ایران کی امریکہ کے خلاف جوابی کارروائی۰۰۰

امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کا ماحول بن چکا تھا ۔ امریکہ نے جس حملہ کے ذریعہ جنگ کا آغاز کیا تھا اس میں اسے کس حد تک کامیابی یا ناکامی ہوتی ہے اس کا اسے خود اندازہ نہیں تھا۔ البتہ عالمی قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہوتا ہے تو اسکی لپیٹ میں وہ سب ہی آجائیں گے اورجوہری ہتھیاروں سے لیس طاقتور ترین کہلانے والی دنیا تباہی و بربادی کی وجہ سے کمزورہوجائے گی۔ آج نیوکلیئر طاقت کی بنا ء پر امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ جس طرح دوسرے ممالک کو کمزور سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا کا طاقتور ترین صدر محسوس کرتے ہیں انہیں شاید اس کا بہت جلد احساس ہوگیا۔ کیونکہ امریکی صدر کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا ہوگا کہ 7؍ جنوری کی صبح ایران اپنے سب سے اہم جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئے عراق میں موجود اسکے فوجی ٹھکانوں پر حملہ کردے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران نے عراق میں امریکیوں کے زیر استعمال دوفوجی اڈوں عین الاسد اور ارابیل پربیلسٹک میزائل حملے کردیئے جس کی تصدیق پینٹاگون کی جانب سے بھی کردی گئی ہے جبکہ ایرانی ذرائع ابلاغ کا دعوی ہے کہ اس حملے میں 80افراد ہلاک ہوگئے اور امریکہ کو بھاری مقدار میں جنگی سازو سامان کی تباہی کا نقصان ہوا ہے۔جبکہ امریکی میڈیا کا دعوی ہیکہ امریکی ریڈار دوران پرواز میزائلوں کا بروقت پتا چلانے میں کامیاب رہے تھے جس کے باعث امریکی فوجی محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے تھے، اس دعوی میں کتنی صداقت ہے اسے صاحبِ فہم سمجھ سکتے ہیں ۔جبکہ ایران پاسداران انقلاب کے نائب کمانڈر برائے آپریشنز عباس نیل فروش نے کہا ہے کہ ہمارے پاس معلومات تھیں کہ الاسد فوجی اڈے اور خطے میں امریکی افواج تیار ہیں لیکن وہ ہمارے ایک بھی بلیسٹک میزائل کا رخ بدلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ انکا کہنا ہے کہ ہمارے میزائل اپنے نشانے پر لگے۔بتایا جاتا ہے کہ ایران نے مجموعی طور پر 15بلیسٹک میزائل فائر کئے ، حملوں میں استعمال کئے جانے والے بلیسٹک میزائل کا نام ’’فتح 110‘‘ ہے جو کہ زمین سے زمین پر300کلو میٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران ان حملوں کے بعد اپنے متعدد جنگی طیارے فضائی حدود کی نگرانی کرنے کے لئے تعینات کردیئے ہیں جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جوابی حملہ نہ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اﷲ علی خامنہ ای نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر حملے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اڈے پر حملہ کامیاب رہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اب امریکہ کے خلاف اس سے بھی بڑے حملے کئے جائیں گے۔ آیت اﷲ علی خامنہ ای نے کہاکہ ایرانی قوم آج دنیا کے غنڈوں کے سامنے ڈٹ گئی ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ قاسم سلمانی بہادر او رحکمت عملی میں مہارت رکھتے تھے ۔انہوں نے مغربی ایشیا میں امریکی منصوبوں کو ناکام بنایاتھا اور ان کی مدد سے عراق، شام اور لبنان میں امریکی منصوبے ناکام بنائے گئے۔ایرانی صدر حسن روحانی نے کابینہ اجلاس کے بعد اپنے خطاب میں امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ خطے سے امریکہ کو نکال کر لے گا۔انکا کہنا تھا کہ ’’تم نے جنرل سلیمانی کا ہاتھ ان کے جسم سے قطع کیا، اب اس خطے سے تمہارے قدم اکھاڑدیئے جائیں گے‘‘۔ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے62سالہ طاقتور سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی 3؍ جنوری کی صبح عراق میں امریکی افواج کے فضائی حملے میں ہلاکت نے عالمی سطح پر ہلچل پیدا کردی۔ اس حملہ میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا ئی عراقی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور دیگر9 افراد ہلاک ہوگئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی کا ایرانی حکومت میں ایک کلیدی کردار تھا اور ان کی قدس فورس صرف رہبر اعلیٰ آیت اﷲ علی خامنہ ای کو جوابدہ ہوتی ہے۔قاسم سلیمانی کے ہلاکت کے فوری بعدایرانی رہبر اعلیٰ آیت اﷲ علی خامنہ ای نے اپنے ردّعمل میں قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔عراقی وزیر اعظم نے بھی اس حملہ کی مذمت کی، انہوں نے کہا کہ امریکی کارروائی اس کی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی او رملک کے وقار پر کھلا حملہ ہے۔ایرانی صدر حسن روحانی نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حملے نے اس کے خلاف مزاحمت کیلئے ایران کو مزید پرعزم کردیا ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ ایران اور دوسرے آزادی پسند ملک اس کا بدلہ لیں گے۔ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی اقدام کو عالمی دہشت گردی قرار دیا ۔قاسم سلیمانی پر حملہ کرنے کے بعد امریکی محکمہ دفاع کاکہنا تھاکہ امریکی افواج نے صدارتی حکم پر بیرون ملک امریکی اہلکاروں کے تحفظ کی غرض سے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا ہے ۔ ایران نے قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لینے کے لئے جس طرح 7؍ جنوری کو میزائل حملے کئے ہیں اس سے صاف ہوجاتا ہے کہ اب امریکہ کے سامنے ایک ایسا ملک کھڑا ہے جس پر کئی برسوں سے پابندیاں عائد ہونے کے باوجود وہ بدلہ لینے کے قابل ہے۔

62سالہ قاسم سلیمانی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے بتایا جاتا ہے ،واجبی سی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی لیکن پاسداران انقلاب میں شمولیت کے بعد وہ تیزی سے اہمیت حاصل کرتے گئے۔ بتایاجاتا ہیکہ 1980سے 1988ء تک جاری ایران عراق جنگ میں قاسم سلیمانی نے نام کمایا، اور جلد ہی وہ ترقی کرتے ہوئے سینئرکمانڈر بن گئے۔1998ء میں قدس فورس کے کمانڈر بننے کے بعد قاسم سلیمانی نے بیرونِ ملک خفیہ کارروائیوں کے ذریعہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اثر میں اضافہ کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے اتحادی گروہوں کو ہر ممکن مدد فراہم کی اور ایران سے وفادار ملیشیاؤں کا ایک نیٹ ورک تیار کیا۔ عراق کے سابق صدر مردِ آہن صدام حسین مرحوم کے خلاف قاسم سلیمانی نے عراق میں شیعہ اور کرد گروپوں کی مدد کی جبکہ لبنان میں حزب اﷲ اور فلسطینی علاقوں میں حماس کے بھی مددگار رہے۔2003ء میں عراق پر امریکی جارحیت کے بعد سلیمانی نے عراق میں سرگرم گروپوں کی امریکی اڈوں اور مفادات کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں رہنمائی بھی کی۔ بتایا جاتا ہے کہ قاسم سلیمانی نے شامی صدر بشارالاسد کے خلاف 2011میں شروع ہونے والی مسلح مزاحمتی تحریک سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی بھی تیار کرکے دی ۔ایران کی اس مدد اور روسی فضائی مدد نے ہی بشارالاسد کو آج اقتدار پر بحال رکھا ہوا ہے ۔یمن میں بھی صدر عبدربہ منصور الہادی حکومت کے باغی حوثیوں کو بھی آگے بڑھانے میں قاسم سلیمانی کا اہم رول بتایا جاتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپریل 2019میں قاسم سلیمانی کی قدس فورس اور ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ قدس فورس لبنان کی حزب اﷲ اور فلسطین اسلامک جہاد سمیت ایسے گروہوں کی مشرقِ وسطیٰ میں مدد کیلئے بنیادی ڈھانچہ ہے، جنہیں امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے اور یہ فورس انہیں مالی مدد، تربیت، ہتھیار اور آلات فراہم کرتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے سلیمانی کا نام لے کر کہا کہ وہ عراق اور پورے خطے میں امریکی سفارتی عملے اور امریکی فوجیوں پر حملوں کے منصوبے بنانے میں سرگرم رہے ہیں۔ اب جبکہ قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا گیا اور انکی موت کا بدلہ لینے کیلئے ایران نے جو اعلان کیاتھا اس کا آغاز بھی ہوچکا ہے ۔ امریکہ نے اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے پر خطرناک نتائج کی وارننگ دی تھی اب دیکھنا ہیکہ امریکہ ایران کی جانب سے کئے گئے حملہ کا کس طرح جواب دیتا ہے اور عالمی طاقتیں ان دونوں کے درمیان کس قسم کا رول ادا کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ امریکہ اور ایران کے درمیان جو جنگی ماحول پیدا ہوگیا ہے اس کا زیادہ تر نقصان اسلامی ممالک اور مسلم امہ کو ہی ہوگا۔ کیونکہ یہ جنگ امریکہ یا کسی دورے ملک میں نہیں بلکہ مشرقِ وسطی میں ہوگی اور مشرقِ وسطیٰ میں امتِ مسلمہ کا جانی ومالی نقصان شدید تر ہوگا۔ عالمی سوپر پاور ممالک اپنے ہتھیاروں کی ترسیل اور معاشی استحکام کے لئے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لانا چاہتے ہیں تاکہ انکی فوج کے اخراجات اور دیگر جنگی ساز و سامان کی ترسیل آسانی سے ہوسکے۔قاسم سلیمانی کے جانشین کی حیثیت سے انکے نائب رہنے والے اسماعیل قانی کو قدس فورس کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ قدس فورس ایران کی سیکیوریٹی فورسز پاسدارانِ انقلاب کی وہ شاخ ہے جس کے پاس ایران سے باہر فوجی آپریشن کرنے کی ذمہ داری ہے۔ اسے 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کے موقع پر تشکیل دیا گیا تھا ۔جس کے ذریعہ ملک میں اسلامی نظام کی حفاظت کی جاسکے۔ 63سالہ اسماعیل قانی ایران کے مقدس شہر مشہد میں پیدا ہوئے ۔یہ ایران کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے اور اسے شیعہ مسلمانوں کی زیارت کیلئے ایک اہم مقام قرار دیا جاتا ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی کی 3؍ جنوری کوامریکی حملہ میں ہلاکت اور پھر7؍جنوری کوایران کی جانب سے امریکی ٹھکانوں پربیلسٹک میزائل کے ذریعہ جوابی کارروائی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے امکانات ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر دعوی کیا ہے کہ ایران نے عراق میں موجود اپنی عسکری تنظیموں کو ہدایت دی ہیکہ وہ امریکی تنصیبات کو نشانہ نہ بنائیں۔امریکی صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران کی جانب سے فوجی اڈے پر میزائل حملوں کا جواب دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔انہو ں نے بتایا کہ حملے میں کوئی امریکی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا، امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس بھاری ہتھیار ہیں تو ہم انہیں ہر صورت استعمال بھی کریں۔ امریکہ کا کہنا ہیکہ وہ ایران سے سنجیدگی کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہے۔اس طرح ایران کی جوابی کارروائی کے بعد امریکہ کے تیور بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔

یوکرائنی ہوائی جہاز تہران کے قریب گرکر تباہ ، 176افراد ہلاک
یوکرائن کی قومی فضائی کمپنی کا مسافر بردار ہوائی جہاز3؍ جنوری کو ایرانی دارالحکومت تہران کے مرکزی ایئرپورٹ سے پرواز کرتے ہی تباہ ہوگیا۔ یوکرائنی ہوائی جہاز بوئنگ 737تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ جہاز پرواز کرتے ہوئے اونچائی پر پہنچتے ہی ایک انجن میں آگ لگ گئی اور فوری بعد اس سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ بتایا جاتا ہیکہ انجن میں آگ لگنے کے بعد پائلٹ ہوائی جہاز پر کنٹرول کھو بیٹھا۔ تہران میں گرکر تباہ ہونے والا یوکرینی مسافر طیارہ جس میں 176افراد ہلاک ہوگئے تھے۔حادثہ کا شکار ہونے والے اس طیارہ پر شکوک و شبہات پائے جارہے ہیں۔ایران نے امریکہ ، کینیڈا او ربرطانوی حکام کے ان دعوؤں کی تردید کی ہیکہ ایرانی فضائی حدود میں یوکرین کے طیارے کو حادثہ ایرانی طیارہ شکن میزائل لگنے کے باعث پیش آیا تھا۔کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہیکہ انہیں متعدد ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے اشارہ ملتا ہیکہ یہ طیارہ ایران کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا نشانہ بنا، تاہم انہوں نے یہ بھی کہاکہ ممکن ہے کہ یہ عمل غیرارادی طور پر ہوا ہو۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کے ذرائع نے دعوی کیا ہیکہ انہیں یقین ہے کہ طیارے کو میزائل نے نشانہ بنایا ہے۔ ایران کی جانب سے حادثہ کی تحقیقات کی جارہی ہے ، ایران کی جانب سے تحقیقات کی سربراہی کرنے والے حسن رضاعی نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا ہیکہ حادثے میں فلائیٹ ڈیٹا ریکارڈ کو نقصان پہنچا ہے لیکن اس کے میموری یونٹ اور کاک پٹ وائس ریکارڈر بظاہر سلامت ہیں۔وائس آف جرمنی کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے آج یوکرائنی حکام اور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ کے اہلکاروں کو طیارے کی تحقیقات کے لئے ایران کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ اب تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ حادثہ کا شکار ہونے والے طیارے کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا تھا۔

چین اور انڈونیشیا کا متنازعہ سمندری علاقہ
کہیں مذہبی و لسانی بنیاد پر لڑائی جھگڑے، ظلم و زیادتی تو کہیں ملکوں کے درمیان تنازعات نے عالمی سطح پر انسانوں کو ترقی و خوشحالی سے دور کرکے رکھ دیا ہے۔ عالمی سوپر پاور ممالک چاہتے ہیں کہ انکی اجارہ داری ہمیشہ کمزور ممالک پر چھائی رہے۔ اور پھر اگر مسلم ممالک یا امتِ مسلمہ کی بات ہوتی ہے تودشمنانِ اسلام میں اتحاد کوئی نئی بات نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات ان دنوں تیسری جنگ عظیم کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ اور اگر واقعی جنگ عظیم سوم کا آغاز ہوتا ہے تو دنیا عظیم تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔ امریکہ اورایران کے درمیان جنگ کا آغاز ہوچکا ہے ۔ ادھر چین ،انڈونیشیا کے ساتھ چھیڑخوانی کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بحیرہ جنوبی چین میں متنازعہ جزائر کے قریب چینی بحری جہاز کے گزرنے کے بعد انڈونیشیا نے اپنے جنگی بحری جہاز اس علاقے میں متعین کردیئے ہیں۔ جکارتہ حکومت کے فیصلے کے بعد انڈونیشی فوج نے متنازعہ سمندری حدود میں آٹھ جنگی بحری جہاز تعینات کرنے کی تصدیق کی ہے۔چین بحریہ جنوبی چین پر اپنی ملکیت ظاہر کرتا ہے اور دوسری جانب جنوبی مشرقی ایشیائی اقوام ویتنام ، فلپائن اور ملیشیا اسی چینی دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔

افغان۔ قیام امن کومتاثر کرنے کا ذمہ دار ایران۔پومپیو
افغانستان میں قیام امن کو متاثر کرنے کے اصل ذمہ دار کون ہیں اس سلسلہ میں سب ہی جانتے ہیں ۔امریکہ کی جانب سے افغانستان میں ملامحمد عمر کی طالبان حکومت کو جس طرح تباہ برباد کیا گیا اور اس کے بعد جو کشیدہ حالات افغانستان میں رونما ہوئے آج تک وہ قابو میں نہ ہوسکیں۔ قیام امن کی تمام تر کوششیں بیکار ہوتی رہیں۔ امریکہ افغانستان میں کامیابی حاصل نہ کرسکا اور آج قیام امن کے نام پر طالبان کو کسی نہ کسی طرح منانے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس کی یہ کوشش ناکامی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ امریکہ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے ایران کو اس کا ذمہ دار ٹھہرارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کو ایران متاثر کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کی علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں میں شامل ہونے سے ایران نے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران امن کوششوں میں شمولیت اختیار کرنے کے بجائے ان کی اہمیت کوکم کرنے میں مصروف رہا اور عالمی سطح پر دہشت گردانہ کاررائیوں کی حمایت بھی جاری رکھی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہ بات واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کے دفتر میں منعقدہ ایک نیوز کانفرنس میں ان خیالات کا اظہار کیا ۔
******

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.