کورم ، کرپشن اور کارروائی!

 سربراہِ حکومت نے تسلی دی ہے کہ ’’گھبرائیں نہیں‘‘ ۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ ’’ میں حکومت کرنے نہیں، کرپشن ختم کرنے آیا ہوں‘‘۔ حکمرانوں نے کرپشن نہ جانے کس چڑیا کا نام رکھ چھوڑا ہے، ورنہ کرپشن کے بازار میں مندے کا رجحان کبھی پیدا ہی نہیں ہوا، یہ بازار ویسے ہی گرم ہے، جیسے ہمیشہ سے تھا۔ دفاتر سے کام نکلوانا ہو، یا کسی نے کوئی بل پاس کروانا ہو، کسی ’کاغذی معاونت‘ کے بغیر ممکن نہیں (کاغذ بھی ایسا جس پر قائد اعظم کی تصویر ہو)۔یہ معزز ممبرانِ اسمبلی کو جو فنڈز ترقیاتی کاموں کی آڑ میں ملتے ہیں، ان میں سے کوئی بھولا یا سادہ رکن ہی ہوگا جو اپنا کمیشن وصول نہیں کرتا، ترقیاتی کاموں میں جس طرح دفتری عملہ اپنا حصہ نہایت دیانتداری، ایمانداری اور غیر متنازع طریقہ سے وصول کرتا ہے، اسی طرح ممبرانِ اسمبلی کی فیصدی بھی طے ہوتی ہے، یہ وہ کرپشن ہے، جو ثابت کئے جانے کے مراحل سے نہیں گزرتی، سرکاری دفاتر یا رکن اسمبلی سے جو بچ رہتا ہے، ٹھیکیدار اُس میں سے اپنا حصہ وصول کرتا اور کچھ اصل کام پر لگاتا ہے۔ اگرچہ سابق حکمرانوں یا چند بیوروکریٹس کو کرپٹ قرار دے کر نیب، عدالتوں یا جیلوں وغیرہ کے چکر لگوائے جارہے ہیں، مگروہاں سے دعویٰ یہی ہے کہ’’۔۔ کچھ بھی ثابت نہیں ہوا، انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔۔۔‘‘۔ رشوت اور پرسنٹیج کی کرپشن کے ثبوت کہاں سے دستیاب ہوں گے؟ یہ کام سابق کر گئے یا موجودہ دور میں ہو رہے ہوں، کام جاری رہیں گے، ثبوت مٹتے رہیں گے۔

کیا کوئی ایسا کام ہے، جس کو سرانجام دیئے بغیر ہی تنخواہ اور الاؤنسز وغیرہ وصول کر لئے جائیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ عمل کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا کسی سکول ٹیچر کو اس بات کی چھٹی دی جاسکتی ہے کہ وہ جب چاہے آجائے، اور جب دل کرے چلا جائے؟ اگر آئے بھی تو طلبہ کو پڑھائے بِنا ہی سکول میں کچھ وقت گزارے اور چلتا بنے؟ یقینا ایسا نہیں ہوگا، اُس کی بروقت حاضری ، سکول میں ہمہ وقت موجودگی، حتیٰ کہ بچوں کے بہت اچھے نتیجہ کی ذمہ داری بھی اُنہی پر ڈالی جاتی ہے، اگر وہ کسی بھی میدان میں پیچھے رہ جائے تو نہ صرف پوچھ گچھ ہوتی ہے، بلکہ تبادلہ، انکوائری اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رویہ ایک استاد کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے، مگر جو فرد کروڑوں روپے خرچ کرکے، لاکھوں لوگوں کے ووٹ لے کر نمائندگی کا حق ادا کرنے اور قانون سازی کی ذمہ داری نبھانے کے لئے ایوانوں تک پہنچتا ہے، اُسے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ وہ اپنے فرائض میں غیر سنجیدہ رویہ کا مرتکب ہوتا ہے، اجلاس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ کورم ٹوٹا رہتا ہے، اگر کچھ لوگ آبھی جائیں تو اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، کبھی حکومتی اور اپوزیشن کا ٹکراؤ ہو تو یہ لوگ ایسا منظر نامہ پیش کرتے ہیں، کہ آنکھیں شرم سے جھک جائیں، عام اجلاسوں میں بھی مخالفت برائے مخالفت کے فامولے پر عمل جاری رہتا ہے، کسی فریق نے دوسرے کی اچھی بات بھی قبول نہیں کرنی ہوتی، یہ الگ بات ہے کہ اچھی بات قسمت ہی سے سامنے آتی ہے۔ ہمارے معزز منتخب نمائندے غیر حاضری کے بھی پیسے لیتے ہیں، اسمبلی نہ جاکر بھی ٹی اے ڈی اے وصول کرتے ہیں، وہاں لڑائی بھڑائی کے بھی انہیں پیسے ملتے ہیں۔ کوئی نیب، کوئی عدالت، کوئی دانشور وغیرہ بھی اپنے معزز نمائندوں کو اس فعل کے سرزد ہونے پر کرپٹ قرار نہیں دیتا، کیونکہ اِن لوگوں پر انگلی اٹھے گی تو اِ ن کا استحقاق مجروح ہو جائے گا۔

کیا یہ کرپشن کی ایک شکل نہیں کہ ہمارے یہ کروڑ پتی عوامی نمائندے اسمبلی کے ایک دن کے اجلاس میں کچھ بھی نہ کر کے کروڑوں ڈکار تے ہیں، ان کی قائمہ کمیٹیاں، سب کمیٹیاں، حتیٰ کہ کوئی کمیٹی بھی بن گئی، اخراجات کی نہر سے ایک موگا اُدھر کھول دیا گیا، پھر اجلاس پہ اجلاس ، الاؤنس پہ الاؤنس، مراعات پہ مراعات۔ آئین میں درج یہ کمیٹیاں بھی اِن مستحق نمائندوں کے روز گار کا ذریعہ بنتی ہیں۔ کیا ناجائز منافع خوری اور کرپشن نہیں کہ حکومت صارف سے ایک لیٹر ڈیزل پر 46روپے کے قریب ٹیکس لے اور ایک لیٹر پٹرول پر 35روپے ٹیکس وصول کرے ؟یوں حکومت ایک برس میں صرف پٹرولیم کی مد میں عوام سے 206ارب، 28کروڑ روپے ٹیکس نچوڑ چکی ہے۔ بجلی کی کہانی بھی مختلف نہیں۔ روز مرہ کی دیگر اشیاء ان کے علاوہ ہیں۔ اپنے نمائندوں کو ووٹ کے ذریعے ایوانوں تک پہنچانے والے عوام بھی عجیب نفسیات رکھتے ہیں، وہ اپنے قائدین کے دیوانے ہیں، قائد چاہے بڑا ہو یا چھوٹا، اسے آزادی حاصل ہے۔ عوام اپنے نمائندوں سے سوال نہیں کرتے کہ جناب ہماری نمائندگی کا حق کب ادا ہوگا؟ اسمبلی اجلاسوں سے غیر حاضری کیا مطلب؟ اسمبلی میں کتنا بولے اور کس موضوع پر بولے؟ نہیں بولے تو کیوں؟ اگر نمائندوں کو کسی جوابدہی کا ڈر ہو تو اسمبلیاں خالی نہ ہوں۔اگر حکمرانوں کو احساس ہو تو کورم نہ ٹوٹے۔ اگر یہ لوگ ملک اور عوام سے مخلص ہو ں تو غیر حاضری والے دن ڈیلی الاؤنس اور سفری مراعات قومی خزانے سے وصول نہ کریں۔ کیا کیجئے کہ ہر حکمران یا صاحب اختیار کو دوسروں میں تو خامیاں دکھائی دیتی ہیں، مگر اپنا سب اچھا ہی نظر آتا ہے۔

حکومت ایک طرف سرکاری افسران و اہلکاران پر سیاسی دباؤ کی نفی کرتی ہے ، دوسری طرف کسی نہ کسی وجہ سے تبادلوں کے جھکڑ چلا دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں تبادلوں کے تین بڑے طوفان برپا ہو چکے ہیں، ہم کم فہم لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں، کہ ایک افسر اگر کسی شہر میں اچھا کام نہیں کر رہا تو دوسرے شہر میں جا کر اس میں کون سے صلاحیتیں ابھر آئیں گی، جن کی بنا پر وہاں وہ خوب محنت اور دیانتداری سے کام کرے گا؟ بڑے افسران کے تبادلوں پر بھی کروڑوں خرچ ہوتے ہیں، کیا قومی خزانے کا اِن کارروائیوں پر یوں ضیاع کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا حکمرانوں کے جھوٹے وعدے اور دعوے اخلاقی کرپشن کی ذیل میں نہیں آتے؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428399 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.