ہندوستان کو دنیا کی عظیم ترین جمہوریت اور پاکستان کو
ناکام ترین ریاست سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ ننکانہ صاحب اور جے این یو کے
اندر رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں اس دعویٰ جائزہ لیا جانا چاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کو گردوارہ ننکانہ صاحب کے باہر اشتعال انگیز نعرے
بازی ہوئی اور اتوار کو پولیس نے قومی تحفظ ایکٹ کے تحت اس کے لیے ذمہ دار
عمران چشتی کو گرفتار کر لیا ۔ اتوار کو جے این یو پر حملہ ہوا اور منگل کو
پولس نے اس میں زخمی ہونے والی طلباء یونین کی صدر آئشی گھوش کے خلاف ایف
آئی آر درج کرلی ۔ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے پنکی چودھری کے
خلاف ہنوز کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔تفصیل یہ ہے کہ جمعہ ۳ جنوری کو ایک
مشتعل ہجوم نے گرودوارہ کے باہر تقریباً چار گھنٹے تک مظاہرہ اور احتجاج
کیا نیز عمران چشتی نے سکھ برادری کو دھمکیاں دیں ۔ یو نیورسٹی میں اتوار ۵
جنوری کو فیس اضافہ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء پر ۵۰ دہشت گردوں نے
حملہ کردیا اورگالی گلوچ کرنے کے بعد انہیں زخمی کردیا۔ ان ظلباء کو علاج
کے لیے اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ ہندو رکشا دل کے پنکی چودھری نے اس حملے
کی ذمہ داری کرکے سچے دیش بھکت کی حیثیت سے ملک کے غداروں کو سبق سکھانے کا
عزم دوہرایا۔
ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے جس معاملہ کو اچھال کر سی اے اے کو جائز قرار
دینے کی مذموم کوشش کی اس کی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں محمداحسان
نامی شخص پر منموہن سنگھ نے ان کی بہن جگجیت کور کو بزور قوت اغوا کرنے اور
جبراً تبدیلیٔ مذہب کے بعد مسلمان لڑکے سے شادی کروانے کا الزام عائد کیا ۔تاہم
پولیس نے لاہور کی ایک عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے قانونِ شہادت کی دفعہ
164 کے تحت لڑکی کا بیان ریکارڈ کروایا کہ ’اس نے بغیر کسی دباؤ کے، اپنی
مرضی کے مطابق اسلام قبول کرنے کے بعد محمد احسان سے شادی کی ہے۔‘ جگجیت
کور کے خاندان کا مطالبہ تھا کہ حکومت جگجیت کوواپس گھر بھیجے، لیکن گورنر
پنجاب چوہدری سرور نے دعویٰ کیا کہ ننکانہ صاحب میں اقلیتی سکھ برادری سے
تعلق رکھنے والی لڑکی کا معاملہ حل کر لیا گیا ہے۔ چوہدری محمد سرور نے
تسلیم کیا کہ سکھ برادری اس واقعہ پر تشویش کا شکار تھی مگر دونوں گھروں کا
آپس میں بیٹھ کر صلح کرلینا پوری دنیا کے پاکستانیوں اور سکھوں کے لیے
اطمینان کا باعث ہے۔
محمد احسان کا بھائی اپنے چچا کی دوکان پرکام کرتا ہےجہاں ایک گاہک سے دہی
میں مکھی کی شکایت پر جھگڑا ہوگیا اور پولیس نے چچا بھتیجے کو گرفتار کر
لیا۔ احسان نے اس معاملے کو مذہبی رنگ دے دیا ہے۔ننکانہ صاحب اتفاق سے
پاکستان کے وزیرداخلہ اعجاز شاہ کا حلقۂ انتخاب ہے۔انہوں نے اس کا سیاسی
فائدہ اٹھانے کے بجائے کہا کہ ایک ذاتی جھگڑے کو مذہبی رنگ دینے کی مذموم
کوشش کی گئی ۔ حکومت ہندکےاحتجاج پر یہ کہنے کے بجائے کہ ’ہمارے اندرونی
معاملہ میں کوئی مداخلت نہ کرے ‘ پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا
کہ شہر ننکانہ صاحب میں دو مسلم گروہوں کے درمیان معمولی تنازع کو بین
المذاہب مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی گئی مگر پولس نے ملزمین کو حراست میں
لے لیا ۔گوردوارہ ننکانہ صاحب بالکل محفوظ ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں
پہنچا۔اس معاملے میں مقدس مقام کی بے حرمتی کرنے کے دعویٰ جھوٹاہے۔ انہوں
نے یقین دلایا کہ ’’حکومت پاکستان امن و امان کو برقرار رکھنے اور عوام
خصوصاً اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے‘‘۔
حکومت کے اس دعویٰ کی تصدیق پنجابی سکھ سنگت کے چیئرمین گوپال سنگھ چاولہ
نے بھی کردی ۔ انہوں نے بتایا کہ جب مشتعل ہجوم نے گرودوارہ کے گیٹ کو
نقصان پہنچایا ہے تو اس وقت گرودوارہ کے اندر خواتین اور بچے سمیت تقریباً
20 افراد موجود تھے ۔ پولیس نے مظاہرین میں سے دو افراد کو گرفتار کر لیا
تھا تاہم گرودوارہ ننکانہ صاحب کے اندر موجود افراد کے تحفظ کی خاطر پولیس
نے گرفتار افراد کو رہا کر دیا جس کے بعد احتجاج کا سلسلہ ختم ہو گیا ۔گوپال
سنگھ نے یہ تسلیم کیا کہ پولیس اور انتظامیہ نے سکھ برادری کے تحفظ کو
یقینی بنانے کے لیے مکمل تعاون کیا ہے۔ اس معاملےکو جو ایک خاندان کا پولیس
گرفتاریوں کے خلاف ردعمل تھا، مذہبی مسئلہ بناکر پیش کرنا مناسب نہیں ہے
البتہ یہ مطالبہ کیا کہ ’گرودوارہ کے گیٹ کو نقصان پہنچانے والے افراد پر
توہین مذہب کا مقدمہ قائم کیا جائے۔‘ حکومت نے اس مطالبہ کے پیش نظر محمد
احسان کو گرفتار کرلیا اور معاملہ سلجھ گیا ۔
اس کے برعکس جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں فیس اضافہ کے خلاف احتجاج عرصۂ
دراز سے جاری ہے۔ مظاہرہ کرنے والے طلباء کی آواز کو دبانے کے لیے کیمپس
کے باہر پولس کا عتاب ان پر پہلے بھی ٹوٹ چکا ہے ۔ اتوار کے روزداخلہ کا
کام جاری تھا کچھ طلبا و طالبات اس کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے اور کچھ اپنا
داخلہ کروا رہے تھے کہ اچانک نقاب پوش غنڈوں کے ذریعہ حملہ ہوگیا ۔ اس کو
وزیرداخلہ کے اس اشتعال انگیز بیان کے تناظر میں دیکھا جارہا جس میں انہوں
نے دہلی کے آئندہ انتخاب ٹکڑے ٹکڑے گینگ کو سبق سکھانے کی تلقین کرتے ہوئے
کہا تھا پولس تو اپنا کام کرہی رہی ہے لیکن شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری
ادا کرنی چاہیے یعنی وزیراعلیٰ بدل دینا چاہیے۔دہلی کے لوگ جانتے ہیں ان کا
وزیراعلیٰ نہ تو پولس پر اختیار رکھتا ہے اور نہ نام نہاد ٹکڑے ٹکڑے گینگ
کا بال بیکا کرسکتا ہےیہ کام تو وزیر داخلہ کا ہے ۔ اب اگر وہی عوام سے
تعاون مانگ رہے ہیں تو انہیں بھی انتخاب کا انتظار کیے بغیر جس طرح دہلی کی
پولس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کام کیا تھا اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے
۔
بی جے پی کے ترجمان نے گھما پھرا کر اشتراکی تنظیموں پر تشدد کی ذمہ داری
ڈالنے کی کوشش کی مگر ’ہندو رَکشا دَل‘ نے اسے اپنے سر لے کر اس کی سازش کو
ملیا میٹ کر دیا ہے۔ ہندو رکشا دل کے قومی صدر پنکی چودھری نے ایک ویڈیو
جاری کرکے کہا کہ ’’ہمارے ملک میں رہتے ہیں، ہمارے ملک کا کھاتے ہیں اور
ہمارے ہی ملک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لیکن ملک مخالف سرگرمیاں چلا رہے
ہیں جنھیں ہندو رکشا دل کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ ملک مخالف سرگرمیاں اگر
ہمارے یہاں کوئی کرے گا تو اسے اسی طرح کا جواب دیا جائے گا جیسا کہ کل (5
جنوری کو) ہم نے شام کو دیا ہے۔ اس (جے این یو) حملے کی ساری ذمہ داری ہم
لیتے ہیں۔ (وہ) ہمارے مذہب کے خلاف غلط بولتے ہیں اور ان لوگوں کا رویہ
ٹھیک نہیں ہے۔ کئی سالوں سے جے این یو کمیونسٹوں کا اڈہ ہے اور ایسے اڈے ہم
لوگ برداشت نہیں کرتے۔‘‘ تادمِ تحریر پنکی چودھری کو گرفتار کرنے کی جرأت
تو نہیں دکھائی گئی الٹا حملے میں زخمی ہونے والی آئشی گھوش کے خلاف ایف
آئی آر درج کرلی گئی ہے۔ دنیا بھرکے عدل پسند لوگ جب ان دو واقعات کے
تناظر میں ہندوستان و پاکستان کے سیاسی ماحول کا موازنہ کرتے ہوں گے تو کیا
سوچتے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ جنوری ۲۰۱۷ میں صدر ڈونالڈ
ٹرمپ کی قہربانی سے عالمی سطح پرامریکہ کا درجہ کم کرکے مکمل جمہوریت سے
ناقص جمہوریت قرار دے دیا گیا ۔ مودی جی ہندوستان کے کون سا خطاب حاصل کرکے
جائیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا؟ |