مشرق وسطیٰ میں جنگ کے خطرات اور پاکستان کا کردار

امریکی ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطیٰ کے حالات کشیدہ ہیں، ایران نے امریکہ سے انتقام لینے کا اعلان کیا اور اس ضمن میں ایران نے امریکی اڈوں پر میزائل حملے بھی کئے جس کے بارے میں ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ اسی امریکی فوجی مارے گئے تا ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بعد میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کوئی فوجی زخمی تک نہیں ہوا، ہم نے پہلے ہی انتظام کر رکھا تھا، امریکی صدر نے ایران کو کہا ہے کہ وہ باز آجائے، ہم اسے ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیں گے کچھ بھی ہو جائے، ایران اور امریکہ سے دیگر ممالک پر امن رہنے کی اپیل کر رہے ہیں لیکن ابھی تک دونوں فریقین کی جانب سے پر امن رہنے بارے کوئی بات نہیں کی گئی۔

مشرق وسطیٰ کے حالات کے پیش نظر پاکستان نے اہم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے،وزیراعظم عمران خان نے مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ایران، سعودی عرب اور امریکی دورے کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان امن کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہے تاہم کسی دوسری جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ آرمی چیف کو بھی متعلقہ عسکری حکام سے رابطے کی ہدایت کی ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو روز قبل پالیسی بیان دیا تھا جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ پاکستان اب کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا، پاکستان سمجھتا ہے کہ کشیدگی ناصرف ہمارے بلکہ پورے خطے کے مفاد میں نہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خطہ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی ہمیشہ کوشش رہی اور ہے کہ ہم معاملات کو سلجھائیں۔ خطے کے ملکوں کو امن واستحکام کے لیے مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔

امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے قاسم سلیمانی ماضی میں پاکستا ن کو بھی دھمکیاں دے چکے تھے،گزشتہ برس جب پاکستان کی انڈیا کے ساتھ ماہ فروری میں کشیدگی عروج پر تھی قاسم سلیمانی نے بھارت کی زبان بولتے ہوئے پاکستا ن کو دھمکی دی تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان میں گھس کر کاروائی کریں گے اس دھمکی کے بعد پاکستان نے ایران کی پاکستان کے خلاف سازشوں کے ثبوت ایران کو دیئے تھے، یہ بات تو واضح ہے کہ ایران کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ضرور ہیں، پاکستان اچھے تعلقات چاہتا ہے لیکن ایران کی جانب سے ہمیشہ دشمنی نظر آئی، بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کا ایران آنا جانا تھا،ایران کے اس کے ساتھ کیا تعلقات تھے سب سامنے آ چکے ہیں، عزیر بلوچ جیسے دہشت گردوں کو ایران میں تربیت اور پناہ دی گئی یہ بات بھی واضح ہو چکی، ایران کی پاکستان دشمنی کی متعدد مثالیں قوم کے سامنے ہیں ،پاکستان نے چین کے ساتھ سی پیک منصوبہ شروع کیا تو بھارت کی طرح ایران کو بھی ہضم نہیں ہوا اور دونوں نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ٹھانی اور چاہ بہار منصوبے پر کام شروع کیا، اوپر سے ہم دوستی کے نعرے لگاتے رہیں لیکن حقیقت کبھی چھپ نہیں سکتی، ایک دن ضرور سامنے آتی ہے۔

پاکستان کے بعد دوسرے بڑے اسلامی ملک اور امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب نے بھی خطے میں امن کے لئے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے، گزشتہ دنوں خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر صدارت کابینہ اجلاس ہوا جس میں سعودی کابینہ نے لیبیا میں ترکی کی مداخلت اور فوجی آگ بھڑکانے کو بین الاقوامی دستاویزات اور اصولوں کے منافی قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ لیبیا سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی پامالی ہے۔ ترکی نے مداخلت کر کے عرب لیگ کے واضح موقف کی مخالفت کی ہے۔سعودی کابینہ نے عراق میں جاری ہنگاموں اور سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ عالمی برادری خطے کے امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرکے اپنا فرض ادا کریسعودی کابینہ نے خطے کے امن و استحکام کے لیے مشترکہ جد و جہد سے متعلق سعودی موقف اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالات کو دھماکہ خیز ہونے سے بچانے کے لیے خطے کے امن و استحکام کی خاطر مشترکہ جد و جہد نا گزیر ہے۔ درپیش صورتحال، دہشتگردانہ سرگرمیوں اور کشیدہ حالات کو مزید گرمانے کا نتیجہ ہے۔خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اجلاس کے آغاز میں کابینہ کو نائیجر کے صد ر اور عراق کے صدر کے ساتھ اپنے ٹیلیفونک رابطوں اور خطے کے حالات پر گفت و شنید اور ان کے نتائج سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب نے ٹیلیفونک رابطوں کے دوران مملکت کے اس موقف کا پر زور طریقے پر اعادہ کیا کہ سعودی عرب دہشتگردانہ سرگرمیوں کے خلاف بر سر پیکار تھا، ہے اوررہے گا۔ اقوام و ممالک کے امن و استحکام کا خواہاں تھا، ہے اور رہے گا۔

سعودی عرب کی زیر قیادت مصر، اردن، سوڈان، ایریٹریا، یمن، صومالیہ اور جبوتی کا نیا محاذ قائم ہوگیا ہے۔ اسے بحر احمر اور خلیج عدن کونسل کا نام دیا گیا ہے۔ ریاض میں بحر احمر اور خلیج عدن کے ساحلی ممالک کے وزرائے خارجہ سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبداﷲ نے کہا ہے کہ ’ہماری آرزو ہے کہ خطے میں گرما گرمی نہ بڑھے۔ تمام فریق اشتعال انگیزی سے بچنے اور مزید گرما گرمی کو روکنے کے لیے جوضروری تدابیر کرسکتے ہوں ضرور کریں،ہمیں خلیج اور بحر احمر میں امن و امان کی حفاظت کرنا ہے،سعودی عرب خطے میں کسی بھی طرح کی گرما گرمی روکنے کے لیے انتہا درجے کوشاں ہے،ہمیں اپنے علاقے میں امن و امان سے آگے عالمی امن کو درپیش خطرات پر بھی گہری نظر رکھنا ہوگی۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ خطے میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کے بعد تہران کا محفوظ رہنا ممکن نہیں ہوگا، ایران افغان امن عمل کو نقصان پہنچا رہا ہے جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ درست فیصلہ تھا۔سلیمان عراق میں سفارتی مشن پر نہیں تھے ایران عراق صورتحال پر امریکہ یورپی یونین مذاکرات رواں ہفتے ہوں گے ۔امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس کا کہنا ہے کہ قاسم سلیمانی نے سعودی ہوائی اڈوں پر حملے اپنی نگرانی میں کرائے تھے،قاسم سلیمانی خطے کے دسیوں افراد کے قاتل تھے،قاسم سلیمانی سعودی عرب کی مختلف تنصیبات پر میزائل حملوں کی خود نگرانی کرتے تھے۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پاکستان کا غیر جانبدار رہنا او ر قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے، پاکستان کو ایسا ہی کرنا چاہئے تھا، پاکستان ایک آزاد و خو د مختار ملک ہے،آزاد ملک کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں کسی کی ڈکٹیشن نہیں چلتی، وزیراعظم عمران خان نے ماضی کے فیصلوں کی طرح اب بھی زبردست فیصلہ کیا ہے جسے قوم سراہ رہی ہے،دوسروں کی جنگ میں پاکستان کیوں جائے؟ پہلے بھی اس جنگ میں پاکستان کا بہت نقصان ہو چکا۔اسی طرح پاکستان کے برادر دوست ملک سعودی عرب کا بھی قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ردعمل وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، دونوں ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں، پاکستا ن کو جہاں دشمن دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں تو وہیں سعودی عرب میں بھی حوثی باغی حملے کر رہے ہیں، سعودی ائیر پورٹس پر ڈرون حملے ہو چکے ہیں اور امریکی وزیر خارجہ کے مطابق ان کی نگرانی سلیمانی کرتا تھا، اب بھی پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سعودی عرب پر حوثی باغی مزید حملے کر سکتے ہیں تو اس صورت میں پاکستان کو ماضی کی طرح سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا، کیونکہ ارض حرمین شریفین کا دفاع مقدس فریضہ ہے، حرمین شریفین کے دفاع کے لئے ہر پاکستانی جان قربان کرنا باعث سعادت سمجھتا ہے، پاکستان اور سعودی عرب لازم و ملزوم ہیں ،دونوں میں اسلامی اخوت کے جو رشتے قائم ہیں وہ دشمنوں کی مذموم سازشوں سے ختم نہیں ہو سکتے۔ پاکستان ڈٹ کر سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہے گا اور اگر سعودی عرب کی سلامتی کو کسی قسم کا بھی خطرہ لا حق ہوا تو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والا ایٹمی پاکستان ارض حرمین شریفین کے تحفظ کے لئے پاکستانی قوم کی امنگوں کے عین مطابق سعودی عرب کے شانہ بشانہ ہو گا۔

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 63100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.