وزراء کی کارکردگی۔۔؟

 میڈیا سٹڈیز کا طالب علم ہونے کے ناطے وہ ٹی وی اینکر اور کالم نگار بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے پھرتا ہے۔ چونکہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں، نہ ہی کوئی خرچہ اس پر اٹھتا ہے، اس لئے یہ کام نہایت ہی آسان ہے۔ مگر اُس کی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ بننا چاہتا ہے، وہ اس کی تیاری بھی کرتا ہے۔ حالات پر نظر، تاریخ کا مطالعہ، اس میدان میں کام کرنے والوں سے ملاقاتیں اُس کی عادت کاحصہ بن چکی ہیں۔ اپنے معلومات اکٹھی کرنے ، اپنے علم میں اضافہ کرنے یا اپنے نظریات و جذبات کا اظہار کرنے کے لئے ہر قسم کے لوگوں سے رابطہ رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی کبھار میرے پاس بھی آجا تا ہے۔ کچھ سوال کرتا اور کچھ ایشوز پر اپنی رائے دیتا ہے۔ گزشتہ روز میرے پاس آیا تو اُس نے اچھوتا تصور پیش کیا، کہنے لگا کہ اپنے ہاں وزراء اپنی وزارت کے ماہر نہیں ہوتے، مہارت تو رہی ایک طرف خود انہیں وزارت کی باریکیوں کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہوتیں۔ بعض اوقات ایسے لوگوں کو کسی وزارت کا قلمدان سونپ دیا جاتا ہے، جس کی ابجد سے بھی وہ واقف نہیں ہوتا۔ یا پھر اس کا مزاج بالکل برعکس ہوتا ہے۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وزارتیں متعلقہ حکمران پارٹی کے کامیاب ہونے والے سیاستدانوں کو دی جاتی ہیں، اتحادی پارٹیوں کوبھی ان کا حصہ دینا پڑتا ہے، اس لئے ضروری نہیں کہ ہر وزارت کے لئے اس کی مہارت رکھنے والا ممبر ہی میسر آئے۔

میری وضاحت کو اس نے جزوی طور پر تسلیم کر لیا، مگر ساتھ ہی ایک اتنا سا اعتراض بھی جاری کر دیا کہ اس طریقے سے نظامِ حکومت تو نہیں چلایا جاسکتا ۔ (ایسے میں جو نظام چل رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے) ۔اُس نے کہا کہ ایک طرف یہ وزراء اپنے محکمہ کے حقیقی معاملات و مسائل سے واقف نہیں، دوسری طرف تمام وزراء اپنی تمام تر توانائیاں ایسے کاموں پر صرف کر رہے ہیں، جو اُن کی وزارت سے قطعی متعلق نہیں۔ میں اس کے چہرے کو دیکھنے لگا، کہ آخر وہ کونسی سرگرمیاں ہیں جن پر وہ لوگ اپنی توانائیاں لگا رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ تمام وزراء نہایت ذمہ داری کے ساتھ سیاسی مخالفین کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں، گویا اُن کی نگاہ میں اُن کی وزارت کی سب سے بڑی ڈیوٹی یہی ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کو لتاڑیں، اُن کے اعتراضات کے جوابات کے لئے نئی نئی اصطلاحیں تراشیں، اُن کے الٹے سیدھے جوابات دیں۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ اس ضمن میں ہر حکومت ’’اطلاعات ونشریات ‘‘کے نام سے ایک وزارت تشکیل دیتی ہے، اور اپنے خیال میں سب سے زیادہ اور بنا سنوار کر باتیں کرنے والے صاحب کو اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے آغاز میں فواد چوہدری اس کے لئے مناسب جانے گئے تھے ، مگر بعد میں فردوس عاشق اعوان کو یہاں بھیج دیا گیا۔ اُس نے میری بات کاٹ کر موصوفہ پر اعتراض جڑ دیا کہ اُن کو تو بولنے کے لئے بھی کافی طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے بھائی، اپنی بات دور تک پہنچانے کے لئے زور تولگانا پڑتا ہے۔

حکومت کا موقف بیان کرنے کے لئے ایک وزارت تو ہے، مگر دیگر تمام وزیر کیا کرتے ہیں؟ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی اس نے فواد چوہدری کے بیانات کا ذکر کیا، کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں تو شاید ہی کبھی کوئی بیان سامنے آیا ہو، مگر مخالفین کے بارے میں دیئے گئے بیانات روزانہ چینلز اور اخبارات کی زینت بنتے ہیں، حتیٰ کہ بہت سے معاملات سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی مخالفین پر ہی کیا موقوف مذہبی طبقات پر بھی چوہدری صاحب کی نظر کرم اکثر لگی رہتی ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے بعد اب اسلامی نظریاتی کونسل کو غیر ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح شیخ رشید، مراد سعید، شفقت محمود اور دیگر کئی وزراء اپنی وزارتوں سے ہٹ کر ہی بیانات دیتے ہیں۔

اُس نے ماضی کے ورق پلٹتے ہوئے گزشتہ حکومتوں کے اہم وزراء کا ذکر بھی کیا، کہ دانیال عزیز، طلال چوہدری، پرویز رشید، خواجہ آصف اور احسن اقبال سمیت کتنے وزیر تھے جو اپنی وزارتوں کو پسِ پشت ڈال کر صرف اپنے قائد کی حمایت اور مخالفین کے اعتراضات کے دلچسپ پیرائے میں جوابات دینے کے علاوہ کچھ نہ کرتے تھے۔ ہر دور میں یہ کلچر چلتا آیا ہے اور نئے پاکستان کے زمانے میں بھی جاری و ساری ہے۔ میں نے اُسے بتایا کہ اپنی حکومت کے لئے ڈھال اور مخالف کے لئے تلوار بننا وزراء کی مجبوری ہے، مگر وہ اپنی بات پر مُصّر تھا کہ لگتا ہے کہ ہر دور کے حکمرانوں کے پسندیدہ وزیر وہی ہوتے ہیں جو مخالفین کے لئے سخت یا دلچسپ بیانات دیتے ہیں، ایسا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ، کابینہ کے اجلاس میں یا پھر نجی محفل میں ایسے لوگوں کو شاباش ضرور ملتی ہوگی، عین ممکن ہے کہ آپس میں مل کر سب ہنستے بھی ہوں کہ جو کیا بہت اچھا کیا اور حکومت مخالفین کو ناکوں چنے چبوائے۔ اگر کہیں ضرورت ہو تویہ مخالف کو تھپڑ وغیرہ مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، ایسا کرنے پر کسی حکومتی عہدیدار کی کبھی معذرت منظر عام پر نہیں آئی۔ہمارا یہ نوجوان شاید درست ہی کہتا ہے کہ وزراء کی کارکردگی کااُن کی محکمانہ کارگزاری سے کوئی تعلق نہیں، اُن کی ’’غیر نصابی ‘‘سرگرمیاں ہی ان کی کارکردگی ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473104 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.