میڈیا :خوف ، لالچ ، بزدلی اور چاپلوسی کی آماجگاہ

’آج تک ‘ کی سرپرستی میں سوربھ دیویدی نام کا با صلاحیت اور بے باک صحافی للن ٹاپ نام کا سوشیل میڈیا چینل چلاتاہے۔ اس کا شمار مقبول ترین ویڈیو چینلس میں ہوتاہے ۔ للن ٹاپ کاسیریل نیتا نگری کافی مشہور ہے۔ اس پروگرام میں سوربھ ویویدی کے ساتھ راجدیپ سردیسائی تقریباً ایک گھنٹے تک سیاسی موضوعات پرگپ شپ کرتے ہیں۔ اس میں پانچ اہم خبروں کو گفتگو کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ دیگر مسائل بھی زیر بحث آجاتے ہیں۔گزشتہ ہفتہ کے پانچ موضوعات این سی آر پر مظاہرے، این پی آر کا نفاذ، بپن راوت کا بیان ، جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج اور دہلی کے ہونے والے انتخابات تھے ۔ اس سے پہلے کےکوئی موضوع زیرِ بحث آتا دیویدی نےبی جے پی آئی ٹی سیل کے ذمہ دار امیت مالویہ کے ذریعہ سردیسائی پر لگائے گئے الزام کا ذکر چھیڑ دیا۔ مالویہ نے اپنے ٹویٹ میں لکھا تھا ’’ راجدیپ کو داعش کا ترجمان بن جانا چاہیے‘‘ ۔ اس ٹویٹ میں اول تو راجدیپ کو بدنامِ زمانہ دہشت گرد تنظیم سے جوڑ کر ان کی شخصیت پر کیچڑ اچھالا گیا تھا لیکن اسی کے ساتھ شہریت قانون میں ترمیم کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو بھی بلاواسطہ داعش سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی کیونکہ راجدیپ سے ناراضگی کی وجہ اس تحریک کی حمایت تھی ۔

راجدیپ کے بجائے اگر کسی خوددار صحافی سےیہ سوال کیا جاتا تو وہ امیت مالویہ کے سامنے آئینہ رکھ کر اس کا منہ توڑ جواب دیتا۔ اس کے علاوہ عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ کرتا یا کم ازکم ایڈیٹرس گلڈ میں شکایت تو یقیناً درج کراتا لیکن راجدیپ سردیسائی تو معمولی احتجاج کی ہمت بھی نہیں جٹا سکا۔ انہوں نے کہا اس ملک میں سبھی کو اپنے خیالات پیش کرنے کی آزادی ہے۔ میں نے اپنی کتاب میں مالویہ کو بہت سراہا کیونکہ انہوں نے بی جے پی کے آئی ٹی سیل کو بڑی خوبی سے منظم کیا ہے ۔ واٹس ایپ کے سیکڑوں گروپ اور ٹرول کرنے والوں کی ایک بڑی فوج تیار کرکھی ہے۔ سردیسائی ان گالی گلوچ کرنے والے شتر بے مہار کی نقاب کشائی کرنے کے بجائے ستائش کرتے ہوئے کہا اس نے مودی کی کامیابی میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ سردیسائی یہ بھی بولے کہ ’’ میں تنازع میں پڑنا نہیں چاہتا بلکہ رابطہ رکھنا چاہتا ہوں ۔ میں نے ان کو نئے سال کی مبارکباد دے دی ہے اور اپنی کتاب بھی بھجوادوں گا جس میں انہیں سراہا گیا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ راجدیپ اپنی اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کیوں نہیں کیا؟ وہ امیت مالویہ سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں ؟ وہ ان سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ جس سنگھ پریوار کی تم چاکری کرتے ہو اس کے آگے داعش کی سفاکی بھی پانی بھرتی ہے۔ سنگھ ایسے درندوں کے بل پر چلتا جنہوں نے گجرات فساد کے دوران حاملہ عورت کے پیٹ میں پلنے والے بچے کو ترشول پر اٹھالیا جو بھرے جلسے میں قبروں سے عورتوں کو نکال کر ان کے ساتھ بدکاری کرنے کی دعوت دینے سے نہیں چوکتے ۔ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم نے کبھی ایسی گھناونی سفاکی کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

راجدیپ سردیسائی پر طاری خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سوربھ دیویدی یوپی کیڈر کے پولس کمشنر عبدالمنان کا یہ کارنامہ بیان کیاکہ انہوں نے ایک سڑک کو چوڑا کرنے کے لیے ان کے آبائی وطن میں ایک مندر اور مزار کو ہٹادیا تو اس کے جواب میں راجدیپ سردیسائی کہتے ہیں ایسے افسران پر اعتماد کیا جانا چاہیے، ان کو کام کی چھوٹ ملنی چاہیے اور ترقی بھی ہونی چاہیے ۔ اس کے بعد اتر پردیش میں ہونے والے تبادلوں پر تنقید کرتے ہوئے برسبیلِ تذکرہ ان کی زبان پر بھاونگر کے اس دلیر سابق پولس افسر کا ذکر آجاتا ہے جس نے اپنے سیاسی آقاوں کی مرضی کے خلاف فساد روکنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ راجدیپ سردیسائی نے اس پر بے نام افسر پر سرکاری عتاب کا ذکر تو کیا مگرسنجیو بھٹ کا نام اپنی زبان پر لانے کی جرأت نہ کرسکے ۔ اس کی وجہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ سنجیو بھٹ کا ذکر آتا تو اس کو جیل بھیجنے والے مودی کا بھی کا بھی نام لینا پڑتا ۔ وزیر اعظم کے خلاف ایک حرف بھی اپنی زبان پر لانے کی ہمت جس اندر نہ ہو وہ بیچارہ سنجیو بھٹ کا نام کیسے لے سکتا ہے؟
جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے بھی راجدیپ نے یہی کیا۔ انہوں نے کہا جھارکھنڈ میں مودی کی نہیں بلکہ رگھوبیر داس کی شکست ہوئی ہے۔ سوربھ دویدی نے جب پوچھا کہ پچھلی بار کی فتح کو مودی سے کیوں منسوب کیا گیا تھا تو راجدیپ نے کہا چونکہ وہاں پہلے بی جے پی سرکار نہیں تھی اس لیے اس کے خلاف ناراضگی نہیں تھی ۔ گجرات کے علاوہ کہیں بھی اپنی صوبائی سرکار کے خلاف ناراضگی پر قابو پانے میں بی جے پی کامیاب نہیں ہوئی ۔ یہ سراسر غلط بات ہے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں مودی کے بغیر بی جے پی دوبارہ انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور مودی کی قیادت میں ایسا نہیں ہوسکا اس لیے یہ شیوراج چوہان یا رمن سنگھ کی نہیں بلکہ مودی کی ناکامی ہے ۔ بہار میں بی جے پی کی سرکار نہیں تھی وہاں بھی مودی صوبائی انتخاب میں کامیاب نہیں ہوسکے اس لیے یہ کہنا کہ وہ صوبائی الیکشن میں مخالفین کو ہرا دیتے ہیں غلط ہے۔ راجدیپ نے مودی کی حمایت میں یہ کہا کہ قومی انتخاب کے اندر بی جے پی کو جھارکھنڈ میں ۵۱ فیصد ووٹ ملے تھے یہ بھی غلط ہے۔ اس وقت اے جے ایس یو ساتھ تھی ۔اس بار الگ ہو ۸ فیصد ووٹ لے کر الگ ہوگئی ممکن ہےپہلے اسے دس فیصد ملے ہوں اس لیے لوک سبھا چناو میں مودی جی صرف ۴۱ فیصد ووٹ جٹا پائے تھے ۔
راجدیپ سردیسائی نے مودی کو الگ کرکے مرکزی اور اتر پردیش کی حکومت پر خوب جم کر تنقید کی۔ وزیرداخلہ امیت شاہ کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں نشانہ پرلیا مگر مودی جی کا نام آتے ہی لہجہ بدل جاتا تھا۔ اس لیے اب جی چاہتا ہے کہ راجدیپ سردیسائی کا نام بھی مودی بھکتوں کی فہرست میں جلی حروف سے لکھ دیا جائے۔ راہل گاندھی پر راجدیپ کی تنقید بہت دلچسپ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرٹھ جاتے ہوئے راہل اور پرینکا کو پولس نے روکا تو وہ واپس چلے آئے اگر اندرا گاندھی ہوتیں تو گرفتار ہوجاتیں ۔ وہ آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ ہر رہنما کو جیل جانا پڑتا ہے سوال یہ ہے کہ نریندر مودی کب جیل گئے ؟ ایمرجنسی میں وہ زیر زمین چلے گئے ۔ رام مندر کی تحریک میں ایودھیا جانے سے کنی کاٹ لی اس لیے مقدمہ نہیں بنا۔ ایکتا یاترا میں سرینگر کے اندر نظر نہیں آئے ۔ اس کے باوجود وزیر اعظم بن گئے ۔ اس لحاظ سے راہل گاندھی کو وزیر اعظم بننے کے لیے گجرات جیسا فساد کرانا پڑے گا۔ پروگرام کے دوران سوربھ کی زبان سے نکل گیا کہ جیل تو امیت شاہ بھی گئے تھے اس پر راجدیپ چوکناّ ہو گئے اس لیے کہ شاہ جی کسی عوامی تحریک کو چلاتے ہوئے جیل نہیں گئے تھے بلکہ ان پر جعلی انکاونٹر کرانے کا اور ہفتہ وصولی کا الزام تھا۔ سردیسائی نے بڑی صفائی سے صرفِ نظر کردیا۔

دہلی انتخاب کی بحث میں راجدیپ نے یہ تسلیم کیا کہ اس بار بی جے پی کے لیے مشکلات ہیں ۔ انہوں نے اروند کیجریوال کی اس لیےستائش کی کہ وہ اب مودی کے مقابلے کھڑے ہوکر ان پر تنقید کرنے کے بجائے عوام کے بنیادی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں ۔ بی جے پی نے چونکہ پچھلے پانچ سال میں دہلی کے اندر کوئی چہرہ پیش نہیں کیا اس لیےمودی کوکیجریوال کے مقابلہ پیش کرنااس کی مجبوری ہے ۔ سوال یہ ہے کہ مودی کے سیاسی افق پر نمودار ہونے کے بعد بی جے پی بے چہرہ کیوں ہوگئی ؟ مودی سے پہلے بی جے پی میں مرکزی اور صوبائی سطح پر کئی چہرے ہوا کرتےتھے لیکن مودی نے ان سب کو نگل لیا ۔ ’ ہر ہر مودی گھر گھر مودی ‘ کے چکر میں سنگھ پریوارکے اندر اب دن رات صرف اور صرف ’ نمو نمو‘ کا پاٹھ(ورد) ہوتا ہے ۔ ایک سوال یہ ہے کہ جب مودی اقتدار سے بے دخل ہوجائیں گے اس بے چہرہ کمل کا کیا حال ہوگا؟

دہلی پر بحث کے دوران راجدیپ خود اپنی ہی ایک دلیل بھول گئے ۔ جھارکھنڈ کے بارے میں انہوں نے کہا ۲۰۱۴؁ میں بی جے پی برسرِ اقتدار نہیں تھی اس لیے مودی نے بہ آسانی قلعہ فتح کرلیا اور ۲۰۱۹؁ میں رگھورداس کے سبب ہار گئے ۔ اب انہیں یہ بتانا ہوگا کہ دہلی میں تو ۲۰۱۵؁ میں بی جے پی کی سرکار نہیں تھی تو اس وقت مودی جی کو ۷۰ میں سے ۳ کی شرمناک شکست کا منہ کیوں دیکھنا پڑا نیز چونکہ فی الحال دہلی میں کیجریوال کی حکومت ہے مودی جی کو اسے اکھاڑ پھینکنے میں کیا دشواری ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ جب بھی جذباتی مسائل پر انتخاب لڑا جاتا ہے مودی انتخاب جیت جاتے ہیں جیسا کہ ۲۰۱۹؁ کے قومی انتخاب میں پلوامہ اور ائیر اسٹرائیک کو لے کر ہو امگر جب عوام کے بنیادی مسائل کی بات آتی ہے تومودی جی چاروں خانے چت ہوجاتے ہیں۔ راجدیپ جیسے لوگوں کے چھپانے کے باوجود یہ سچ بار بار سر چڑھ کر بولتا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450936 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.