اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی)نے
1971کے بعد، گزشتہ 50 سال میں دوسری بار(چھ ماہ سے بھی کم عرصہ میں دوسری
بار) بدھ کے روز جموں و کشمیر پر بند کمرے میں ایک اجلاس منعقد کیا اور
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیا۔سلامتی کونسل کاپہلا مشاورتی اجلاس
16اگست 2019کو منعقد ہوا تھا۔ اس کے بعد 17دسمبر کو بھی ایک خصوصی اجلاس
طلب کیا گیا تھا ،مگر فرانس کی مخالفت کے بعد اجلاس ملتوی کردیاگیا، تا ہم
اسی دن اقوام متحدہ کے ترجمان نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش
کا اظہار کیا۔اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں اپنی روزانہ نیوز بریفنگ کے موقع
پر، ترجمان اسٹیفن ڈوجرک نے کہا، ''ہم مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے مکمل طور
پر آگاہ ہیں اور صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں''۔ توقع کی جارہی تھی کہ
سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران متنازعہ خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال
کریں گے ، لیکن فرانس کی مخالفت کے بعد اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔امریکہ ، روس،
چین، برطانیہ اور فرانس - پانچ مستقل ممبروں میں سے کسی کی تجویز سے صرف
اتفاق رائے سے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے۔ ایک صحافی نے
مسٹر ڈوجرک کو یاد دلایا کہ 5 اگست سے مقبوضہ علاقے میں لوگ کرفیو، لاک
ڈاؤن اور معلومات کے فقدان کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ وہ
اس صورتحال سے بخوبی واقف ہیں لیکن ان کے پاس کوئی نئی اطلاع نہیں ہے۔ ایک
فرانسیسی سفارتی ذرائع نے نیویارک میں بھارتی صحافیوں کو بتایا کہ ان کے
ملک نے مجوزہ اجلاس کی مخالفت کی ۔ ''ہماری پوزیشن بالکل واضح ہے۔ بھارت
اور پاکستان کے مابین مسئلہ کشمیر کا دو طرفہ رویہ اختیار کرنا ہے۔ ‘‘اس کے
بعد 24دسمبر کو بھی ایک اجلاس ہونے کی اطلاع ہے۔
سلامتی کونسل نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے غیر آئینی
اقدامات سے وہاں کی صورتِ حال اور قابض بھارتی فورسز کے ظلم و ستم
پر15جنوری کو اجلاس میں ایجنڈہ آئٹمز کے بعد ’’دیگر بزنس‘‘کے تحت جائزہ لیا۔
سلامتی کونسل کا اجلاس چین اور پاکستان کی درخواست پر منعقد ہوا۔بھارتی
لابی نے پروپگنڈہ کیا تھا کہ اس بار بھی فرانس کی مخالفت سے اجلاس منسوخ ہو
گا۔ تا ہم فرانس نے مخالفت نہ کی۔ سلامتی کونسل میں موثر لابنگ کے فقدان سے
سلامتی کونسل کے ممبران نے مسلہ کشمیر کو پاک بھارت کے مابین دوطرفہ مذکرات
سے حل کرنے کی بات کی۔ گزشتہ سال 5 اگست سے مقبوضہ کشمیر لاک ڈاون اور
پابندیوں کی زد میں ہے اورعوام کی انٹرنیٹ تک رسائی ختم کر دی گئی ہے۔ توقع
ظاہر کی گئی کہ کشمیر کی جنگ بندی لکیر کے آر پار تعینات اقوام متحدہ کے
ملٹری آبزرور گروپ یا یوا ین فوجی مبصرین سلامتی کونسل کے ممبران کو
پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر لائن پر تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال
سے آگاہ کریں گے۔سلامتی کونسل کے گزشتہ اجلاس میں بھی اہم بریفنگز ہوئیں۔
اجلاس میں 5مستقبل اور 10غیر مستقبل رکن ممالک کے مندوب شریک ہوئے۔گزشتہ
اجلاس میں اقوام متحدہ کے ملٹری ایڈوائزر جنرل کارلوس لوئٹے نے جموں کشمیر
صورتحال پر بریفنگ دی۔سیکیورٹی کونسل کے رکن ممالک کویو این کے اسسٹننٹ
سیکریٹری جنرل آسکر فرنانڈس ٹارنکو نے بھی بریف کیا۔سلامتی کونسل کے اجلاس
میں مقبوضہ وادی میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، سیز فائر لائن کی
صورتحال، یو این فوجی مبصرین کی سرگرمیوں پر بریفنگ دی گئی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف
ورزیوں کی نشاندہی کرنے کے لئے اقوام متحدہ کو ایک خط لکھا تھا۔انھوں نے
مکتوب میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی جماؤ اور میزائلوں کی تنصیب پر
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے اس معاملے پر بات کرنے کے لئے
ہنگامی اجلاس طلب کرنے کو کہا ۔سلامتی کونسل کو 12 دسمبر کو لکھے گئے خط
میں وزیر خارجہ نے کشیدگی میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔جب کہ چین کے
اقوام متحدہ میں مشن نے لکھا، ''صورتحال کی سنگینی اور مزید بڑھنے کے خطرے
کے پیش نظر چین پاکستان کی درخواست کی باتوثیق کرنا چاہے گا، اور کشمیر کی
صورتحال پر کونسل کی بریفنگ کی درخواست کرے گا۔'' وزیر خارجہ نے سلامتی
کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ پریشان کن پیشرفتوں کا
جائزہ لیں ،جو امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ (i)بھارت نے 3ہزار سے زیادہ
بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ، خواتین اور بچوں سمیت 300 سے زائد شہریوں
کو نشانہ بنایا، (ii) پانچ سیکٹرز میں سیز فائر لائن پر باڑ کو جزوی طور پر
ہٹایا، (iii) سیز فائر لائن پر برہموس میزائل، اینٹی ٹینک نصب کئے اور (iv)
اگست 2019 کے بعد سے گائیڈڈ اور سپر سانک میزائلوں کے کئی تجربات کئے۔
پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے کہا، '' موجودہ صورتحال ہمارے خطے میں امن و
سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔'' ''ہم اس حقیقت کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ کونسل اس
معاملے پر فعال طور پر قابو پا رہی ہے''۔ ''ہم توقع کرتے ہیں کہ یو این
فوجی مبصرین جلد از جلد جنگ بندی لائن پر موجود صورتحال کے بارے میں کونسل
کو تفصیلی بریفنگ فراہم کریں گے''۔انہوں نے نشاندہی کی کہ حال ہی میں
بھارتی وزارت داخلہ کے جاری کردہ نام نہاد ’سیاسی نقشے‘ کو اقوام متحدہ نے
قبول نہیں کیا ہے، جس میں جموں و کشمیر کو واضح طور پر متنازعہ علاقہ قرار
دیا گیا ہے۔''جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے جو گذشتہ سات
دہائیوں سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔''۔ ''جموں و کشمیر تنازعہ کا حل
اقوام متحدہ کے چارٹر اور متعلقہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر
اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق سلامتی کونسل کے لئے ایک اہم
کام ہے''۔اقوام متحدہ کی کونسل نے تنازعہ پر تمام فریقین سے اپیل کی کہ وہ
یکطرفہ کارروائی کرنے سے باز رہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، جو اس وقت
امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ کو ختم کرنے کے مشن پر ہیں، نے بدھ کی سہ
پہر کو نیویارک پہنچتے ہی واشنگٹن روانگی سے قبل اقوام متحدہ کے رہنماؤں سے
ملاقات کی۔ان کی پہلی ملاقات اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گٹیرس سے
ہوئی ، اس کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر، تیجانی محمدبندے، سے
ملاقات ہوئی۔اگرچہ سلامتی کونسل کا اجلاس بند دروازوں کے پیچھے ہوا، لیکن
چینی سفیر جانگ جون نے چیمبر کے باہرمیڈیا سے اس بات کی تصدیق کی کہ کونسل
نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیا ۔ ''جموں و کشمیر سے متعلق ہمارا
اجلاس ہوا۔ سلامتی کونسل نے سیکریٹریٹ سے صورتحال پر بریفنگ سنی‘‘۔سفیر نے
یاد دلایا کہ حال ہی میں مسٹر قریشی نے جموں و کشمیر کی صورتحال پر توجہ
دینے کے لئے سلامتی کونسل کو خط لکھے تھے۔چینی سفیر نے نشاندہی کی کہ ''انڈیا
اور پاکستان کا مسئلہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہمیشہ رہتا ہے، حال ہی میں
ہم نے بھی کچھ تناؤ دیکھا ہے‘‘۔''ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے۔ چین ،کشمیر
کوانڈیا اور پاکستان کے مابین ایک متنازعہ خطہ کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور
کھل کر اسلام آباد کے اس مطالبہ کی حمایت کرتا ہے کہ کشمیری عوام کو اپنے
مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے حق خودارادیت دیا جائے‘‘۔چین اور پاکستان نے
مطالبہ کیا تھا کہ یواین فوجی مبصرین سے بریفنگ لی جائے تا ہم کسی طرف سے
تصدیق نہیں ہوئی کہ آیا فوجی مبصرین نے سلامتی کونسل کو کوئی بریفنگ دی یا
نہیں۔ یو این فوجی مبصرین کے ایک چیف میجر جنرل جوزف بالی نے سرینگر میں
ایک ملاقات میں وضاحت کی تھی کہ مبصرین اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو
رپورٹ کرنے کا منڈیٹ رکھتے ہیں۔ جب کہ اقوام متحدہ کے دنیا میں دیگر فوجی
مشنز سلامتی کونسل کو رپورٹ کرتے ہیں۔ چین کے سفیر نے بھی اس کی وضاحت نہیں
کی کونسل نے ملٹری آبزرور گروپ کی رپورٹ پر تبادلہ خیال کیا، جیسا کہ توقع
کی گئی تھی، انہوں نے سلامتی کونسل کے سیکریٹریٹ کی طرف سے بریفنگ کا ذکر
کیا۔ جنگ بندی لائن پر بھارتی جارحیت کی وجہ سے متعدد شہری اور فوجی شہید
ہوچکے ہیں اور پاکستان نے پہلے ہی کونسل کو متنبہ کیا کہ ایسی خلاف ورزی
صورتحال کو مزید خراب کرسکتی ہے۔ کونسل نے فوجی مبصرین گروپ سے کشمیر کی
صورتحال پر رپورٹ پیش کرنے کو کہا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے رہنماؤں کے ساتھ اپنی
ملاقاتوں میں مسئلہ کشمیر کو اٹھایا، اس بات کا اعادہ کیا کہ کشیدگی خطے
میں ایک بڑے تنازعہ کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر بھی زور
دیا کہ وہ 72 سال پرانے اس تنازعہ کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔نئی
دہلی کے مقبوضہ کشمیر پر حالیہ اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی
خلاف ورزی ہیں۔بھارت نے صورتحال کو مزید خوفناک بنا دیا ہے، کیوں کہ بھارت
نے کشمیر کو ایک سنگین لاک ڈاؤن اور پابندیوں میں جھکڑ دیا ہے۔نیویارک کی
کشمیری برادری نے مقبوضہ ریاست کو بھارت کی طرف سے غیر قانونی طور دہلی کے
انتظام میں دینے اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی طرف توجہ مبذول
کروانے کے لئے 26 جنوری کو، جو ہندوستان کا یوم جمہوریہ ہے، اقوام متحدہ کی
عمارت کے باہر ایک بڑے احتجاج کا منصوبہ بنایا ہے۔8 اگست2019 کو اقوام
متحدہ کے سکریٹری جنرل نے ایک بیان میں اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا
اور کہا، ''اس خطے پر اقوام متحدہ کا مؤقف اقوام متحدہ کے منشور اور قابل
اطلاق سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت چلتا ہے۔کشمیر میں بھارتی
پابندیوں کی اطلاعات پر تشویش ہے، جو خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال کو
بڑھا سکتی ہے،تمام فریق ایسے اقدامات کرنے سے باز رہیں جوکشمیر کی حیثیت کو
متاثر کرسکتے ہیں‘‘۔
متنازعہ کشمیر میں بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کی نگرانی کرنے کے
لئے 1949 سے اقوام متحدہ کے امن فوج تعینات ہے۔مقبوضہ کشمیر میں اس وقت
بھارت سے آزادی اور یو این قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے لئے مسلح
جدوجہد چل رہی ہے۔ جس کا الزام بھارت ہمیشہ پاکستان پر عائد کرتا ہے۔ لیکن
پاکستان اس کی تردید کرتا ہے، اور تصدیق کرتا ہے کہ وہ عدم تشدد آزادی
پسندوں کو صرف اخلاقی، سفارتی اور سیاسی مدد فراہم کرتا ہے۔سلامتی کونسل نے
1948 میں اور 1950 کی دہائی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان خطے کے تنازعہ
پر متعدد قراردادیں منظور کیں، جس میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ کشمیر کے
مستقبل کا تعین کرنے کے لئے یو این کی نگرانی میں رائے شماری کی جانی
چاہئے۔ایک اور قرارداد میں دونوں فریقوں سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ
''کسی بھی طرح کے بیانات دینے یا کسی بھی ایسی حرکت کی اجازت دینے سے باز
رہیں جن سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔'' پاک بھارت کے درمیان تقریباً
150مرتبہ دو طرفہ مذاکرات ہوئے ۔ جو ہمیشہ ناکام ہو گئے۔ مسلہ حل نہ کیا جا
سکا۔ اس لئے سلامتی کونسل کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں یو این فوجی مبصرین بریفنگ دیں تو ہو سکتا ہے کہ
جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو سامنے لایا جا سکے اور بھارتی جارحیت سے ہزاروں
معصوم عوام کی ہلاکتوں کے بارے میں سلامتی کونسل آگاہ ہو سکے۔بھارت چاہتا
ہے کہ یو این فوجی مبصرین متنازعہ خطے سے واپس چلے جائیں۔مگر اقوام متحدہ
کے ملٹری آبزرور مشن (یو این ایم او جی آئی پی) کے لئے مالی اعانت کم کرنے
کی کوششوں کے باوجود، یو این جنرل اسمبلی نے امن مشن کے لئے ایک مکمل بجٹ
کی منظوری دی ۔مبصرین کے باقاعدہ بجٹ کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جاتی
ہے۔ یہ 43 فوجی مبصرین اور 73 بین الاقوامی سویلین اہلکاروں پر مشتمل
ہے۔بھارت مشن کا کردار ختم کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے تا ہم اس خطے میں
امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں اس کا کلیدی کردار ہے۔فوجی مبصرین کا
ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ جموں و کشمیر کو حل طلب تنازعہ کے طور پر اجاگر
کرنے کے لئے کام کرتے ہیں جو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پرہے۔جس کو حل کرنا
اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔گزشتہ ماہ 193 رکنی جنرل
اسمبلی کی پانچویں کمیٹی میں، جو معاشی اور مالی امور سے متعلق ہے، کے
مذاکرات کے دوران، پاکستان کے وفد نے UNMOGIP کے بجٹ کو کم سے کم کرنے کی
بھارتی کوششوں کو ناکام بنانے میں کامیابی حاصل کی،کمیٹی نے آخر کار اسمبلی
کو مشن کے لئے مکمل مالی وسائل برقرار رکھنے کی سفارش کی۔نیز، بھارت فوجی
مبصرین کے سرینگرہیڈ کوارٹر میں ایک ایسی نشست منسوخ کرنے میں ناکام رہا جو
گذشتہ دو سالوں سے خالی ہے۔بھارتی ویزا نہ ہونے کی وجہ سے اس نشست کے لئے
بھرتی میں تاخیر ہوئی۔
کشمیر پر سلامتی کونسل کا دوسرا اجلاس اہم پیش رفت ہے۔ تا ہم پاکستان کو
سلامتی کونسل خاص طور پر فرانس، امریکہ، روس اور برطانیہ سمیت دیگر غیر
مستقل ممبران کاسامنے یہ کیس موثر اور مدلل انداز مین پیش کرنے کی ضرورت ہے
کہ کشمیر دو طرفہ مسلہ نہیں ، ایک عالمی تنازعہ ہے۔ شملہ معاہدہ اور اعلان
لاہور کے تحت پاک بھارت کے درمیان بات چیت ناکام ہو چکی ہے۔ بھارت دباؤ ختم
ہونے پردنیا کے سامنے مسلہ کشمیر کو کبھی دو طرفہ اور کبھی اپنا اندرونی
مسلہ قرار دیتا ہے ۔ جب کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت سے فرار ہو جاتا ہے۔ اس
لئے سلامتی کونسل ہی اپنی قراردادوں کی روشنی میں مسلہ کشمیر کو حل کرانے
میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ دنیا پر یہ بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ مسلے
کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات نہ کئے گئے اور بھارت کے تاخیری حربوں کو قبول
کیا گیا تو اس سے جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ عالمی امن داؤ پر لگ سکتا ہے۔
کشمیر پر سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس یا دیگر بزنس کے تحت جائزہ لینے کا
فیصلہ پیش رفت ہے تا ہم اس کے بعد سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس کے انعقاد
کے لئے لابنگ کی جائے۔ بھارت کا گمراہ کن بیانیہ دنیا کے سامنے ان کے انداز
اور تلفظ میں پیش کیا جائے تومثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
|