جماعت اسلامی پر تنقیدی کالم: تضادات کا مجموعہ

یہ مضمون نہیں بلکہ ایک تبصرہ کہہ لیں ! لیکن چونکہ تبصرے میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی اس لئے مجبوراً اس کو مضمون کی شکل میں لکھنا پڑا۔ یہ تبصرہ ہم نے ہماری ویب پر ہی شائع ہونے والے ایک مضمون (نام نہاد جماعت اسلامی درحقیقت جماعتیوں کی تاریخ ، حقیقت اور پینترے) کا مطالعہ کرنے کے بعد کیا ہے۔ یہ مضمون دراصل بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کا مجوعہ ہے۔ اس کی بے بنیاد ہونے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صاحب مضمون کی تحریر میں کئی جگہ تضادات ہیں اور ان کی ایک بات ان کی دوسری بات کی نفی کرتی نظر آتی ہے۔

آپ مضمون کی تیسری لائن میں فرماتےہیں کہ (جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کو کافر اعظم کا خطاب دے ڈالا اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ظالموں نے پاکستان کے نام کی بے عزتی اور بے توقیری کرتے ہوئے پاکستان کو ناپاکستان پکارنا شروع کیا۔)

اب اگر صاحب مضمون یہاں حوالہ دیتے کہ کب ،کہاں ،کس نے قائد اعظم کو کافر آعظم قرار دیا؟ اور کس نے پاکستان کو ناپاکستان قرار دیا تو ان کی بات میں وزن ہوتا لیکن بے بنیاد باتوں کے لئے دلائل کی نہیں فقط دلی بغض اور نفرت کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ان کے مضمون سے ٹپک رہی ہے اس لئے انہوں نے کوئی حوالہ دینے کی کوشش نہیں کی۔ چلیں ٹھیک ہے حوالہ نہیں دیا لیکن اب اپنی ہی بات کی نفی تو نہ کرتے لیکن موصوف مضمون کے تیسرے پیراگراف میں رقم طراز ہیں کہ ( جماعتی اپنی ازلی منافقت کے سبب پہلے اپنے ہی تئیں کافر اعظم قرار دیے جانے والی شخصت کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں کمربستہ ہوگئے۔) یا اللہ یہ کیسے لوگ ہیں جو ایک سانس میں ایک بات کرتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے اس کی نفی کرتے ہیں ۔بندہ خدا اگر قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دیا تو ان کی ہمشیرہ کی حمایت کیوں کی؟ اس کا جواب موصوف کے پاس نہیں ہے ۔

اب آگے چلیں تو مزید تضادات نظر آتے ہیں۔ ایک طرف موصوف کہتے ہیں کہ ( محترمہ فاطمہ جناح جب جنرل ایوب خان کے منعقدہ صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے خلاف صدارتی امیدوار کی حیثیت سے میدان سیاست میں آئیں تو جماعتی اپنی ازلی منافقت کے سبب پہلے اپنے ہی تئیں کافر اعظم قرار دیے جانے والی شخصت کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں کمربستہ ہوگئے۔ ) اب ذرا سوچیں اور بتائیں کہ ایوب خان کون تھے؟ جواب ہے کہ ایوب خان ایک آمر تھے؟ صاحب مضمون کی اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی آمریت کی مخالف رہی ہے اور بلکہ کہنا چاہئے کہ اتنی مخالف کہ بقول صاحب مضمون کے کافر اعظم کی ہمشیرہ کی بھی حمایت میں کمر بستہ ہوگئے۔ واضح رہے کہ یہ ہمارے نہیں بلکہ صاحب مضمون کے الفاظ ہیں ۔ لیکن اگلے ہی پیراگراف میں اپنی اس بات کی بھی خود ہی نفی کردی اور فرمایا کہ ( خصوصاً آمریت میں چونکہ آمر عوامی نمائندوں سے دور ہوتا ہے اسلیے ایک جماعت تو ایسی ضرور رہی جو ہر ہر آمر کی حکومت میں اپنی اوقات سے زیادہ ہی حصہ حاصل کرتی رہی اور جب بھی دیکھا کہ آمر کی کرسی ڈوب رہی ہے یا ڈوب چکی ہے تو فوراً معصوم و جمہوریت پسند بن بیٹھتے رہے۔) بھائی آپ خود ہی بتا دیں کہ ان ساری باتوں میں سے آپ کی کونسی بات کو درست مانا جائے؟ کافر اعظم والی بات کو؟ آمریت کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کو ؟ یا آمریت کے حامی ہونے ہو؟

آگے جہاد افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے اس کے بارے میں سیدھی سی بات یہ ہے کل تک روس نے افغانستان میں مداخلت کی تھی اگر وہ غلط تھی تو امریکہ کی مداخلت کیسے درست ہوسکتی ہے؟ اگر کل روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں اتاریں تو اس کے خلاف جہاد کیا گیا تو آج امریکہ نے اگر اپنی فوجیں افغانستان میں اتاری ہیں تو اس کے خلاف جہاد کیوں نہیں ہوسکتا؟ بات صرف یہ ہے جماعت اسلامی یا جہادی تنظیموں نے امریکہ کی حمایت نہیں کی بلکہ امریکہ نے اپنے مفادات کے لئے جماعت اسلامی اور جہادی گروپس کی حمایت کی تھی۔ پالیسی امریکہ کی تبدیل ہوئی ہے جہادیوں یا جماعت اسلامی کی نہیں۔

اس کے بعد جب کوئی بات نہیں ملی تو ذاتیات پر اتر آئے اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے جناح کیپ پہننے اور داڑھی پر ہی اعتراض کر ڈالا ۔لیکن یہاں بھی انتہائی بھونڈے انداز میں فرمایا کہ (وضع قطع کے لحاظ سے جماعتی رہنماؤں کی یہ روایت بن چکی ہے کہ وہ اپنے سر کو جناح کیپ سے ڈھانپتے ہیں اب آپ بتائیے ایک ایسی جماعت جو قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کو کافر اعظم قرار دیتے تھے اب کئی دہائیاں گزرنے کے بعد یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ قائد اعظم کے زمانے کے لوگ تو چونکے اب کم ہی بچے ہیں اسلیے اپنی کافر اعظم والی باتوں کو محو کرنے کے لیے سر پر قائد اعظم کی مخصوص کیپ رکھتے ہیں تاکہ آنے والی نسل ان جماعتیوں کو پاکستان کے بزرگوار سمجھے ) بات یہ ہے اگر یہ انسان بولنے سے پہلے تول لیا کرے تو ایسی باتیں نہ ہوں کیوں کہ جہاں تک داڑھی کا تعلق ہے تو ابھی سے نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی سیکولر اور لادین طبقے نے علما کو بدنام کرنے کے ان کی داڑھیوں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے اور صاحب مضمون نے بھی داڑھی پر تنقید کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ان کا تعلق کس گروہ سے ہے۔ رہی بات جناح کیپ کی تو موصوف کو یہ پتہ ہی نہیں کہ جماعت اسلامی کے رہنما ابھی سے نہیں بلکہ ابتدا سے ہی جناح کیپ پہنتے چلے آرہے ہیں۔ مولانا مودوی بھی ابتدا سے ہی جناح کیپ پہنتے آرہے تھے اس لئے ان کا اعتراض ظاہر کرتا ہے ان کے اس مضمون کا مقصد اس فورم پر نفرت پھیلانا اور اپنے اندرونی بغض کا اظہار کرنا تھا۔

آخری پیراگراف میں آپ فرماتے ہیں کہ (جب موقع آیا مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی فکر و فلسفہ پر ایمان رکھتے ہوئے ایک آزاد قطعہ زمین پاک سرزمیں کے حق میں ووٹ دے ہی ڈالا۔) اس کے جواب میں ہم نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی بتا دیتے ہیں کہ 1948 ء میں صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے موقع پر مولانا مودودی نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ’’ استصواب رائے صرف اس امر سے متعلق ہے کہ تم کس ملک کے ساتھ وابستہ رہنا چاہتے ہو ،ہندوستان سے یا پاکستان سے ؟ اس معاملے میں رائے دینا بالکل جائز ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔لہٰذا جن جن علاقوں میں استصوابِ رائے کیا جارہا ہے وہاں کے ارکان جماعت اسلامی کو اس کی اجازت ہے کہ وہ اس میں رائے دیں۔۔۔البتہ شخصی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں خود صوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ ( سہہ روزہ کوثر مورخہ 5جولائی 1947 ء بحوالہ تحریک آزادی ہند اور مسلمان حصہ دوم صفحہ 88) ۔

البتہ بیرون ملک میں مقیم ایک تنظیم کے رہنما جو کہ گزشتہ انیس سالوں سے ملک سے باہر ہیں انہوں نے جب انڈیا کا دورہ کیا تھا تو وہاں انہوں نے قیام پاکستان اور نطریہ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ شائد صاحب مضمون کو اس کا ابھی تک پتہ نہیں چلا ورنہ وہ ان کی مخالفت میں بھی ایک کالم لکھ چکے ہوتے ۔ بیرون ملک مقیم ان رہنما کا تعلق اتفاق سے کراچی سے ہی ہے جہاں سے صاحب مضمون کا تعلق ہے ۔ ان کے اس بیان کی ویڈیو یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=wnKd7LWTOxU

دیکھیں موصوف اس پر کب کوئی کالم لکھتے ہیں۔ یہ تو زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے اور بے بنیاد بھی نہیں ہے اس کا تو ثبوت بھی موجود ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ صاحب مضمون کتنے محب وطن ہیں۔

صاحب مضمون اور ان کے حامیان کا حال یہ ہے کہ یہ آسمان پر تھوک رہے ہیں ویسے صاحب مضمون کا اندازِ تحریر پتہ نہیں کیوں مانوس مانوس سا لگ رہا ہے۔ خیر بات یہ ہے کہ اگر کوئی فرد اپنے دعوے کے حق میں کوئی دلیل یا ثبوت لائے تو اس کی بات میں وزن ہوتا ہے لیکن انہوں نے پورے مضمون میں سوائے لفاظی کرنے کے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ ان کے تمام الزمات کا جواب ہم اپنے مضامین میں دے چکے ہیں تحریک پاکستان میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کا کیا حصہ تھا ؟ قائد اعظم کو کافر اعظم کس نے قرار دیا تھا ؟ ان باتوں کے جواب کےلئے ہمارے مضمون (مولانا مودودی اور تحریک پاکستان ) کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جس کا لنک مندرجہ ذیل ہے۔
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=12123

ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پر جھوٹے الزمات لگائے گئے تھے اور جنہوں نے یہ الزام لگائے تھے انہوں نے بعد میں مولانا مودودی سے معافی بھی مانگی تھی۔ مولانا مودودی پر الزامات کی ابتدا کب اور کیوں کی گئی اس کا جواب مندرجہ ذیل آرٹیکل میں دیکھا جاسکتا ہے جس کا لنک مندرجہ ذیل ہے۔
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=11811

اس کے علاوہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے بارے میں مزید جاننے کے لئے اس مضمون کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جس کا لنک مندرجہ ذیل ہے۔
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=11517
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=11547
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1519955 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More