ہمسایہ ممالک خصوصاًبرادرمسلم ممالک کے ساتھ دوستانہ
تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کابنیادی ستون ہیں۔پاکستان کی ہمیشہ سے یہ
کوشش رہی ہے کہ اگر برادرممالک کے درمیان کوئی غلط فہمی یاتنازع ہے تواسے
بات چیت کے ذریعے حل کرایاجائے۔پاکستان اورایران کے تعلقات تاریخی اورمثالی
ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ ایران کواپنادوست اوربھائی سمجھا ہے۔ دونوں ممالک نے
ماضی میں ہرآزمائش اورمشکل گھڑی میں ایک دوسرے کابھرپورساتھ
دیااورمددکی۔قیام پاکستان کا اعلان ہواتوسب سے پہلے ایران نے پاکستان کو
تسلیم کیا۔اسی طرح جب ایرانی انقلاب آیاتوپاکستان نے فوری طورپرنئی حکومت
کوتسلیم کیااوربھرپورتعاون کیا ۔ اسی طرح بہت سے عالمی ایشوزپردونوں ممالک
کا مو قف ایک ہے۔
ایک طرف توبھارت دونوں برادرممالک کے درمیان اختلافات پیداکرنے کی کوشش
کررہاہے،دوسری طرف امریکااورایران کی باہمی چپقلش کوبھی نظراندازنہیں
کیاجاسکتا جہاں بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی
قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ
ملیشیا پاپولرموبلائزیشن فورس (پی ایم ایف) کے ڈپٹی کمانڈرابومہدی المہندس
جاں بحق ہوگئے ۔ابھی ایرانی ردِّ عمل جاری تھاکہ امریکی فضائیہ نے ایک
اورحملے میں حشد الشعیبی پیرا ملٹری فورس کے کمانڈر کو نشانہ بناڈالا جس سے
خطے میں جنگ کے امکانات کاشدید خدشہ بڑھ گیاہے۔آخری اطلاعات کے مطابق
بغدادمیں امریکی فوجی اڈے پردوراکٹ بھی فائرکئے گئے جس سے کوئی نقصان
تونہیں ہواتاہم ایران پاسدارن انقلاب فورس کے نئے جنرل نے 55امریکی تنصیبات
کی فہرست کوآئندہ نشانہ بنانے کاعندیہ دیاہے۔
جنرل قاسم سلیمانی کون ہیں؟ ایران میں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای
کے بعد اگر کسی شخصیت کو طاقتور سمجھا جاتا تھا تو وہ جنرل قاسم سلیمانی ہی
تھے۔پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ کے طور پر سلیمانی مشرقِ وسطیٰ
میں اپنے ملک کی سرگرمیوں اور عزائم کے منصوبہ ساز اور جب بات امن یا جنگ
کی ہو تو ایران کے اصل وزیرِ خارجہ تھے۔ ایران سے باہر اپنے مفادات کے لئے
سرگرم رہتے تھے ۔شام، عراق یمن اور افغانستان میں ایرانی مفادات کے تحفظ
کےلئے تمام کاروائیوں کے سربراہ تھے۔ انہیں شام کے صدر بشارالاسد کی ملک
میں باغیوں کے خلاف جنگ، عراق میں ایران نواز شیعہ ملیشیاؤں کے عروج، شدت
پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ کے علاوہ اوربہت سے کارروائیوں کا
معمار بھی سمجھا جاتا تھا۔ وہ عموماً شہرت کی چکاچوند سے دور رہنے والی
شخصیت سمجھے جاتے تھے تاہم حالیہ برسوں میں وہ کھل کر سامنے آئے جب انہیں
ایران میں ان کی داعش کے خلاف کاروائیوں کی بدولت شہرت اور عوامی مقبولیت
ملی۔ وہ شخص جنہیں چند سال پہلے تک بہت سے ایرانی شہری راہ چلتے پہچان نہیں
سکتے تھے، دستاویزی فلموں، ویڈیو گیمز، خبروں اور پاپ گیتوں کا موضوع بن
گئے۔
عراق کے شیعہ ملیشیا جنگجوؤں کی جانب سے تیار کردہ ایک میوزک ویڈیو ایران
میں بہت زیادہ پسند کی گئی جس میں سپاہیوں کو دیوار پر جنرل سلیمانی کی
تصویر سپرے سے پینٹ کرتے اور اس کے سامنے پریڈ کرتے دکھایا گیا جبکہ ان
مناظر کے پس پردہ جذباتی موسیقی شامل کی گئی تھی۔ ساتھ ہی جنرل سلیمانی کا
ایران کے خارجہ امور میں کردار مزید ابھر کر سامنے آیا۔ وہ اب فون لائن کی
دوسری طرف پائے جانے والے ایک چھپی ہوئی شخصیت نہیں تھے۔2013ء میں سی آئی
اے کے سابق اہلکار جان میگوائر نے امریکی جریدے دی نیویارکر کو بتایا تھا
کہ سلیمانی ،مشرقِ وسطیٰ میں سب سے طاقتور کارندے تھے۔ فارسی کی ایک
دستاویزی فلم کے لیے ایک انٹرویو میں عراق میں سابق امریکی سفیر رائن کروکر
نے بھی کہا تھا کہ جنرل سلیمانی کا بغداد مذاکرات میں اہم کردار تھا۔ رائن
کروکر کے مطابق انہوں نے جنرل سلیمانی کے اثرو رسوخ کو افغانستان میں بھی
محسوس کیا تھا جب وہ بطور امریکی سفیر افغانستان میں تعینات تھے۔ افغانستان
کے حوالے ایران میں میرے باہمی میل جول کے لوگوں نے مجھ پر واضح کیا کہ
جنرل سلیمانی ہی وہ واحد طاقتور شخص ہے جوایرانی وزارت خارجہ اورحکومتی سیٹ
اپ میں اہم فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ کرشماتی شخصیت کے مالک سمجھے
جانے والے جنرل سلیمانی کو جہاں پسند کرنے والے بہت تھے وہاں ناپسند کرنے
والوں کی بھی کمی نہیں تھی اور ان کے شخصیت کے بارے میں کئی کہانیاں گردش
کرتی تھیں بالخصوص سلیمانی کے مداح ان کی بہادری وتوصیف پراس قدرنازاں تھے
کہ وہ اس کوناقابل شکست دیومالائی شخصیت قراردیتے تھے۔
3جنوری 2020ء کومشہورامریکی اخبار”واشنگٹن پوسٹ”میں” ایرون بلیک”نے اپنی
ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے گزشتہ چند سالوں
میں امریکاکے ساتھ کئی مشترکہ آپریشنز مکمل کئے ہیں۔ 30ستمبر 2013ء کے
مشہوراخبارنیویارکرمیں ڈیکسٹرفلکنز نے “دی شیڈوکمانڈر”کے عنوان سے سٹوری
شائع کی جس میں اس نے انکشاف کیاکہ ” ایک ایسا وقت تھا جب نائن الیون کے
بعد افغانستان میں امریکا اور ایران کے درمیان اتحاد کرنے کے لئے قاسم
سلیمانی ہی واحد ایرانی سرگرم امیدکی صورت میں سامنے آیاجوان دنوں مشرق
وسطی کو نئی شکل دے رہا ہے۔ اب وہ شام میں بشارالاسد کی جنگ میں ہدایات دے
رہاہے اور جوایران کی قدس فورس کی قیادت کرتے ہوئے ملک کی سرحدوں سے باہر
کاروائیاں کرنے کابھی انچارج ہے”۔
وائٹ ہاؤس کے اعلی سطحی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ عہدیدارریان کروککر کے مطابق نائن
الیون کے حملوں کے بعد غیر معمولی دنوں میں جب امریکاطالبان کے خلاف طبلِ
جنگ بجاچکاتھا، ایرانی حکومت کے فوجی و سول عہدیداروں کا ایک گروپ قاسم
سلیمانی کی قیادت میں جینوا میں ایک گمنام مقام پر ہفتے اور اتوار کے دن
انتہائی خفیہ ملاقات کیلئے پہنچا۔ کروکر نے بتایا کہ”ہماری یہ ملاقات اس
قدرخفیہ تھی کہ وہ خود جمعہ کے روز اور پھر اتوار کے روز واپس چلا گیا تھا
، لہذا دفتر میں کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کہاں ہوں ۔ کروکر کے مطابق
ایرانی سلیمانی کو “حاجی قاسم” کہہ کرپکارتےتھے ، اور یہ کہ وہ امریکا کو
اپنے باہمی دشمن ، طالبان کو ختم کرنے میں مدد کے خواہاں ہیں۔” ان ملاقاتوں
کا مقصد امریکا اور ایران کی جانب سے افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشنز
میں ایک دوسرے کی مدد کرنا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان کے لیے یہ سب
حیران کن تھا کیونکہ ایران امریکا کے1980ء میں اس وقت سفارتی تعلقات منقطع
ہوگئے تھے جب تہران میں امریکی سفارتکاروں کوایک لمبی مدت کیلئے یرغمال
بنالیاگیاتھا۔
کروکر کو یہ جان کر حیرت نہیں ہوئی کہ سلیمانی لچکدار ہے۔ انہوں نے کہا ،
“آپ آٹھ سال کی ظالمانہ جنگ کے باوجود عملی خیال کے بغیر نہیں رہتے۔” بعض
اوقات سلیمانی کروکر کو پیغامات پہنچاتے تھے ، لیکن انہوں نے تحریری طور پر
کچھ بھی معلومات دینے سے گریز کیا۔ کروکر کے مطابق ” حاجی قاسم بہت ہوشیار
ہے۔ وہ امریکیوں کے لئے کاغذی پگڈنڈی چھوڑنے والا نہیں ہے۔”
ان کے مطابق جنرل سلیمانی افغان طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کے حق میں
تھے انہوں نے امریکیوں کو نقشے، طالبان اور القاعدہ کے ٹھکانوں سے متعلق
معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ القاعدہ کاایک سہولت کاربھی امریکاکے
حوالے کیاجو ایران کی حراست میں تھا۔ وہ ایران کی جانب سے افغانستان میں ہر
قسم کا تعاون فراہم کرنے کے لئے تیار تھے ۔ ریان کروکر کے مطابق جنرل قاسم
سلیمانی نے اس کے بعد عراق میں بھی امریکا کے ساتھ مل کر اس شرط پرکام کیا
کہ عراق میں ایران نواز ملیشیا اور ایسے تمام گروہ جن کا تعلق ایران کے
ساتھ ہے، جن میں مجاہدین خلق بھی شامل تھے ان کو تحفظ فراہم کیا جائے اور
امریکا ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کرے ۔ امریکی حملے کے بعد ایران
میں ایک مضبوط حکومت جوکہ ایرانی اثر و رسوخ کے تحت ہو اس کو قائم کرنے میں
بھی جنرل سلیمانی نے امریکا کے ساتھ مل کر کام کیا ۔کروکرکے مطابق “حاجی
قاسم ہمارے تعاون پر بہت خوش تھا۔”
اسی طرح عراق میں داعش کے خلاف کارروائیوں میں بھی جنرل سلیمانی امریکاکے
ساتھ مل کر کام کرتے رہے ۔ عالمی سطح پر کئی آپریشن جن میں امریکا اور
ایران کا مفاد مشترکہ تھا ان میں جنرل سلیمانی نے نے امریکیوں کے ساتھ
معاملات طے کئے اسی طرح شام اور یمن میں بھی جو خون ریزی ہوئی اس میں جنرل
قاسم سلیمانی کا اہم ترین ہاتھ تھا۔
اس تعاون کے باوجود حالات اس وقت اچانک بدل گئےجب 29جنوری 2002 میں ، صدر
جارج ڈبلیو بش نے اپنی مشہور “برائی کے محور” تقریر میں عراق اور شمالی
کوریا کے ساتھ ایران کانام بھی شامل کردیا۔ بش دشمنی میں اندھا ہو گیا تھا
جبکہ ان تینوں ممالک کے شہریوں میں سے کسی نے بھی نیویارک اور واشنگٹن پر
حملہ نہیں کیا ۔ بش نے 3900الفاظ پرمبنی اپنی تقریر میں جہاں ان تین
ریاستوں کو “برائی کے محور”قراردیاوہاں عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی
پھیلانے والے ہتھیاروں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے عالمی امن کیلئے ایک بہت
بڑا اور بڑھتا ہوا خطرہ قراردیتے ہوئے ان ہتھیاروں کی تلاش کاحکم دیتے ہوئے
ایک نیامحاذجنگ کھول دیاکہ یہ ہتھیارکسی بھی وقت دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتے
ہیں جس سے وہ ہمیں اور ہمارے اتحادیوں کوبلیک میل کرسکتے ہیں اور اس معاملے
پرہماری کوئی بھی سستی یابے حسی کی قیمت تباہ کن ہوگی۔ بش نے مزید کہا:ہم
اپنے اتحادیوں سے مل کر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو
بنانے اور فراہم کرنے کے لئے مواد ، ٹیکنالوجی اور مہارت کودہشتگردوں کے
ہاتھ لگنے نہیں دیں گے۔ریان کروکرکے مطابق یہ ایک ایسی تباہ کن تقریرتھی جس
سے یہ تعاون یکسرختم ہوگیااورہماری تمام محنت پرپانی پھیردیاگیا۔بش کی
تقریرسے اگلے ہی دن امریکی کمپاؤنڈ کابل میں مذاکرات وسہولت کارسے میری
ملاقات ہوئی تووہ بہت ہی غصے میں بولا”قاسم سلیمانی نے انتہائی غصے میں
چیختے ہوئے پیغام دیاہےکہ امریکانے ہمیں بہت نقصان پہنچایاہے اوروہ اب ان
سیاسی خطرات کے بعدامریکاسے اپنے سمجھوتے اورتعلقات کا دوبارہ مکمل جائزہ
لینے پرغورکررہے ہیں۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ، کروکر نے سر ہلایا۔ انہوں
نے کہا”ہم ابھی اتنے ہی قریب تھے۔ ایک تقریر کے ایک لفظ نے تاریخ کو بدل
دیا۔”
فروری 2003 میں ، عراق پر امریکی حملے سے ایک ماہ قبل ، سکریٹری خارجہ ،
کولن پاول نے ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا: “ہم جانتے ہیں کہ
ڈکٹیٹر صدام حسین اپنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو
برقرار رکھنے کے لئے پرعزم ہیں اور وہ ایسے مزید ہتھیاربنانے کاارادہ رکھتے
ہیں تاہم صدام نے محض دھوکہ دیااورایسے ہتھیار کبھی نہیں ملے۔
تاہم ان دنوں ٹرمپ کو مواخذے کی تحریک سے نجات اوراگلے انتخابات میں
کامیابی کیلئے مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر ایسی جنگی مہم شروع کرناچاہتاہے
جس سے اس کے اسلحہ کی فروخت کیلئے سعودی عرب اور دیگر ممالک کے ساتھ ایران
کی چپقلش میں اضافہ ہو اور یہ خطہ ایک بارپھر خونریزی کا شکار بن جائے
اوراس کیلئے ایک بڑی قربانی کی ضرورت تھی اورامریکانے اپنی روایت
برقراررکھتے ہوئے قاسم سلیمانی کو”بلی کابکرا”بناکراس کی قربانی کر
دی۔ایرانی حکومت عوامی دباؤ کے ہاتھوں مجبورہوکرانتقامی کاروائی کرتے ہوئے
امریکی فوجی اڈہ پربیس میزائل داغ دئیے اور80افراد کی ہلاکت کا دعویٰ بھی
کردیاگیاجس کے جواب میں فوری طورپرامریکی صدرٹرمپ نے ایرانی دعوے کی
تردیدکرتے ہوئے جنگ سے گریز کاعندیہ دے دیاہے اورایران نے بھی مزیدجنگ کی
توسیع سے منہ پھیرنے کااعلان کردیاہے گویاخطے میں مزیدجنگ کاخدشہ دم
توڑتانظرآرہاہے.ادھرہمارے وزیراعظم نے بھی مصالحتی کرداراداکرنے کیلئے
وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کوایران،سعودی عرب اورامریکا جانے کی تاکیدکردی
ہے۔
امریکی اپنی خارجہ پالیسی کو”ڈسپوزل ڈپلومیسی” کہتے ہیں،ان کافلسفہ ہے خرید
و،استعمال کرواورپھینک دو،امریکی قوم بلیڈ کندہونے سے پہلے بیوی بدل لیتے
ہیں چنانچہ یہ لوگ اپنے دوستوں کوکاغذکے گلاس،پلیٹ،ٹشواورگندی جراب سے
زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔یہ لوگ ہمیشہ کیس ٹوکیس اورپراجیکٹ ٹوپراجیکٹ چلتے
ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی وہ پہلے رہنمایافوجی جنرل نہیں جنہیں امریکی دوستی
کی سزا ملی ہے اس سے پہلے چنانچہ ان کے دوست جنرل اگستوپنوشے ہوں، جنرل
رضاشاہ پہلوی ، فلپائن کافرنینڈ مارکورس، رہوڈیشیا میں بشپ ایبل
منروریوا،یا جنرل صدام حسین یہ لوگ اس وقت انہیں دوست سمجھتے ہیں جب تک وہ
ان کیلئے خدمات سر انجام دے سکتے ہیں اورجس دن انہیں محسوس ہوتا ہے یہ شخص
ان کی ”ذمہ داری”بنتاجارہاہے،یہ اس کے ساتھ ذوالفقارعلی بھٹو،جنرل ضیاءالحق
اورمشرف جیسا سلوک کرتے ہیں اور اس کے بعدیہ ان کی قبروں تک پر”سابق”کی
مہرلگادیتے ہیں۔یہ ہے امریکی دوستی اوراس کاانجام اور امریکاپچھلے دوسو بیس
برس سے”دوستی”کے اسی فلسفے پرکاربند ہے اوراس نے آج تک کسی شخص کیلئے اپنی
یہ پالیسی نہیں بدلی۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ معاون نائب امریکی
وزیرخارجہ ایلس ویلزنے اپنے ٹویٹ میں “پاکستانی فوجی تربیتی پروگرام بحال”
کوامریکی قومی سلامتی کومحفوظ بنانے سے مشروط رکھاہے اوراس موقع
پرپومپیوکافون پررابطے پرمجھے اپنے سپہ سالار قمر باجوہ کی یوم دفاع
پرتقریرکاوہ تاریخی جملہ بھی یادہے جس میں انہوں نے پاکستان کی قربانیوں
کاذکرکرتے ہوئے اب مغرب اور امریکاکو”ڈومور” کامشورہ دیاتھا۔ اس لئے ہمارے
فوجی ترجمان کابروقت یہ بیان کہ ”ہم اپنی سرزمین کسی بھی برادرملک کے خلاف
استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے”قابل تحسین ہے۔
|