دوست نے بتایا کہ ۔۔۔۔کل میں جب چھت پر گیا تو باہر بچھی
چارپائی کو سیڑھیوں پر بنی برساتی یا چھوٹا کمرہ میں رکھا تو ایک دم سے
سانس رک گیااور خودبخود رب کائنات کی طرف شکرادا کرنےکے لیے آنکھیں اور
ہاتھ اوپر اٹھ گئے۔۔ آنکھوں سے بے ساختہ ساون برسنے لگا۔ ایک دم سے گزرا
ہوا وقت فلم کی طرح گھوم گیا۔ وقت بھی کیا چیز ہے کہاں سے کہاں پہنچا دیتا
ہے۔ حالات کا مدو جذر بھی کمال چیزہے برا وقت آنے پر اپنے اور غیروں
کونکھار کر پیش کردیتا ہے۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ بھی ایک کھٹن،پر جوش اور
خوشنما خواب ہوتا ہے۔ جسے تعبیر میسرآگئی تو خوش نصیب ورنہ دنیا کے لیا
تماشہ بن جاتا ہے۔ وقت اور حالات نے کروٹ بدلی ، وقت کی سنگینی نے آگھیرا ۔
کسی کے کہنے پر دوسرے بڑے شہر چلا گیا ۔ کیونکہ اچھے کی خواہش اور بچوں کے
تعلیمی جنون نے جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس حبیب (دوست) کے ساتھ وہاں
پہنچا اس نے چند دن برداشت کیا اور دبے لفظوں میں اپنے مکان کا کہنے لگا ،
کیونکہ اس نے ایک ساتھ رہنے کی بات کی تھی اور اس خرچے کو مل کر برداشت
کرنا تھا۔ خیر زندگی کی کچھ ٹھوکریں ابھی باقی تھیں کہ کرائے کے مکان کی
تلاش شروع ہو گئی۔ انکم اتنی نہیں تھی کہ کوئی دو تین مرلہ کا مکان کرایہ
پر لے لیا جاتا ہے۔ چند روپے پنشن کے تھے ، روز گار ابھی ملا نہیں تھا لیکن
اس کے مجبور کرنے پر کرائے کے مکان میں رہنا ضروری ہو گیا تھا۔ مکان کی
تلاش میں چل نکلا۔ کبھی دن کو تو کبھی رات کو۔۔ پیدل چلتے چلتے کرائے کی
چھت ڈھونڈنے کے لیے کئی کئی میل پیدل چلتا رہتا ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ،
سوچوں کے منجدھار میں گھرا ہوا پردیسی مسافر گم سم تلاش میں رہتا۔۔ شام کو
سوال ہوا کہ بھائی جان کوئی مکان ملا ۔۔ اللہ خوش رکھے خوشدامن کو۔ مغرب کے
بعد اکٹھے باہر گھومنے کے بہانے نکلے چلتے چلتے ایک کوٹھی پر پہنچے ، پتہ
کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کے پاس کرائے کے لیےایک جگہ ہے ، دیکھ لو اگر پسند
آ جائے تو کرایہ طے کرکے کل ہی سامان شفٹ کر لیا جائے۔۔ وہ اپنے ساتھ گھر
لے گیا اور اوپر والی سیڑھیا چڑھنے لگا۔ ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے ، ذہن
میں آیا کہ شاید اوپر تیسری منزل پر کرائے کا مکان خالی ہو گا۔ لیکن یہ
لمحے بھر کا خواب تھا۔ تیسری منزل طے کرکے جب چھت پر پہنچے تو پوچھا سر کون
سا مکان ہے؟اس نے کہا کہ پہلے چھت تو دیکھو گرمیوں میں خوب ہوا داری ہو گی۔
پانی کی ٹونٹی بھی ہے۔ لیکن رہنا کہا ہے۔ وہ ہمیں پھر سیڑھی کی طرف لے گیا
۔ اس نے کہا کہ یہ ہے وہ کمرہ جو کرایہ پر دینا ہے۔ میری خوشدامن نے میری
طرف لمحہ بھر کے لیے دیکھا میں نے اس کی طرف دیکھا اپنی اپنی آہوں کو ضبط
کیے اس کمرے میں چلے گئے۔ دونوں اپنی سسکیوں کو روکے اشارے سے مکان کا
جائزہ لے رہے تھے کہ جہاں سامان اس طرح اس طرح کرکے ایڈجسٹ کر لیں گے جب
دوسرے شہر آ ہی گئے ہیں تو پھر اب واپس کیا جانا۔ ہم دونوں نے اپنی اپنی
آنکھیں صآف کیں اور اس سروس کے دورانیہ کو یاد کیا آہ بھر کر نیچے اتر آئے
۔ باہر گیٹ پر آکر کوٹھی والے کو یہ کہہ کر چل دیئے کہ اگر ہم نے اسے کرایہ
پر لینا ہوا تو کل شام تک کرایہ دے دیں گے اگر نہ آئے تو پھر معذرت ۔۔۔ وہ
کمرہ ، چھت مومٹی تھی ۔۔۔ جس نے مجھے بیس سال بعد پھر رلا دیا۔ اللہ کریم
سے دعا ہے کہ ایسا وقت کسی دشمن پر بھی نہ آئے جہاں اپنے بھی غیر ہو جائیں۔
اللہ رب العزت آسانیاں پیدا فرمائے ۔ آمین۔
|