دنیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے جبکہ ہم
تنزلی کی طرف گامز ن ہیں اور وہ بھی اس تیزی کے ساتھ کے ہمیں خود بھی احساس
نہیں کہ ہوکیا رہا ہے؟اپنی حالت سنوارنے کے لئے ہم جنہیں آسرا بنائے ہوئے
ہیں وہی ہماری جڑیں کاٹ رہیں ہے اور اب تو صورت حال اس قدر مخدوش ہوگئی ہے
کہ خود وزیراعظم دیگر دوستوں سے مدد کی درخواست کا اعتراف کرنے پر مجبور
ہیں۔گزشتہ ماہ کے اوائل میں جب لاہور میں تین پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ
ڈیوس کی رہائی کے فوراً بعد قبائلی جرگے پر جاسوس طیارے کے ذریعے موت
برسائی گئی تو ریمنڈ کے جاسوس ہونے کا شبہ یقین میں بدل گیا جبکہ ساتھ ہی
ساتھ یہ انکشاف بھی ہوا کہ پاکستان میں کم از کم تین سو پینتیس ریمنڈ ڈیوس
بدستور موجود ہیں ۔ متذکرہ ڈرون حملے کے بعدپہلے وزیر اعظم سید یوسف رضا
گیلانی اور پھر چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دوٹوک موقف اور
پھر پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کی خود واشنگٹن جاکر اپنی حکومت
کو پاکستانی تحفظات سے آگاہ کرنے کے اعلان اور پھر چند روز قبل ڈی جی آئی
ایس آئی جنرل شجاع پاشا کی امریکہ روانگی کے بعد بڑی حد تک یقین ہوچکا تھا
کہ سترہ مارچ کے بعد سے رکے ہوئے ڈرون حملے مستقل طور پر بند ہوجائیں گے
لیکن جنرل شجاع کی وطن واپسی کے ساتھ ہی انگور اڈہ میں امریکی حملے نے جہاں
تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے وہیں یہ بھی باور کروا دیا ہے کہ امریکہ
کے سامنے ہماری اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ڈرون
حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ یہ
حملے رکوانے کے لئے دوست ممالک سے مدد لی جارہی ہے اور امید ہے کہ حکومت اس
مقصد میں جلد کامیاب ہوجائے گی لیکن پہلی آرمی چیف اور پھر آئی ایس آئی کے
سربراہ کے مطالبات کے جواب میں امریکہ کی جانب سے روایتی ہٹ دھرمی کے
مظاہرے نے واضح کر دیا ہے کہ محض بات چیت یا پھر سفارتی ذرائع سے ڈرون حملے
رکوانا محض خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں اور اگر پاکستانی حکومت واقعی اس
سلسلہ میں سنجیدہ ہے تو پھر باتوں کے بجائے عملی اقدامات کرے۔تجزیہ نگاروں
کے مطابق امریکہ یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان کی حمایت اور مدد کے
بغیر وہ خطے خصوصاً افغانستان میں ایک ماہ بھی نہیں ٹک سکتا جبکہ وہاں
موجود اپنی فورسز کو سپلائی کے لئے بھی وہ ہمارا ہی مرہون منت ہے لیکن اس
کے باوجود وہ ہمارے صبر کو آزماتے ہوئے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل رہا
ہے جبکہ ہماری حکومت اس کو بھر پور جواب دینے کے بجائے محض بیانات پر اکتفا
کر رہی ہے اور یہی طرز عمل ان ڈرون حملوں میں حکومت کی مرضی شامل ہونے کے
شبہ کو بھی ہوا دے رہا ہے۔
امریکی سی آئی اے کے سربراہ لیون پینٹا سے بات چیت کے دوران جنرل شجاع پاشا
نے جہاں پاکستان بغیر اطلاع موجود 335سی آئی اے اہلکاروں کی فوری واپسی کا
مطالبہ کیا وہیں ملک میں سی آئی آپریشنز بھی محدود کرنے کا کہا لیکن
واشنگٹن نے ان مطالبات پر کان دھرنے کے بجائے انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا
جبکہ امریکہ میڈیا نے تو مذاکرات کو ناکام بھی قرار دے دیا، جنرل شجاع پاشا
کی وطن واپسی کے بعد ہونے والے حملے پر حکومت نے واجبی سے رد عمل کے مظاہرے
کے ساتھ ساتھ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کو مزید بات چیت کے لئے بیس اپریل
کو امریکہ بھجوانے کا اعلان کیا ہے ۔ سفارتی سطح کے روابط اور بات چیت اپنی
جگہ لیکن یہ منطق سمجھ میں نہیں آرہی کہ جب فوجی سطح پرمطالبات کا امریکہ
پر کوئی اثر نہیں ہوا تو سول روابط کون سی لنکا ڈھا لیں گے؟اس کا جواب
حکومت بخوبی جانتی ہے لیکن محض گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مترداف بے تکے
اقدامات کا عندیہ دے کر عوام کو بہلا جارہا ہے۔ پاکستان کو یہ زعم ہے کہ
ہماری مدد کے بغیر امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت
سکتے، بندہ پوچھے کہ وہ یہ جنگ جیتنا ہی کب چاہتے ہیں؟ وہ تو اس کو طول دے
کر خطے میں موجودگی کا جواز برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مفادات کی
خود نگرانی کر سکیں اور اسی مقصد کے لئے وہ ایسے ایسے اوچھے اقدامات بھی کر
رہے ہیں جو شدت پسندی کو ختم کرنے کے بجائے اس میں مزید اضافے کا سبب بن
رہے ہیں۔
ڈرون حملوں ہی کو لیجئے ، جنوبی وزیرستان اور اس کے ملحقہ علاقوں سے
سینکڑوں میل دور بیٹھ کر ہم ان کے متاثرین کے جذبات کا اندازہ نہیں کرسکتے
البتہ یہ ضرور ہے کہ جن لوگوں کے پیارے ان حملوں کی بھینٹ چڑھے ہیں ان کے
دکھوں کا مداوا کسی نے بھی نہیں کیا اوریہی بے حسی ملک میں آئے روز کے خود
کش حملوں کا بنیادی سبب ہے۔ سیانوں کی کہاوت ہے کہ جس کا گلا گھونٹا جائے
وہ آنکھیں ضرور دکھاتا ہے، جنوبی وزیرستان میں ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلنے
والوں کے ورثاء بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں جبکہ بارہا امریکی
ڈرونز کو مار گرانے کی اجازت دینے کے مطالبات بھی سامنے آچکے ہیں۔ یہ
مطالبات صرف عوامی حلقوں ہی تک محدود نہیں بلکہ پاک فوج بھی جاسوس طیاروں
کو مار گرانے کو حکومتی اجازت سے مشروط قرار دے چکی ہے تاہم حکومت اس سلسلہ
میں مکمل خاموش ہے اور اس کی یہی پر اسرار خاموشی بھی ڈرون حملوں کے حوالے
سے لگائے جانے والے الزاما ت کوبڑی حد تک درست ثابت کررہی ہے ۔
امریکی اور پاکستانی حکومت کے درمیا ن اس سلسلہ میں کیا معاہدہ ہے اور
حکومت اس معاملے پر عجیب و غریب طرز عمل کیوں اپنائے ہوئے ہے ؟ اس کو تو
سفارتی سیکرٹ قرار دے کر چھپایا جاسکتا ہے لیکن عوام کم از کم یہ جاننے میں
تو حق بجانب ہیں کہ اگر کوئی معاہدہ یا رضا مندی شامل ہے بھی تو پر انہیں
ڈھکوسلے کیوں دیئے جارہے ہیں۔ حکومت شاید اس معاملے کو بھی دیگر مسائل کی
طرح سیاسی بیانات ہی کی نذر کرنا چاہتے ہیں لیکن واضح رہا چاہیے کہ مسائل
کے حل اور آزادی کے تحفظ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے،مسائل کا سامنا تو
بہر حال کیا جاسکتا ہے لیکن اگر آزادی داؤ پر لگ جائے تو تخت و تاراج بھی
قائم نہیں رہتے۔غیروں سے ملی بھگت کر کے اقتدار کو محفوظ دیکھنے والے نہ
ماضی میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکے اور نہ آئندہ ہی تاریخ کا دھارا بدلنے
کی توقع ہے، گزارش ہے تو صرف اتنی کہ قوم کو بیوقوف بنانے کے بجائے حقائق
سے آگاہ کیا جائے اور اگر حکومتی دعوے کے مطابق اس کا ڈرون حملوں میں کوئی
ہاتھ نہیں تو پھر باتوں اور منتوں کے بجائے منہ توڑ جواب دیا جائے کہ لاتوں
کے بھوت کبھی بھی باتوں سے نہیں مانتے. |