صحن میں بڑھتا شور اب کمرے کی طرف رخ کر رہا تھا پھر یکا
یک صحن میں موجود تمام لوگ کمرے میں تھے رمضان خاں سب سے آگے تھا اور بالی
پر چیخ رہا تھا ۔۔تم بے غیرت ہو ،خاندان کی صدیوں پرانی رسموں کو روندنے
نہیں دونگا ۔۔تمہیں میں قبیلے کی پگڑی اچھالنے نہیں دونگا۔۔ایک کالی کو گھر
میں رکھا ہوا ہے ۔۔بے شرم ۔۔۔لعنتی۔۔۔سن لو جب تک یہ دھرتی پر ذندہ رہے گی
دھرتی پر گناہ کا بوجھ رہے گا ۔۔۔اس کے خون سے دھرتی پر عذاب کم ہوگا ۔۔۔ہمارے
غیرت مند آباؤ اجداد کی روح شرمندہ ہوگی۔۔۔دشمن ہم پر ہنسیں گے۔۔۔بالی نے
ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوۓ چیخ کر کہا بس کر چاچا رمضان کب تک اپنی عزت کی پگ
کی منزلیں بڑھانے کے لیئے معصوم عورتوں کا سہارہ لوگے ۔۔دشمن پر اپنی
بہادری کی دھاک بٹھانے کے لیئے کمزور عورت کی گردن کب تک دبوچو گے ۔۔۔عزت
کا شملہ عورت کے خون سے ہی کیوں رنگتے ہو اور جب رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے تو
تاذہ معصوم اور بے گناہ خون سے پھر نیا رنگ چڑھاتے ہو ۔۔او چاچا بس کرو ۔۔تم
آدم خور تو نہیں مگر قسم اللہ پاک کی حوا خور ضرور ہو۔۔۔لت لگ گئی ہے تم
کو عورت کے خون کی۔۔۔اور سن لو چاچا دھرتی پر اس معصوم کے گناہ کا بوجھ
نہیں لیکن قسم ہے اللہ سائیں کی اگر تم نے میری بے گناہ بیوی کو قتل کرنے
کی کوشش کی تو یہ دھرتی تم کو پناہ نہیں دے گی ۔۔۔یاد رکھنا ۔۔بالی غصے اور
غم سے رمضان خاں کے آگے چیخا۔۔۔ اللہ وسایا نے بالی کا باذو اپنی جانب
کھینچا ۔۔اور ایک ذور دار تمانچا اس کے چہرے پر رسید کرتے ہوۓ چلایا ۔۔اوۓ
بالی تیری تو مت مار دی ہے اس زنانی نے ۔۔تو۔۔تو۔۔چاچا رمضان کے آگے کیا
بکواس کر رہا ہے ۔۔۔ہوش کر ایسا نہ ہو تجھے بھی بے غیرت ہونے پر تیری زنانی
کے ساتھ دفن کرنا پڑے ۔۔۔بالی کے بھائی نے غصے سے پھنکارتے ہوئے اسے ڈرانے
کی کوشش کی ۔۔رمضان چاچا کی آنکھوں میں غصے کی لالی میں ایک خاص شیطانیت
کی چمک پیدا ہوئی اور اس کے سفاک چہرے پر سفاک مسکراہٹ نے اس کی حیوانیت کی
جھلک دی ۔۔ اس نے اپنی کانوں کی لوؤں تک پھیلی ہوئی مونچھوں کو تاؤ دیتے
ہوۓ پینو کی طرف دیکھا اور پھر بالی کے باپ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ
بولا ۔۔سوتر (کزن) بیٹے کو سمجھا لو ۔۔ایسا نہ ہو تیرے بیٹے کی قبر بھی بے
نشان رہ جاۓ ۔۔۔تو جانتا ہے نہ جو بزرگوں کے قدموں کے نشان مٹانے کی کوشش
کرتا ہے اس کو یہ قبیلہ بے نشان کر دیتا ہے ۔۔سمجھا اس کو ۔۔اس کے خون میں
جوا نی کا جوش تو ہے مگر غیرت کا ہوش نہیں اور میں جوش کو ختم کرنے اور
ہمیشہ کے لیۓ ہوش اڑانے کا ماہر ہوں ۔اس کو بول پینو میرے حوالے کردے ورنہ
اپنی سانسیں گنتا رہے ۔۔ قسم ہے اس شملے (پگڑی) کی جتنے قتل کیے ہیں اس سے
کم گنتی رہ جائے گی اس کی سانسوں کی۔۔رمضان نے اپنے کندھے پر موجود اجرک کو
ہاتھ میں لے کر جھٹکا دیا اور دوبارہ سے کندھے پر رکھ کر باہر کی طرف رخ
کیا ۔اس کی اونچی پگڑی نے دروازے سے گزرتے ہوۓ مزاہمت کی تو اس نے جھک کر
دروازہ پار کیا اور بیرونی دروازے کی جانب تکبر سے بڑھا۔
پینو کی ماں کی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں اور گلا سب کو اپنی بیٹی
کی بے گناہی کی گواہی دیتے دیتے بیٹھ گیا تھا۔ پینو کا باپ گردن نیچے کیے
نجانے کتنی دیر سے زمین کو تکے جا رہا تھا ۔آج اسے حقہ پینا بھی یاد نہ
رہا بس اس کے سامنے پینو تھی جب سے اس کے سسرال سے ہوکر آیا تھا اپنی بیٹی
کی سسکیاں اسے اپنی ہر چلتی سانس میں سنائی دے رہیں تھیں ۔۔اس کے ہاتھوں
میں قرآن تھا ۔۔وہ بس ایک ہی بات بول رہی تھی ۔۔اس سچے قرآن کی قسم میں
سچی ہوں۔۔اس پاک قرآن کی قسم میں پاک ہوں۔۔۔میری گواہی اور میرا فیصلہ
قرآن کرے گا۔۔ پینو کے باپ کی جھکی گردن ایک طرف ڈھلکنے لگی پینو کی ماں
نے ان کو سیدھا کیا اور ٹانگیں سیدھی کرتے ہوئے بیٹے کو آوازیں دیں ۔۔رستم
رستم بھاگ کر آ ۔۔تیرے باپ کی طبیعت خراب ہورہی ہے ۔۔رستم جو باہر جانوروں
کو چارہ ڈال رہا تھا بھاگتا ہوا آیا اور باپ کو چارپائی پر سیدھا کر کے
لٹایا ۔۔چھوٹا بیٹا جلدی سے پانی لے آیا ۔۔اماں گڑ لاؤ اور شہد لاؤ اس نے
ماں کو آواز دی ۔۔تھوڑی دیر میں پینو کے باپ کی طبیعت بہتر تھی ۔۔اس نے
رستم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔۔رستم مجھے پتا ہے سارا خاندان
باتیں بنا رہا ہے لیکن تم جانتے ہو ہماری پینو دودھ کی طرح پاک ہے ۔۔رستم
اگر تمہارے ہاتھ اس کے خون سے رنگے گئے تو مجھے ان ہاتھوں سے کبھی نہ چھو
نا اور نہ ہی مجھے ان ہاتھوں سے دفنانا۔۔مجھے پتا ہے میری بچی کی سانسیں
چھین لی جائیں گی لیکن میں چاہتا ہوں میرے خون کو میرا ہی خون مت بہائے۔۔۔
رمضان اور خاندان کے دوسرے بزرگ سردار کے سامنے بیٹھے تھے اور پینو کا کیس
زیر بحث تھا ۔ رمضان نے سردار کو خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ کالی (جس
پر الزام لگایا جاتا ہے اسے کالی کہا جاتا ہے) کا شوہر بہت اچھل رہا ہے
۔۔وہ اس کے قتل کے لیئے آمادہ نہیں اور اس کا سسر بھی خاموش ہے صرف اللہ
وسایا بالی کا بھائی غیرت کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن وہ بھی اپنے بھائی کے
لیئے پریشان ہے۔۔ اچھا اور لڑکی کے باپ اور بھائی کی کیا صورت حال ہے
۔۔سردار نے رمضان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔سائیں سرکار رستم کا باپ تو
اپنی دھی کو بے گناہ سمجھتا ہے ۔۔اسے تو عزت ،غیرت کی پرواہ نہیں ۔۔ہاں
البتہ رستم اور اس کے بھائیوں کو غیرت کی شراب پلانی پڑے گی ۔۔ان کی اپنی
شہ رگ پہ زور آۓ گا تو بہن کی محبت خود ہی دم توڑ جاۓ گی۔۔رمضان نے
مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوۓ کہا۔۔سردار نے پنچیت بلانے کا کہا جس میں پینو کے
میکے اور سسرال اور پینو کو پیش ہونا تھا۔
پینو اٹھ جا کب تک جائے نماز پر بیٹھی رہے گی اور اس قرآن پاک کو بھی اب
شیلف پر رکھ دے ۔۔میں اپنے جیتے جی کسی کو تیری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے
بھی نہیں دونگا ۔۔میرا بھروسہ کر ۔۔۔چل چپ ہوجا ۔۔۔اللہ سائیں ہماری مدد
کرے گا ۔۔بالی نے پینو کا ہاتھ پکڑ کر اسے جائے نماز سے اٹھایا اور چارپائی
پر ٹکریلی گِندی (سندھی بیڈ شیٹ ) بچھائی اور اسے بٹھایا اور چنگیر سامنے
رکھ کر نوالہ بنایا اور پینو کی طرف بڑھایا۔۔ پینو نے اس نوالے کو بالی کو
کھلایا ۔۔جانتی تھی کہ بالی نے اس کی طرح اب تک صرف آنسو پئے ہیں ۔۔
بالی اور پینو کی چارپا؍ئی پچھلے صحن میں بچھی تھی جبکہ گھر کے باقی افراد
کمروں کے سامنے والے صحن میں سورہے تھے یا پھر آنے والے وقت کے دکھ سے
آنکھیں بند کئے لیٹے ہوئے تھے ۔۔۔آج چاند کی چودھویں تھی غالبا ۔پینو کو
چمکتا چاند بہت پسند تھا وہ ہمیشہ چاند کی چودھویں کو بالی سے پوری رات جاگ
کر باتیں کرنے کی ضد کرتی ۔کبھی گانے کی فرمائش کرتی اور خوب خوش ہوتی اور
بالی اپنی شاعری کے ذریعے کبھی اس کے حسن کو چاند سے ملاتا تو کبھی چاند کو
چڑاتا کہ میرے پاس تم سے ذیادہ خوبصورت پینو ہے اور کبھی پینو کو چڑانے اور
تنگ کرنے کے لیئے یونہیں بات کرتا اور پھر پینو کو مناتا یوں پتا بھی نہ
چلتا اورصبح کی سپیدی ظاہر ہوجاتی لیکن آج کی رات عجیب تھی ۔۔اداس تھی
۔۔دونوں خاموش تھے ۔۔۔جدائی جیسے ان کے قریب آرہی ہو ۔۔۔بالی جو بچپن سے
اس ملن کا انتظار کر رہا تھا ۔اس نے تو ابھی ذندگی کی خوبصورت پینو کی صورت
میں پائی تھی ۔۔۔ابھی تو اس کی شاعری نے گیت گائے تھے ۔۔ابھی تو اس کی
زندگی کے کینوس میں رنگ بھرے تھے ۔۔۔ابھی تو اس نے پینو کو دل بھر کے
دیکھنا تھا ۔۔ابھی تو اس نے اس کے ساتھ بہار کے پھول چننے تھے پھر اچانک
ہمیشہ رہنے والی خزاں کا پیغام کیوں۔۔۔اس کی ذندگی کے کینوس سے اڑتے رنگوں
کا خوف اور اس کے گیتوں کا مرثئے میں بدلنا اس کے دل کو ڈبو رہا تھا ۔اس کا
دل اتنی زور سے رورہا تھا کہ وہ اسے دلاسا دیتے دیتے تھک گیا اور پھر تکئے
کے بھیگنے پر پینو کی رندھی آواز نے خاموشی توڑی ۔۔بالی تمہارا تکیہ بھی
بھیگ گیا ہے ۔۔تمہیں بھی یقین آگیا ہے کہ مجھے تم سے علیحدہ کر دیا جائے
گا ۔۔بالی اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔نہیں پینو ۔۔ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔۔میں ایسا
نہیں ہونے دونگا ۔۔تم دیکھنا ۔۔میں تمہیں بہت دور لے جاؤنگا۔۔بہت دور
۔۔جہاں ہم دونوں ہونگے ۔۔ہمارے بچے ہونگے ۔۔پینو نے روتے ہوئے کہا ہاں اور
میں بوڑھی بھی ہوجاؤنگی تو بھی تم مجھے دلہن کی طرح سجا ہوا دیکھنا چاہو
گے۔۔پینو نے بالی کی وہ بات جو وہ ہمیشہ اسے کہتا تھا دہرائی۔۔پھر دونوں کے
صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور گلے لگ کر خوب روئے۔۔
(کیا ہوگا پینو کی زندگی کا فیصلہ پنچیت میں؟ پڑھئیے اگلی قسط میں)
|