جان کائزراس وقت ورجینیا(امریکہ )میں مقیم ہیں انہوں نے
کولمبیایونیورسٹی سے یورپی تاریخ میں ایم اے اوریونیورسٹی آف شگاگوسے ایم
بی اے کیاہے مگر حیرت انگیزطورپروہ ایک مسلمان مجاہدکی زندگی سے
متاثرنظرآتے ہیں ان کی زندگی کاہیرو امیرعبدالقادرالجزائری ہے وہ الجزائری
کے سچے عاشق اورپیروکارہیں ،یوں سمجھ لیں کہ جان کائزرنے عبدالقادرکی شخصیت
اوران کے کارناموں کوپھیلانااپنامشن بنالیاہے وہ ہمہ وقت اس کے لیے کوشاں
رہتے ہیں کچھ عرصہ قبل انہوں نے عبدالقادرالجزائری کی زندگی پرکتاب لکھی جس
کااردوترجمہ،،سچے جہادکی ایک داستان،،کے عنوان سے شائع ہوچکاہے ۔اس کے ساتھ
ساتھ جان کائزرنے الجزائری کی شخصیت پر تحقیقی کام کابیڑہ بھی اٹھایاہے
اوران کے نام سے باقاعدہ ایک فاؤنڈیشن بھی بنائی ہے جوالجزائری کی خدمات کی
روشنی میں امریکہ اوردیگرممالک میں فلاحی کام کررہی ہے ،
پاکستان میں الجزائری کے مشن کے آگے بڑھانے میں ہمارے دوست اسلامی یکجہتی
کونسل کے چیئرمین قاضی عبدالقدیرخاموش پیش پیش ہیں ،گزشتہ دنوں انہوں نے
اپنے گاؤں،، ہیل،، کھاریاں میں عبدالقادرالجزائری کے حوالے سے پروگرام
منعقدکیا جس میں امریکہ سے تشریف لائے ہوئے معروف سماجی شخصیت
ڈاکٹراظہرحسین ،فاضل مدینہ یونیورسٹی مولاناالطاف الرحمن شاہ ،متحدہ علماء
محاذکے چیئرمین عبدالخالق فریدی،حافظ انس ظہیر، ڈاکٹرعلی احمدطاہر،ہیومن
رائٹس کے چیئرمین سیدباقرحسین ،حافظ عبدالباسط ،مولاناعزیزالرحمن حقانی ،ڈاکٹراحمداعجاز،قاضی
خلیل الرحمن ودیگرنے شرکت کی
مقررین نے امیر عبدالقادر کی خدمات پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ دنیابھرمیں
جاری دہشت گردی کے مکمل خاتمے وقیام امن کے لیے امیرعبدالقادرکے وضع کردہ
جہادی اصولوں کی پاسداری اوران کواپنانے کی ضرورت ہے ،الجزائری نے
جہاداورمذاکرات کے ہتھیارکوبروقت استعمال کیاجہاداوردہشت گردی میں فرق کرنے
کی ضرورت ہے دہشت گردی اورجہادکاکوئی تعلق نہیں عبدالقادری الجزائری کی
تعلیمات بھی یہی ہیں ایسی شخصیات کے ساتھ نئی نسل کا تعارف اور ان کے کردار
اور افکار وتعلیمات سے آگاہی استعماری تسلط اور یلغار کے آج کے تازہ عالمی
منظر میں مسلم امہ کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ ہے۔
امیر عبد القادر الجزائری مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلمانوں کے جذبہ
حریت اور جوش ومزاحمت کی علامت تھے اور وہ اپنی جدوجہد میں جہاد کے شرعی
واخلاقی اصولوں کی پاسداری اور اپنے اعلی کردار کے حوالے سے امت مسلمہ کے
محسنین میں سے ہیں، امیر عبد القادر کا شمار انیسویں صدی میں عالم اسلام کی
ان معروف شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے مسلم ممالک پر یورپ کے مختلف ممالک
کی استعماری یلغار کے خلاف مزاحمانہ جدوجہد کی۔ الجزائر کے امیر عبد القادر
کی جرات واستقلال، عزیمت واستقامت، حوصلہ وتدبر اور فکر وکردار کی عظمت کو
ان کے دشمنوں نے بھی سراہا اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو
گیا،امیر عبد القادر نے انیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں
الجزائر میں فرانسیسی استعمار کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی اور ایک ایسا
نمونہ پیش کیا جسے بلاشبہ اسلام کے تصور جہاد اور جنگی اخلاقیات کا ایک
درست اور بڑی حد تک معیاری نمونہ کہا جا سکتا ہے۔
امیر عبد القادر:6ستمبر1808 کوالسیدمحی الدین کے گھرالجزائر(شمالی افریقہ )میں
پیداہوئے فقہ مالکیہ کے مشہورعالم اورسلسلہ قادریہ سے وابستہ باعمل صوفی
تھے ا میر عبدالقادر کی زندگی جہدمسلسل کا ایک بہترین نمونہ تھی-اس مردِ
مجاہد نے ایام ِ شباب میں ہی ملتِ اسلامیہ کو1832ء سے 1847ء سال تک
فرانسیسیوں کے قبضے سے بچانے کے لیے 16سال تک مسلسل مزاحمت کی اور اس کے
بعد قیدوبند کے ایام میں اپنے عمل و کردار اور رہن سہن سے اسلام کے خوبصورت
پیغام کی ایسی مجسم تصویر ثابت ہوئے کہ ان کے جو پہرہ دار تھے انہوں نے ان
سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا اور آج بھی فرانس میں مسلمانوں کا وہ
قبرستان گواہی دے رہا ہے کہ امیر عبدالقادرنے کسی بھی حال میں دین حق کی
ترویج سے پس و پیش نہیں کیا اور ہر حال میں اسلام کی خدمت کی 25مئی 1883 کو
عبد القادر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے-ان کی نمازِ جنازہ میں60 ہزار سے
زیادہ افراد نے شرکت کی اور انہیں ان کے مرشد شیخ الاکبر محی الدین ابن
عربی کے مقبرہ میں ا ن کے ساتھ دفن کیا گیاجو ان کی دیرینہ خواہش تھی-
امیر عبد القادرغیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے وہ ایک عالم اور سپاہی تھے
اور ان کی تربیت روایتی علم کی بنیاد پر کی گئی تھی لیکن انہوں نے جدید
ٹیکنالوجی اور علمی جدت کی پیروی بھی کی اور ان کے کردار سے یہ ثابت ہوتا
ہے کہ وہ علمی و فکری جدت کو انسانی معاشرے کے لیے بہت اہم سمجھتے تھے ،عبدالقادرکی
زندگی فکری ورثے کے طور پر نوجوان نسل کیلئے ایک بہترین نمونے کی حیثیت
رکھتی ہے مثلاکامل مومن اور روحانی ورثے کا امین ہونا اور دور جدید کے نئے
علوم اور خیالات کو تسلیم کرنا اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کیلئے صبرو تحمل
کا پیکر ہونا،
دمشق میں قیام کے دوران جب خلافت عثمانیہ کی طرف سے شام میں مقیم مسیحیوں
پر جزیہ کا قانون تبدیل کیے جانے کے بعد اس مسئلے پر مسلم مسیحی کشمکش کا
آغاز ہوا توالجزائری عیسائیوں کے لیے ڈھال بن گئے اورانہوں نے کم وبیش
پندرہ ہزار مسیحیوں کواپنے گھرمیں پناہ دی جس کی وجہ سے انہیں امن کا ہیرو
قرار دے کر مغرب کے چوٹی کے سیاسی راہ نماؤں اور دانش وروں نے خراج تحسین
پیش کیاہے، نیو یارک ٹائمز نے ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں
کیا کہ عبدالقادر کے لیے یہ یقیناعظمت کا اور حقیقی شان وشوکت کا باب ہے اس
بات کو تاریخ میں رقم کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ مسلمانوں کی آزادی کے
لیے لڑنے والا سب سے ثابت قدم سپاہی اپنے سیاسی زوال اور اپنی قوم کے
ناگفتہ بہ حالات میں عیسائیوں کی زندگیوں اور حرمت کا سب سے نڈر نگہبان بن
کر سامنے آیا۔ جن شکستوں نے الجزائر کو فرانس کے آگے جھکایا تھا، ان کا
بدلہ بہت حیرت انگیز طریقے سے اور اعلی ظرفی سے لے لیا گیا ہے۔
عبدالقادر کا دمشق میں انسانی جذبہ کے تحت عیسائیوں کو بچانے کا یہ عمل یہ
کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ بغیر کسی مذہبی تفریق اور تعصب کے انسانیت کے
قائد تھے ،ان کے اس اقدام پرمغربی دنیا،عیسائی ودیگرقوتیں آج بھی ان کی
گرویدہ ہیں،وہ ان کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہیں، عبدالقادر کی زندگی
میں ہی ان کو ایک بڑا ٹریبیوٹ امریکی کانگریس مین ٹموتھی ڈیوس نے پیش کیا
جس نے امریکی ریاست آئیو کے نو آباد شدہ شہر کو اِس مردِ حریت کے نام سے
منسوب کرتے ہوئے اس کا نام القادر(Elkader) رکھا-،وہاں کے پبلک سکولوں میں
طلبہ کو امیر کی شخصیت سے واقف کرانے کے لئے ایک مستقل، تعلیمی پروگرام چل
رہا ہے
امیرعبدالقادرکادورایک نہایت بدقسمت عہد تھا جب مغربی طاقتیں دانتوں پر خون
لگائے دیوانہ وار ان کے ملک پر لپک رہی تھیں اس وقت فرانس کا
مراکش،الجیریا،سوڈان،شمالی و مشرقی افریقہ پر اور برطانیہ کا یوگنڈا،
نائیجیریا،کینیا، ترکی جزائر، آسٹریلیا، برصغیر پراور پرتگالیوں کا انگولا
، برازیل اور برصغیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ تھا-یعنی دولت کی حوس اور
تقسیمِ انسانیت کی سازش میں مغربی ممالک کی نوآبادیاتی یلغار جاری تھی اور
محکوم اقوام دفاع کیلئے کمر بستہ تھیں کچھ اسی قسم کی صورتحال کااس وقت بھی
مسلم امہ کوسامناہے-عالمی استعمارافغانستان ،عراق ،شام ،لیبیا،تنزانیہ
اوردیگرکئی ملکوں کوتباہ وبربادکرکے مسلمان ممالک کومزیدمحکوم بنانے کے
منصوبے پرعمل پیراہے استعماری طاقتوں کی اس یلغارکوروکنے کے لیے ہمیں ایک
عبدالقادرجیسے مدبررہنماء کی ضرورت ہے ۔
|