جے این یو کے حملے پر بہت کچھ کہا جارہا ہے لیکن اس کی
بنیادی وجہ عدم رواداری پر کوئی بات نہیں کرتا ۔ ہندو راشٹر دل کے پنکی
چودھری نے تو اس کا کھلے عام اظہار کیا ہے لیکن پورا سنگھ پریوار اس کا
قائل ہے۔ رکن پارلیمان اوما بھارتی جیسے لوگ وہ اس کو فروغ دیتے ہیں ۔ان کو
یونیورسٹی پر ہونے والے حملے کا کوئی افسوس نہیں ہےاس لیے وہ نقاب پوش حملہ
آوروں کی مذمت کرنا ضروری نہیں سمجھتیں جبکہ ادھو ان کےچہرہ ڈھانکنے کو
بزدلی کی نشانی مانتے ہیں ۔ اوما بھارتی بھڑکانے والوں کو زہریلے سانپ کے
لقب سے نوازتی ہیں ۔وہ ان زہریلے دانتوں کو نکالنے کی وکالت کرتی ہیں ۔ یہ
لوگ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو سماج کے لیے مضر سمجھتے ہیں ان کو
سدھارنے کے لیے دانت توڑنے میں یقین رکھتے ہیں ۔ جے این یو کا حملہ دلائل
کے بجائے ڈنڈے کے زور اصلاح نافذ کرنے والی مشق کا حصہ ہے۔ اس رحجان کو
پروان چڑھانے کے لیے ’’ دیش کے غداروں کو ، گولی مارو سالوں کو ‘ جیسے
اشتعال انگیز نعرے لگوائے جاتے ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ جے این یو کےتشدد
کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔
وزیر داخلہ بزور قوت جبرو استبداد نافذ کرنے کی ترتیب(chronology) اس طرح
بیان کرتے ہیں کہ پہلے سی اے اے آئے گا (تاکہ سارے ہندووں کی شہریت بحال
کردی جائے) اور پھر اس کے بعد این آر سی لاگو ہوگا (تاکہ مسلمانوں سے ان
کی شہریت چھین لی جائے)۔ امیت شاہ بین السطور بہت کچھ کہتے ہیں جس کو قوسین
میں لکھنا پڑتا ہے۔ وزیر داخلہ جس وقت یہ بیان دیتے ہیں وزیراعظم نریندر
مودی نہ جانے کہاں اور کن خیالات میں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس لیے رام
لیلا میدان میں رام کا نام لے کر کہہ دیتے ہیں این آر سی پر کبھی بات ہی
نہیں ہوئی وہ تو صرف آسام کے لیے ہے اور سارے ملک میں کوئی عقوبت خانہ
((detention camp موجود ہی نہیں ہے حالانکہ ان میں ۲۹ لوگوں کے موت کی خبر
بھی آچکی ہے ۔ اس مہا جھوٹ کے بعد جب امیت شاہ سے استفسار کیا جاتا ہے کہ
آپ کچھ کہتے ہیں اور مودی جی کچھ اور کہتے ہیں تو اس میں سچ کیا ہے؟ تو وہ
جواب دیتے ہیں مودی جی نےجو کہا وہی سچ ہے یعنی وہ خود اور ان کے سارے
ویڈیو جھوٹ بول رہے ہیں ۔
وزیر داخلہ امیت شاہ کی ایک اور ترتیب(chronology) دیکھیں ۔ وہ دہلی کے
لوگوں سے کہتے ہیں دہلی میں کچھ لوگ انتشار پھیلا رہے ہیں ۔ ’ٹکڑے ٹکڑے
گینگ کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ پولس ان سے نمٹ رہی ہے اب دہلی کی
عوام اپنی ذمہ داری نبھائے گی یا نہیں؟ یعنی آ ئندہ انتخاب میں سرکار بدلے
گی یا نہیں ؟ شاہ جی نے ترتیب بتاتے ہوئے سوچا ہوگا کہ عوام ان کے جھانسے
میں آکر دہلی میں کمل کھلا دیں گے لیکن وہ بھول گئے کہ یہ گاندھی نگر کے
سیدھے لوگ نہیں ہے کہ جنہوں نے ان کو کامیابی کیا بلکہ یہ دہلی کے ٹھگ ہیں
۔ ان لوگوں نے اپنی دوکان چمکانے کے لیےکمل تھام رکھا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ
دہلی کے وزیر اعلیٰ کے پاس تو کسی مئیر جتنے اختیارات بھی نہیں ہیں ۔ اس کو
لیفٹیننٹ گورنر تک نہیں پوچھتا ۔وہ اپنے ذاتی تحفظ کے لیے بھی مرکز کے تحت
کام کرنے والی پولس کا محتاج ہے تو بھلا ٹکڑے ٹکڑےگینگ کا کیا بگاڑ سکتا
ہے؟
دہلی کے بھکتوں نے شاہ جی کی آگیہ کا پالن کرنے کے لیے دہلی پولس کے نقشِ
قدم پر چلتے ہوئے جامعہ کی طرز پر الیکشن کا انتظارکیے بغیر جے این یو کے
طلباء کو سبق سکھانے کے لیے کا ارادہ کرلیا کیونکہ ’یہ اندر کی بات تھی
پولس ان کے ساتھ تھی‘۔ اور اب دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اس کی
تائید کرکے باہر کی بات بنا دیا ہےانہوں نے کہا’’دہلی پولس کیا کرسکتی ہے؟
اوپر سے حکم اگر آئے گا کہ آپ کو تشدد نہیں روکنا ، نظم و نسق کو ٹھیک
نہیں رکھناتو وہ بیچارے کیا کریں گے؟‘‘ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ پولس
والے بھی تو انسان ہیں ۔ ان کی بھی اولاد ہے ۔ ان کے دل میں بے قصور طلباء
کے تئیں ہمدردی کیوں نہیں پیدا ہوئی ؟ اس سوال کا جواب کیجریوال کے پاس یہ
ہے کہ ’’اگر (یہ افسران ) نہیں مانتے تو معطل کردیئے جاتے ‘‘۔ جس ملک میں
پولس فورس اپنے سیاسی آقاوں سے اس قدر خوفزدہ ہو وہاں عام آدمی کی حالت
کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جے این یو میں شاہ جی کی طے کردہ ترتیب ، تحفظ او
رہنمائی میں حملہ ہوا؟ پولس کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی اور وائس
چانسلر باہر آنے احکامات نہیں تھے دونوں نے کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ
کیا ۔ پولس صدر دروازے پر تعینات رہی ۔ اس کے سامنے سے پچاس غنڈے لاٹھی ،
ڈنڈے ، ہاکی اور لوہے کی سلاخیں لے کر یونیورسٹی کے اندر داخل ہوئے لیکن اس
نے ان کو روکنے کے بجائے اپنی آنکھیں بند کر لیں بڑے آرام سے اندر جانے
دیا ۔ سنگھ پریوار کی طلباء تنظیم اے بی وی پی کا الزام ہے کہ اس کے کئی
ارکان کو ان حملہ آوروں نے زدو کوب کیا ۔ اس دعویٰ کو اگر درست مان لیا
جائے تو سوال یہ ہے کہ شاہ جی کی پولس نے حملہ آوروں کو اندر جانے سے کیوں
نہیں روکا اور باہر آتے ہوئے کیوں نہیں پکڑا؟ کیا شاہ جی کو بھی اے بی وی
پی والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ وہ اپنے محل سے نکل کر ان کو بچانے کے
لیے جے این یو کیوں نہیں گئے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے اس میں اے بی وی پی
کی مخالف آئشی گھوش کیسے زخمی ہوگئیں ؟
مودی اور شاہ تلخ سوالات کو سننے اور ان کا جواب دینے کے قائل نہیں ہیں اس
لیے ان سے جوابات کی توقع کرنا فضول ہے۔ سنگھ پریوار اپنے مستقبل کی نسل کو
اس طرح کی بیان بازی سے منع نہیں کرتا کیونکہ یہ ان کی تربیت کا حصہ ہے ۔
آگے چل کر ان کو یہی کذب بیانی کرنی ہے اس لیے ڈھٹائی کے ساتھ اپنے
نوجوانوں کو جھوٹ بولتے ہوئے دیکھ کر اس کے بزرگ خوش ہوکراپنے تابناک
مستقبل کے یقین میں اضافہ کرتے ہیں ۔ ہندوراشٹر دل کا پنکی چودھری ابھی اس
معاملے میں کچا ہے اور منافقت کے شعبے میں اسے مزید تربیت درکار ہے۔ تربیت
کے بعد اسے بھی پرگیہ ٹھاکر کی طرح ایوان پارلیمان کا انتخاب لڑا کر سرکار
دربار میں جگہ دے دی جائے گی ۔ بعید نہیں کہ یوگی ادیتیہ ناتھ کی جگہ اسے
وزیر اعلیٰ بنادیا جائے لیکن اس کا امکان کم ہے کیونکہ ملک کا نوجوان طبقہ
سنگھ کے سحر سے نکل چکا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والے مظاہرے اور ان
میں نوجوانوں کی کثیر تعداد اس کا بین ّ ثبوت ہے۔
جے این یو میں فیس اضافہ کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج اب وائس چانسلر
ہٹاو مہم میں تبدیل ہوچکا ہے۔ طلباء برادری تشدد پر وی سی کی مجرمانہ
خاموشی پر چراغ پا ہے اور استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس مقصد کی
خاطرایوانِ صدارت کی جانب جانے والے جلوس پر پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کر
کے سینکڑوں طلباء کو حراست میں لے لیا۔اس سرکاری دہشت گردی میں حراست کے
باوجود طلباء کا حوصلہ بلند ہے ۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ، ’’پولیس کی
بربریت راشٹرپرتی بھون کی طرف گامزن ہمارے پُرامن مارچ کو نہیں روک پائے
گی۔ ہم پُر زور انداز میں وی سی ہٹاؤ کا مطالبہ اٹھاتےر ہیں گے۔‘‘اسی کے
ساتھ جے این یو طلباء یونین نے میڈیا سے ایک دلچسپ درخواست کردی ، ’’ میڈیا
نے ہماری خبر کو نشر کی، ہم اس کے لیے شکر گزار ہیں لیکن ہماری گزارش ہے کہ
جب تک طلباء جواب میں پولیس پر لاٹھی نہ چلائیں برائے مہربانی نہتے طلباء
پر مسلح ریاستی حملہ کو جھڑپ نہ کہا جائے‘‘۔ اس ٹوئٹ میں یونین نے سرکار کے
ساتھ گودی میڈیا کو بھی بے نقاب کردیا ۔
(۰۰۰۰۰جاری) |