دینِ اسلام میں جہاں ایک طرف نماز،روزہ،حج جیسی روحانی
چیزوں کاذکر ہے وہاں زکوٰۃ، تجارت، معیشت،سیاست کا بھی ذکر ہے۔یہ قابل فکر
ہے ہمارے لئیے کہ کن حالات میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکو اس بات
پر مجبور ہونا پڑا کہ ایک حکومت قائم فرمائیں،حکومت کی اقامت پر مجبور ہونے
کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ موجودہ دور میں روشن خیال، سیکولر طبقہ اور
جدید مفکرین اپنے نظریات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلام کا
سیاست،تجارت،حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے،مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کہ رسول
اکرمصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک مملکت قائم کرتے ہیں اور اس مملکت کے حاکمِ
اعلیٰ کی حیثیت سے حکمرانی بھی فرماتے ہیں،ہرچیز کا نظم و نسق رسول کریم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قائم فرمایا اور ایسا کامیاب نظام چھوڑا کہ آپ کے
بعد صدیوں تک چل رہا ہے اور حکمران رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکے
نظامِ سلطنت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔((1 معاشی حل:رسول کریمصلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم مدینہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے مہاجرین کے معاشی مسائل کے حل
کیلئے مواخات کا انتظام فرماتے ہیں۔اس نظام سے مہاجرین اور انصار کی معاشی
حالات بہت بہتر ہو جاتی ہیں۔(2)دفاع: اس کے بعد محبوب کریمصلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم مدینہ شہر کی سیکورٹی اور دفاع کی طرف توجہ فرماتے ہیں کیونکہ مدینہ
میں کوئی نظام سلطنت نہیں تھا،وہاں کے لوگوں کے درمیان جھگڑے،لڑائیاں چل
رہیں تھی،رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم شہر کو محفوظ بنانے کیلئے ایک
ہنگامی اجلاس طلب فرماتے ہیں۔اجلاس میں مسلم اور غیر مسلم کے قبائل کے بڑے
سردار شریک ہوتے ہیں رسول کریم جب حکومت کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہیں تو
سب متفقہ طور پر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکو صدر منتخب کرلیتے
ہیں۔مملکت میں حکمران اور رعایا کے کیا حقوق ہو سکتے ہیں اس حوالے سے آپصلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تمام قبائل سرداروں سے مشورہ کرکے ایک دستور مرتبہ
کیا۔جس میں یہ لکھا تھا کہ مملکت ایک مستقل اور خودمختار ہوگی اور
غیرمسلموں کو ان کے دین کی پوری پوری آزاری ہوگی۔ایک دفعہ کے الفاظ یہ ہیں
''للمسلمین دینھم و للیہود دینھم'' یعنی مسلمانوں کیلئے مسلمانوں کا دین
اور یہودیوں کیلئے ان کا دین ہے۔ اور دفاع کے سلسلے میں یہ فیصلہ ہوا اگر
باہر سے کوئی دشمن حملہ کرے تو ہر قبیلہ براہ راست مدافعت کرے گا،لوگ ایک
دوسرے کی مدد کریں گے اور فوج میں جو اخراجات ہونگے ہر قبیلہ خود برداشت
کرے گا،اس معاہدے کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں مرکزی حکومت کے پاس کوئی
خزانہ نہیں تھا لہٰذا مجبوراً ہوکر یہ طریقہ اخیتار کیاگیا کہ لوگ
رضاکارانہ اور بغیر تنخواہ کے فوج میں شامل ہوں،فوج کا سارا نظام حضرت محمد
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھا،مدینہ میں سیکورٹی اور دیگر انتظامات
کرنے کے بعد رسول اکرم مدینہ کے جنوب مغربی اور ساحلی علاقوں کی طرف تشریف
لے جاتے ہیں اور غیرمسلم قبائل کو نئی قائم ہونے والی ریاست سے فوجی تعاون
پر آمادہ کرکے معاہدہ کرتے ہیں۔یہ طے ہوا کہ تم پر کوئی حملہ کرے گاتو
مسلمان تمہاری مدد کریں گے،اگر کسی نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو تم مسلمانوں
کی مدد کروگے،اور یہ بھی معاہدہ تھا کہ قبیلے والے رسول کریم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلماور مسلمانوں کے دشمنوں سے دوستی بھی نہیں کریں گے،بہرحال ان
معاہدات سے مدینہ کے چاروں طرف دوستوں میں اضافہ اور مخالفوں،دشمنوں میں
کمی آگئی۔(3) نظام تعلیم: تعلیمی نظام یہ تھا کہ مدینہ میں صفہ کے نام پر
درسگاہ تھی،شہر کے باشندے پڑھ کر چلے جاتے اور دور دراز علاقوں کے رہنے
والے وہیں قیام کرتے،مختلف لوگوں کو ضرورت کے پیش نظر مختلف علوم وفنون پر
تعلیم اور تربیت دی گئی۔جو لوگ بالکل ان پڑھ تھے ان کو لکھنا پڑھنا سکھایا
گیا،عہدنبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں مدینہ کے اندر 9مساجد تھی،ہر مسجد
اپنے محلے کیلئے ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتی تھی،بچے اور بالغ پڑھتے
تھے۔قباء میں ایک مسجد اور مدرسہ تھا وہاں وقتاً فوقتاً رسول کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم خود تشریف لے جاتے اور ذاتی طور پر نگرانی فرماتے۔مدینہ میں
اور مضافات کے علاقوں میں اساتذہ مقرر تھے،انہیں حکومت کی طرف سے تنخواہیں
دی جاتی،بہترین تعلیمی نظام کا اندازہ ایک واقعہ سے کیجیئے کہ رسول اکرمصلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم سید نا معاذ بن جبل ؓکو یمن کیلئے انسپکٹر جنرل آف
ایجوکیشن کے طورپر بھیجتے ہیں،حضرت معاذؓ وہاں جاکر تدریسی فرائض سرانجام
دینے کے ساتھ تعلیمی ادارے بھی قائم کرتے ہیں، اسی طرح صوبوں اور شہروں میں
بھی تعلیم کا ایسا انتظام کیاگیا۔(4) نظام عدل:عدلیہ کا قیام ریاست کی اہم
ترین ذمّہ داریوں میں سے شمار ہوتا ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمنے
اس کا بہترین انتظام فرمایا،مدینہ میں قاضی یعنی ججوں کو مقرر کیا۔کسی
مسائل اور جھگڑے کے حل کیلئے لوگ وہاں تعینات ججوں کے پاس جاتے یا رسول
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکی طرف آتے،فی الفور مقدمہ درج کرکے فیصلہ سنایا
جاتا،علاقوں اور شہروں کی فتوحات ہونے کے ساتھ عدالتی انتظامات میں اضافہ
کیا جاتا۔یمن کے علاقے نجران کے عیسائیوں کے وفد کی درخواست پر رسول
کریمصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عبیدہ بن جراح ؓکو ان کے ساتھ
بھیجا،سیدنا عبیدہؓ نے وہاں اپنے فرائض بخوبی سرانجام دئیے کہ یمن میں تیزی
سے پھیلنے لگا،بہت سے عیسائی متاثر ہو کر مسلمان ہوگئے۔(5)گورنرزکاتقرر:
صوبوں کا نظام کنٹرول کرنے کیلئے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے گورنر مقرر
کئے،جن کی سرگرمیوں اور کارکردگی کے حوالے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمنے خود
نگرانی فرمائی(6).سفارتی نظام: ریاست مدینہ میں سفارتی نظام بھی تھا،رسول
کریمصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بیرونی ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینے
کیلئے ان کے پاس اپنے سفیروں کو بھیجتے،یہاں یہ بات بھی ذھن نشیں کرلیجئے
کہ ان سفیروں میں بعض مرتبہ غیر مسلم بہت سفیر بنے،وزارت خارجہ کا عہدہ
حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ کے پاس تھا،بعض روایات میں ہے کہ حضرت سیدنا ابو
بکر صدیقؓ وزارت داخلہ کے منصب پر فائر تھے،اندرونی معاملہ کو حل کرتے۔(7)
مالیاتی نظام:اسی طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کے
مختلف انتظامات کیساتھ مالیات کا بھی شعبہ قائم فرمایا،کیونکہ آمدنی کے
مختلف ذرائع تھے مثلاً زکوۃ،صدقات،مال غنیمت،مال فئی،غیر مسلموں سے
جزیہ،خراج وغیرہ،حکومتی آمدنی کے نگران حضرت سیدنا بلالؓ تھے،ذرائع آمدنی
میں سے ایک یہ بھی تھی کہ صاحب نصاب یعنی مالدار لوگ اپنی رقم حکومتی خزانے
میں جمع کراتے،اگر کوئی کاشتکار ہوتا تو وہ پیداوار کا ایک حصہ ادا
کرتا،تاجر بھی اپنے سرمایہ تجارت پر رقم دیتا،کسی کے پاس لوہے سونے یا اس
زمانے میں کسی اور چیز کی کانیں ہوتیں تو وہ لوگ اس کی ایک مقدار حکومت کے
خزانے میں جمع کرواتے۔اسی طرح شہر مدینہ سے باہر سلطنت میں شامل شہروں اور
علاقوں کے لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے تحصیلدار بھیجے جاتے تھے۔چند ماہ
بعد آپصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مقامی محصل مقرر کئے۔(8)کلرکوں،کاتبوں
کاتقرر:سلطنت کے اہم ترین انتظامات سنبھالنے کیلئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے دفتری نظام (سیکرٹریٹ)کا شعبہ قائم فرمایا۔ان عہدوں پر تعینات
لوگ حساب،کتاب اور لکھنا خوب جانتے تھے۔ان میں سے کچھ لوگ نازل ہونے والی
وحی تحریری شکل میں لکھا کرتے،رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پھر
بعض لوگ قبائل کے سرداروں اور حکمرانوں کو خطوط لکھا کرتے تھے۔اور کچھ لوگ
زکوٰۃ کا اندراج کرتے یعنی رقم کس سے وصول ہوئی،کس پر خرچ کی گئی،اسی طرح
جنگوں سے جو مال غنیمت حاصل ہوتا تو اس کے بارے میں تمام تفصیلات لکھ دی
جاتیں۔عہد نبوی ِ میں ریاست مدینہ کا رقبہ تاریخی شواہد کے اعتبار سے تین
ملین یعنی 30لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا۔اس وسیع سلطنت میں فلسطین
وعراق کے جنوبی علاقے کے حصے بھی شامل تھے۔جیسے جیسے ریاست مدینہ میں وسعت
آتی گئی ضرورت کے موافق سلطنت میں ہراک کا انتظام کیا جاتا تھا اور بعد کے
زمانے میں جو ترقی یافتہ انتظامی ادارے نظر آتے ہیں ان سب کی بنیاد عہدِ
نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں پڑچکی تھی۔
|