تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں نے حکومت پر دباﺅ بڑھنا
شروع کردیا ہے جس کے بعد حکومت کے پا س آپشن محدود ہوتے جارہے ہیں. اندرون
ملک سال 2020ءکو عمران خان کی حکومت کیلئے آخری سال قرار دیاجارھاھے
وزیراعظم عمران خان کے پاس بہت کم آپشن بچے ہیں حکومتی اتحادی جماعتوں کی
جانب سے دباﺅ اور بیڈگورنس کی وجہ سے حکومت ڈیلیور نہیں کرپارہی جس سے عوام
کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے .
حکومت پر عالمی مالیاتی اداروں کی مسلط کردہ معاشی ٹیم اپنے اہداف کو پورا
کرنے میں مصروف ہے عالمی مالیاتی اداروں کو کبھی بھی حکومت یا پاکستانی
عوام کی مشکلات سے کوئی غرض نہیں رہی ملک میں غربت‘مہنگائی اور بیروزگاری
میں اضافہ ہورہا ہے مگر حکومتی ترجیحات میں عوامی مسائل شامل نظر نہیں
آتےاور لگتاھے جلد یہ حکومت چلی جائے گی ورنہ عوام انہیں بجھوادیں گے.
یہ حکومت عوام کو چلتی نظر نہیں آرہی پنجاب جیسے بڑے صوبے سمیت کے پی کے
اور مرکزمیں اس کے ہونے کے باوجود حکومت اپنے منشور کا ایک فیصد بھی وعدہ
مکمل نہیں کرپائی۔ حکومت کیطرف سے غربت اور مہنگائی کے خاتمے کیلئے احساس
پروگرام‘لنگرخانے‘صحت کارڈ‘پناہ گاہیں اور قرض پروگرامز سے حل نکلنا ممکن
نہیں ھوا بلکہ تمام مسائل کے حل کیلئے ٹھوس اور جامع پالیسی کی ضرورت ہے
قومی انڈسٹری بند ہورہی ہے حکومت کیطرف سے اسے چلانے کی بجائے قوم کا پیسہ
ایسے پروگراموں پر ضائع کررہی ھے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ ھوگا.
دنیا میں کس ملک نے اس طرح کے خیراتی پروگراموں سے ترقی کی ہے؟ ترقی کے لیے
ہمیں اپنی معیشیت کو مضبوط کرنا ہوگا . زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم بدترین
فوڈ سیکورٹی کا شکار ہیں کیونکہ ہم نے اپنی زراعت پر توجہ نہیں دی اور نہ
ہی لائیوسٹاک پر اگر ہم ان دوشعبوں کو ہی درست کرلیں تو ہماری اقتصادی حالت
بہتر ہوسکتی ہے۔
زراعت اور لائیوسٹاک بلاشبہ انتہائی اہم شعبے ہیں اور یہ ہماری معیشیت کی
ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں مگر حکومتوں نے دیہی علاقوں پر توجہ دینے کی بجائے
شہروں کو وسعت دینے پر وسائل صرف کیئے جس کی وجہ سے اربنائزیشن میں اضافہ
ہوا جب دیہاتوں میں لوگ ہی نہیں ہونگے تو زراعت اور لائیوسٹاک کا شعبہ کیسے
ترقی کرئے گا؟ اربنائزیشن کی وجہ سے ایک طرف ہماری قومی پیدوار متاثر ہوئی
دوسرا شہروں میںآبادی کے دباﺅ کی وجہ سے بنیادی ضروریات بجلی ‘پانی‘گیس کی
طلب میں بے پناہ اضافہ ہوا.
1960ء کی دہائی میں ہماری اقتصادی ترقی دنیا کے لیے ایک ماڈل تھا جسے اپنا
کردنیا کے کئی ممالک آج ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ
ہم آج دنیا میں بھکاری بنے ہوئے ہیں ہماری اقتصادیات قرض پر چل رہی ہیں اگر
عالمی مالیاتی ادارے ہمیں قرض دینا بند کردیں تو ہم دیوالیہ ہوجائیں گے.
ہمیں خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا، دم توڑتی صنعتوں کی بحالی‘زراعت اور
لائیوسٹاک کے شعبوں کو دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا ہوگا، چھوٹے شہروں
اور دیہی علاقوں میں سہولیات فراہم کرکے ہم اربنائزیشن کے سیلاب کو روک
سکتے ہیں مگر اس کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے.
اگر ہم نے فوری طور پر زراعت پر توجہ نہ دی تو ہماری بقاءکو شدید خطرات
لاحق ہوسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا 40فیصد ہے
مگر آج تک ہم نے اس کو آباد کرنے پر توجہ نہیں دی سعودی عرب اور متحدہ عرب
امارات سمیت کئی افریقی ممالک نے ریگستانوں کو آباد کرلیا ہے مگر کسی حکومت
نے بلوچستان کے بارے میں نہیں سوچا آج اگر بلوچستان میں امن وامان کا مسلہ
ہے تو اس کا حل کبھی بھی طاقت کے استعمال سے نہیں نکلے گا کئی دہائیوں سے
ہم نے طاقت استعمال کرکے دیکھ لی اب وقت آگیا ہے کہ پالیسی کو بدلا جائے
اور بلوچستان کے عوام کو زمینیں الاٹ کرکے انہیں آباد کرنے کے لیے وسائل
دیئے جائیں تو امن وامان کا مسلہ خودبخود حل ہوجائے گا.
جب عام بلوچ عوام کو اسٹیک پر ہی کچھ نہیں ہوگا تو وہ شرپسندوں کے لیے آسان
ہدف ہونگے‘انہیں ریاست کے خلاف بھڑکاناآسان ہوگا لیکن اگر عام بلوچ کے پاس
اپنی زمین‘مال مویشی اور گھر بار ہوگا تو وہ کسی بھی شرپسندی کا حصہ بننے
سے پہلے کئی بار سوچے گا. انہوں نے کہا کہ ہرسال حکومتیں اربوں روپے واہیات
قسم کے منصوبوں میں ضائع کردیتی ہیں اگر یہی پیسہ بلوچستان میں آبی ذخائرکی
تعمیر‘نہروں اور سمندر پر پانی صاف کرنے کے پلانٹس لگانے کے منصوبوں پر خرچ
کیا جائے تو پورے ملک میں ایک انقلاب برپا ہوگا.
مقامی حکومتی کے شفاف اور غیرجماعتی نظام کے ذریعے عام شہریوں کو اپنی قسمت
کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے تو روایتی سرداروں کا نظام خود ہی زمین بو س
ہوجائے گا یہی ماڈل سابقہ فاٹا کے اضلاع میں نافذکرکے بہترین نتائج حاصل
کیئے جاسکتے ہیں
عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان نے اگر خود انحصاری کو نہ اپنایا تو آنے
والا وقت پاکستان کے لیے مزید مشکل ہوگا۔ موجودہ حکومت ابھی تک ترجیحات کا
تعین ہی نہیں کر پائی اب تک سامنے آنے والے ”فلاحی“منصوبے سابقہ حکومتوں کے
تندور‘ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام جیسے منصوبوں کا چربہ ہیں اگر تحریک
انصاف کے منشور کو سامنے رکھا جائے اور ان وعدوں کو جو اس نے عوام سے
اقتدار میں آنے سے پہلے کئے تھے تو عمران خان کی حکومت بری طرح ناکام نظر
نہ آتی.
ملکی معاشیات عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کرنے سے بہتر تھا کہ عمران خان
مستعفی ہوکر گھر چلے جاتے تو کم ازکم مستقبل میں ان کے دوبارہ اقتدار میں
آنے کا چانس رہتا مگر اس وقت ملک جو افراتفری ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں
ملتی بجلی‘گیس ‘تیل سمیت اشیاءخوردونوش عوام کی پہنچ سے باہر جاچکی ہیں مگر
حکومت ڈھٹائی سے سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہی ہے. یہ فطری بات ہے کہ عوام
نئی آنے والی حکومت سے ریلف کی توقع رکھتے ہیں مگر پی ٹی آئی حکومت نے ڈیڑھ
سال کے مختصر عرصے میں ہی عوام کی زندگیاں اجیرن کردی ہیں‘ اگر وزیراعظم نے
فیصلہ نہ لیا اور عوام کو ریلیف نہ دیا گیا تو 2020حکومت کا آخری سال ثابت
ہوسکتا ہے.
|