گزشتہ دنوں امریکہ نے بغداد میں ایرانی جنرل قاسم
سلیمانی کو قتل کر دیا ہے جس کے بعد سے امریکہ و ایران کے مابین کشیدگی
انتہائی شدید صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ایران نے عراق میں امریکی ائیربیس
پر میزائل حملہ کیا ہے جس بارے میں ایرانی میڈیا اور عالمی میڈیا کی خبروں
میں تضاد پایا جا رہا ہے ۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے درمیان
یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ یہاں سوال یہ جنم لیتے ہیں کہ قاسم سلیمانی کا قتل
عراق میں ہوا، قاسم سلیمانی جنرل ایران کا تھا اور اسے مارا امریکہ نے ہے
لیکن اس کے بارے میں خطے کے امن کو داؤ پر لگانے کی کوشش کیوں کی جا رہی
ہے؟عراق میں اس سانحے کے بعد سے خطے بھرکے بلکہ عالمی میڈیا اور عام لوگوں
کے درمیان گرما گرم بحث چل رہی ہے کہ جنگ ہو گی، کس طرح ہوگی ، کہاں ہوگی ،
کیوں ہوگی وغیرہ وغیرہ۔کیا جنگ اتنی آسان بات ہے؟ کیا جنگ یونہی ہو جاتی ہے؟
قاسم سلیمانی کے قتل کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے مسلم امہ کا عظیم
ہیرو مارا گیا ہو لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ کیونکہ شام و عراق میں یہی
قاسم سلیمانی مسلمانوں کا قتل عام کرتا رہا ہے۔ یہ امریکہ ہی کی رچائی گئی
پراکسی وار کا ایک حصہ تھا جو بظاہر تو امریکہ کے خلاف تھا لیکن عراق و شام
میں مسلمانوں کی مکمل نسل کشی اور آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کیلئے ڈرامہ
رچایا گیاتھا۔ اسی کی بدولت ایران اپنی ایک خاموش سلطنت بیروت تک قائم کرنے
میں کامیاب ہوا ہے۔پچھلے ایک عرصے سے امریکہ ایران کشیدگی چل رہی ہے،
امریکہ ا پنے وعدے سے بھی مکر گیاتھا جو اس نے ایران سے کیا تھا کہ اسے
جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت دے گا۔ (ہم نے اس وقت بھی ایران کو خبردار کیا
تھا کہ امریکہ کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی) جب ایران نے گوادر پورٹ کو ناکام
کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ امریکہ کے کہنے پر ہاتھ ملا لئے تھے۔ یہی جنرل
تھا جس نے راحیل شریف کے دور میں پاکستان کو دھمکی دی تھی جب القدس کے ہیڈ
کوارٹر پر حملہ ہوا تھا ۔ ایران نے کچھ گینگ بنا رکھے ہیں جن میں پاسداران
انقلاب کے بعد القدس ایک بڑا نام ہے ان کے بعدلوائے زینبیون، لوائے عباس
اور فاطمیون بھی شامل ہیں۔ایران کا اگر خطے میں تعلقات کا تناظر دیکھا جائے
تو اپنے ارد گرد تمام مسلم ممالک میں اس نے فساد برپا کر رکھا ہے۔عراق سے
لے کر اردن تک، یمن سے لے کر عرب تک اور کرغزستان کے ساتھ پاکستان کو بھی
نہیں چھوڑا۔ حالانکہ ایران پاکستان کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے والا پہلا
ملک تھا لیکن اس نے کبھی بھی پاکستان کا ساتھ کسی محاذ پر نہیں دیا۔ اگر
کلبھوشن کے ہی معاملے پر غور کیا جائے تو بھارتی ایجنٹ کے پاس ایرانی
پاسپورٹ کا ہونا اور کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد ایران کا بھارتی گود
میں بیٹھ کر چاہ بہار پورٹ کیلئے فنڈز لینا ، اور حالیہ بھارتی ائیر فور س
کی ہرزہ سرائی کے خلاف ایران کا بھارت کے خلاف کوئی بیان نہ دینا اس بات کا
واضح ثبوت ہے کہ خمینی انقلاب کے بعد ایران ایک خاص مقصد کے تحت خارجی
وداخلی پالیسیاں مرتب کررہا ہے۔حالانکہ ایران اس بارے میں یہ مؤقف رکھتا ہے
کہ پاکستان نے ایران سے کئے معاہدے توڑے اسی واسطے وہ پاکستان کے دشمنوں کے
ساتھ ہاتھ ملاتا ہے۔ عراق میں حالیہ انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے صدر
نے واضح پالیسی مرتب کی تھی کہ وہ ایرانی لابی یعنی لوائے عباس کو ایران سے
نکالے گا۔ لیکن قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے فوری بعد عراقی صدر نے بہت
خوبصورت پالیسی بنائی ، اس نے اسمبلی میں بل پاس کیا ہے کہ وہ امریکہ کو
عراق سے بے دخل کر رہے ہیں، اس سے جو ایران کا نشانہ عراق بننے جا رہا تھا
اب اس بارے کم ازکم ایران سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے گا۔سعودی عرب کے ساتھ
ایران تنازعہ میں بھی دیکھا جائے تو امریکہ کا ہی فائدہ رہا ہے۔ یمن جنگ کی
وجہ سے ہی سعودی عرب امریکہ کا سب سے بڑا اسلحہ خرید کرنے والا ملک بنا ہے
اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نے آرامکو جیسی دیگر تنصیبات کی
صورت کی آڑ لے کر عرب میں قدم جمائے ہیں ۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے جو
ایران، امریکہ جنگ کی تیاری کا شور مچایا جا رہا ہے یہ کسی طور نہیں ہو
گی۔اگر ہم ایران اور امریکہ تعلقات کی تاریخ دیکھیں تو 1950سے لے کر آج تک
ایک لمبی تفصیل پڑی ہے کہ ان کے مابین تعلقات کن کن وجوہات کی بنا پر کشیدہ
رہے ہیں ۔مگر اس ایک حادثے سے سازشی ٹولہ ہی مفاد حاصل کر رہا ہے۔ شاید آپ
کے علم میں ہو کہ ایران میں پچھلے کئی دنوں سے حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے
تھے اور وہ ایرانی حکومت کی پالیسیوں سے نالاں تھے۔ اس میں ایک ہزار کے
قریب حکومتی مظالم کے باعث مظاہرین مارے بھی گئے ہیں لیکن ایران نے یہ
خبریں میڈیا پر آنے نہیں دیں۔ دوسری طرف سعودی حکومت پر امریکہ نے ہمیشہ
یہی دباؤ بنائے رکھا ہے کہ ایران اس پر حملہ کر دے گا، اور کسی نا کسی گھور
سازش سے اسے اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتا ہے۔ کبھی آرامکو پر حملہ کروا دیتا ہے،
کبھی یمن میں امن قائم ہونے کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ کیونکہ سعودی عرب
سے جو تیل اور پیشہ امریکہ کو مل رہا ہے یہ اس کی معیشت کو بہت حد تک سہارا
بھی دئیے ہوئے ہے اور اس کے اسلحہ بنانے والی فیکٹریوں کیلئے کسی تحفے سے
کم نہیں۔ اگر روایتی جنگ ہوتی بھی ہے تو زمینی حالات میں ایران کبھی بھی
جنگ جیت نہیں سکتا۔اگر ایران اور عرب مذاکرات ہو جائیں تو عربوں کو امریکہ
کی ضرورت کم ہو جائے گی،جو کہ امریکہ و اسرائیل کیلئے کبھی سود مند نہیں ہو
سکتی۔ گو نہ گو اس پر جائزہ لیا جائے تو قاسم سلیمانی کا قتل ایران و
امریکہ کے ساتھ ساتھ سارے عالمی سازشی طبقہ کیلئے فائدہ مند ہے۔ ایران میں
اٹھنے والے مرگ برایرانی صدر سے مرگ بر امریکہ میں بدل گئے ہیں، امریکہ
سعودی عرب کو ڈرا کر مزید اسلحہ اور آرمی وہاں لے کر آئے گا اور اس طرح
کہیں زیادہ لوٹنا شروع کر دے گا۔ جنگ کا نقارہ بجانے والا زائنسٹ میڈیا اور
دانشور طبقہ صرف عوام کو بے و قوف بنا رہے ہیں اس میں کوئی صداقت نہیں کہ
ایران امریکہ پر حملہ کرے گا اور جنگ ہو گی۔ پاکستانی لوگوں سے گزارش ہے کہ
وہ اپنے ملک سے محبت کریں اور اس سازش کا حصہ بننے کی بجائے اس سازش کا منہ
توڑ جواب دیں۔
|