جنگ کی صورت خطے میں بدامنی کی لہر نے جنم لے لیا، اس کے بعد گلف وار اور پھر عرب اسپرنگ کے نام پر پورا خطہ شورش، بدامنی و عدم استحکام کا شکار ہوگیا، ایرانی انقلاب کے بعد اس کے اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ تک محدود رہے بلکہ پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آکر فرقہ ورانہ فسادات کا شکار رہا، سعودی عرب میں اوائل اگست 1987 کے حج کے موقع پر ایرانی انقلابیوں نے جو خون خرابہ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، محمد میاں سومرو و توفیق احمد چنیوٹی جیسے بزنس مین سمیت دنیا بھر کے حاجی اس سانحے کے عینی شاہد ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایرانی انقلاب کے بعد بظاہر امریکہ ایران تعلقات ناخوشگوار ہی رہے ہیں لیکن خفیہ طور پر متعدد بار امریکہ ایران تعاون بھی دیکھنے میں آیا ہے نومبر 1986 میں دنیا بھر میں اس انکشاف کی دھوم رہی اور واشنگٹن پوسٹ نے خبر شایع کی کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے تعاون سے ریگن انتظامیہ نے ایران کو اسلحہ فراہم کیا، اس کے علاوہ عراق و شام میں ایران امریکی تعاون سے مخالف گروہوں کے خلاف کاروائی کرتا رہا اور مختلف اسلامی ممالک میں خفیہ تنظیمیں متحرک و منظم کرتا رہا ہے اور ان تنظیموں نے بہت سے عرب ممالک کے امن کو مفلوج کرکے رکھدیا، بلاشبہ ایران ان مسلح تنظیموں کی پشت پناہی و سرپرستی کررہا ہے جن کے زریعے سے خطے میں اجارہ داری قائم کرکے عظیم فارسی سلطنت و تہذیب کو قائم کرنا چاہتا ہے جس کا سابق ایرانی صدور محمد خاتمی، محمد احمد نژاد و دیگر مذہبی عسکری و سیاسی رہنما اپنے خطابات و بیانات میں اظہار کرتے آرہے ہیں کہ ہماری قدیم ایرانی تہذیب ہے، ہماری عظیم فارس سلطنت تھی ہم قدیم تہذیب رکھتے ہیں، ہم اپنی قدیم تہذیب و سلطنت کو بحال کرینگے وغیرہ وغیرہ، لیکن امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں مختلف مفادات جڑے ہیں اور امریکہ کسی اور کی چودھراہٹ کو ہرگز ہرگز برداشت نہیں کرسکتا، اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکی پالیسی میں نیشنلزم، تہذیب، یا کسی مذہبی نظریہ پہ قائم ملک و ملت کے استحکام کی کوئی گنجائش نہیں، یہی وجہ ہے کہ اب آکر امریکہ نے واضح طور پر ایران کو پیغام دیدیا ہے کہ اب وہ مڈل ایسٹ میں اپنے پھیلائے ہوے پنجوں کو واپس کھینچ لے ورنہ دو میں سے ایک ہی قوت رہیگی یا امریکہ یا ایران، ایرانی بضد ہیں کہ وہ کسی طور بھی اپنی پالیسی سے دستبردار نہیں ہونگے اور جیسا کہ R.N Haass نے کہا کہ ''ایران امریکہ جنگ ہوئی تو یہ ایران عراق تک ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں لڑی جائیگی'' بعینہ ایران کے روحانی پیشوا خامنہ ای نے کہا ہے کہ ''ہمارے رضا کار امریکہ میں بھی لڑینگے جو بڑی تعداد میں وہاں موجود ہیں'' مزید ایرانی انتظامیہ نے حملے کی صورت میں UAE و دیگر عرب ممالک کو نشانہ بنانے کی بھی دھمکی دی ہے، ایران کی جانب سے امریکی ملٹری بیسز پر حملے کے بعد جنگ کے بڑھنے میں کوئی کسر باقی تو نہیں رہی ہے البتہ پوری دنیا کوشش میں ہے کہ کسی طرح اس بلا کو ٹال دیا جائے تاکہ دنیا پر منڈلاتے عالمی جنگ کے سائے چھٹ جائیں لیکن بظاہر ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے CNN پر انٹرویو دیتے ہوے کہا ہے کہ قاسم سلیمانی کی صورت میں ہم ایران کو پیغام دے چکے ہیں کہ اب خطے میں ایرانی مداخلت اور اپنا انقلابی نظریہ ایکسپورٹ کرنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں لہٰذا اب ایران سمجھ جائے کہ Game is Change ورنہ دونوں میں سے ایک رہیگا'' اس سے پہلے کبھی امریکہ کو اتنے جارحانہ انداز میں نہیں دیکھا گیا اور اب ایران کے حملوں کے بعد صورتحال ہاتھوں سے نکل چکی ہے جو شاید ایک ہولناک جنگ کی صورت میں ہی سامنے آئیگی، نتیجتاً عرب ممالک بالخصوص اور پاک افغان بالعموم اس سے شدید متاثر ہونگے، امریکی حملے کی صورت میں شیعہ گروہ اسلامی ممالک میں قائم امریکی تنصیبات کو نشانہ بنائینگے جس سے حالات بگڑتے ہی چلے جائینگے جبکہ ایرانی انتظامیہ تو پہلے ہی براہ راست عرب ممالک پر حملے کی دھمکی دے چکی ہے، اس نازک صورتحال میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا؟ پاکستان ایران کے بعد سب سے زیادہ شیعہ آبادی کا ملک ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ طرز کی پراکسی پاکستان میں بھی موجود ہے جس کا علی شیر حیدری و دیگر بہت سے لوگ بارہا انکشاف کرچکے ہیں اور پاکستان سے غیرمعمولی تعداد میں شیعہ افراد کی عراق و شام میں بطور سپاہی لڑنے کے ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں اور شہنشاہ نقوی کی دھمکی آمیز پریس کانفرنس سے بڑھ کر اس کا کوئی ثبوت نہیں، شہنشاہ نقوی کا اشارہ پاکستان میں ایرانی ٹرینڈ شیعہ عسکری ونگز کے زریعے پاکستان کے حالات خراب کرنے کی طرف ہے جس سے گلگت بلتستان، کشمیر یا جزوی حد تک کراچی متاثر ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ مشرقی بارڈر اور بھارت کے ناپاک عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اس نازک صورتحال کا دنیا کو پہلے سے ہی علم تھا لیکن اگر نہیں تھا تو کچھ پاکستانی میڈیا پرسنز و کچھ سیاستدانوں کو نہیں تھا جو جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش اور اسے جمہوریت پہ شب خون مارنے کے مترادف تک قرار دیتے رہے جبکہ عدلیہ نے اسے آئین کے منافی قرار دیتے ہوے آرمی قوانین میں ترمیم کرنے پہ مجبور کردیا پھر دنیا نے دیکھا کہ تمام سیاستدان حیران کن طور پر ایک پیج پر بھی آگئے بقول حسن نثار ''ایک پیج پر نہیں ایک سیخ میں پرودئیے گئے ہیں'' حالانکہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کوئی انوکھی بات نہیں، 1943 میں وقتی صورتحال کو دیکھتے ہوے امریکی صدر روزویلٹ نے امریکی چیف اسٹاف Marshal کی ایکسٹینشن بغیر کسی ترمیم کے کرچکے ہیں جس پر امریکی پریس یا اپوزیشن نے کوئی سوال تک نہ کیا، جنرل ڈوگلس کی صلاحیت و ریاست کے استحکام کے پیش نظر امریکی انتظامیہ نے انہیں بھی ایکسٹینشن دی، اس کے علاوہ بھارتی حکومت نے جنرل بپن راوت کو ریٹائرمنٹ کیساتھ ہی چیف آف ڈیفینس اسٹاف بناکر مزید ایکسٹینشن دے دی لیکن کسی نے حرف تک نہ کہا جبکہ پاکستان جو باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت مختلف اندرونی و بیرونی بحرانوں سے باہر نکلتا آرہا ہے اور اس ماہر جنرل کی موجودہ نازک صورتحال کے پیش نظر اشد ضرورت تھی جسے بالآخر آرمی ایکٹ ترمیم کے زریعے پورا کردیا گیا جو انشائاﷲ پاکستان و پاکستانیوں کے لیے کارگر ثابت ہوگی، مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر حکومت و عسکری قیادت پہلے ہی نیوٹرل رہنے کا اعلان کرچکی ہیں جوکہ سعودی عرب و UAE کو قابل قبول نہیں ہوگا اور امریکہ بھی اسے قبول نہیں کریگا، لہٰذا پاکستان کو نیوٹرل رہتے ہوے ایک بار پھر وہی کردار ادا کرنا ہوگا جو گلف وار کے دوران کیا تھا۔

Inshal Rao
About the Author: Inshal Rao Read More Articles by Inshal Rao: 143 Articles with 101328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.