بلدیاتی انتخابات کو حقیقی جمہوریت کے آئینے سے تشبیہ دِی
جاتی ہے، انتخاب کا بنیادی مقصد لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنا ہے۔
امن وامان کا قیام، تعلیم و تربیت کی سہولتیں، روزگار، سکونت اور ضروریاتِ
زندگی کی فراہمی، یہ تمام امور بلدیاتی نظام کی بنیاد ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کسی بھی ملک میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ایک یہ کہ ان
انتخابات سے عوام کے مقامی مسائل حل کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے، دوسرے نچلی
سطح سے سیاسی قیادت ابھرنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں، تیسرا اہم فائدہ یہ
ہوتا ہے کہ اختیارات کی مرکزیت ختم ہوجاتی ہے اور بلدیاتی ادارے بااختیار
اور مالی وسائل کے مالک ہوجاتے ہیں اور مقامی مسائل حل کرنے میں مالی وسائل
کے استعمال میں آزادی کی وجہ سے مقامی اور علاقائی مسائل حل کرنے میں آسانی
پیدا ہوجاتی ہے۔
چودہ سو برس پہلے مغرب بلدیاتی نظام سے واقف ہی نہ تھا۔ ہم نے تسخیر کائنات
کا سبق بھلا دیا اور علم و عمل کو چھوڑ کر طاؤس و رباب کو سینے لگایا تو سب
کچھ رکھتے ہوئے مفلس اور بے نوا ہوگئے اور جو جہالت کے گم کردہ راہی تھے
ہماری کتابیں پڑھ کر سنبھلے اور نشاۃ ثانیہ کا اہتمام کیا اور وہ آج ستاروں
پر کمند ڈال رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی، فرق صرف عمل کا ہے۔
قرآن حکیم نے ہمیں بار بار بتایا ہے کہ ہم ابن ِ آدم کی اولاد ہیں اور زمین
پر اللہ کریم کا کنبہ ہیں۔دُنیا اور دُنیا کی ہر شے ہمارے لیے مسخر کی گئی
ہے۔ اسلام نے جہاں سیاسی، معاشی اور عمرانی معاملات و مسائل میں رہنمائی کی،
وہیں اس دین فطرت نے انسانی معاشرے کے قیام و بقا کے اصول بھی بتائے۔
انسان فطرتاً مل جل کر رہنا چاہتا ہے، مل جل کر رہنے سے جو مسائل پیدا ہوتے
ہیں، ان کو حل کرنے کے طریقے بتائے کہ صاف اور سیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم
رحمن کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، مسائل خودبخود حل ہوتے جائیں گے۔ مل جل
کر رہنے سے معاشرہ بڑھتا ہے۔ معاشرہ بڑھنے لگے اور بستیاں پھیلنے لگیں تو
مسائل بے حد بڑھ جاتے ہیں۔ انسانی فطرت کے اس معاملے کو پیش نظر رکھ کر
بلدیاتی نظام کے بارے میں اللہ کے پیارے حبیب ﷺنے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی
کہ ”اپنے شہروں کو بہت پھیلنے نہ دینا“۔
علامہ اقبالؒ یورپ سے واپسی پر کچھ دن اٹلی میں ٹھہرے، مسولینی سے ملاقات
کی تو اسے شہروں کی حدود کے بارے میں رسول پاک ﷺ کا یہ فرمان عالیشان سنایا
تو وہ اش اش کر اٹھا۔
کیونکہ شہروں کی حدود کے بڑھ جانے سے بے پناہ مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن میں
مہنگائی بڑھ جانا، امن و امان متاثر ہونا، اور پھر جرائم میں اضافہ ہو جاتا
ہے، گندگی بڑھ جاتی ہے، ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، اخلاقی گراوٹ
بڑھنے لگتی ہے، کھانے پینے کی اشیا ء میں ملاوٹ شروع ہوجاتی ہے، بے روزگاری
عام ہوجاتی ہے۔ غرض یہ کہ شہروں کی حدود بڑھنے سے مسائل ہی مسائل پیدا ہوتے
ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔شہروں کی
ترقی ہی ملکوں کی ترقی کی بنیاد ہے۔بلدیاتی اداروں کو کسی بھی ملک میں کی
ابتدائی سیاسی نرسریاں کہا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں انہی اداروں نے کئی بڑی
سیاسی شخصیات کو جنم دیا جنہوں نے آگے چل کر ملک کی قیادت کی باگ دوڑ
سنبھالی۔ ہمارے ہاں بھی کئی شخصیات نے بلدیات کی نرسری سے پرورش پائی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں 1688ء میں پہلی بار بلدیاتی اداروں کا
تصور متعارف کرایا تھا، پہلی میونسپل کمیٹی مدارس میں بنوائی تھی۔بلدیاتی
اداروں کو بنیاد سمجھا جاتا ہے اگر دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالیں
تو وہاں ہمیں بلدیاتی ادارے ناصرف مستحکم دکھائی دیں گے بلکہ ان میں کام
کرنے والے لوگ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ جذبہ حب الوطنی سے بھی سرشار
ہوتے ہیں، وہ لوگ کام کو عبادت کی کرتے ہیں اور عبادت میں یکسوئی ہی ان کی
کامیابی کا راز ہے۔1985 ء میں برطانوی حکومت نے برصغیر پاک و ہند میں
میونسپل کارپوریشن کے نظام کا آغاز کیا جس کے کل 27 ممبران تھے جن میں 26
ممبران میونسپل کمیشنر اور 27 واں میئر کہلایا۔
جس کی واضح مثال سال 2019ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ، عوامی جمہوریہ
چین،جاپان،جرمنی،برطانیہ،بھارت،فرانس،اٹلی،برازیل اور کینیڈا کا ترقی میں
دُنیا بھر کے ممالک میں پہلے دس ممالک میں آنے کی ایک وجہ ان ممالک کا اپنے
ملکوں میں مسلسل جمہوری اداروں اور بلدیاتی نظام کو بھی مستحکم، فعال اور
بااختیار بنائے رکھنا ہے۔ ان مُہذب معاشروں میں اس حد تک مقامی حکومتوں کو
اختیارات دئیے گئے ہیں کہ انفرااسٹرکچر، تعلیم، پولیس اور صحتِ عامہ بھی
مئیر کے اختیار میں ہوتے ہیں۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان میں بلدیاتی نظام 1912 ء کے
قوانین کا تسلسل ہے، قیام پاکستان کے وقت کیونکہ مملکت خدا داد کا ابتدائی
ڈھانچہ برطانوی ایکٹ 1935 کے تحت ہی رکھا گیا اور وقتی طور پر اس کے تحت
نظام چلایا گیا تو 1959 میں پاکستان میں پہلی بار سیاسی مصلحتوں اور ضرورت
کے تحت صدر ایوب خان نے نئے طرز کا نظام رائج کیا جسے 1962 کے آئین کے باب
دوئم کے آرٹیکل 158 کے تحت الیکٹرول کالج میں تبدیل کر دیا گیا تاہم
پاکستان میں یہ ادارے مخصوص شکل میں 1964 ئمیں متعارف کرائے گئے اور
بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی کاموں میں شرکت کے مواقع مہیا کرنے کے علاوہ کچھ
عدالتی اختیارات بھی تجویز کیئے گئے۔
1972 ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیا بلدیاتی قانون پیپلز گورنمنٹ آرڈینس
جاری کیا۔جنرل ضیاء الحق نے1979ء میں پاکستان میں مقامی حکومتوں کا آرڈینس
جاری کر کے انتخابات کروائے۔
1969 ء میں انکی حکومت کے اختتام کیساتھ ہی ان کا یہ نظام بھی رخصت ہوا۔
دوسری بار جنرل ضیاء الحق نے لوکل گورنمنٹ سسٹم 1979ء میں نافذ کیا۔جس کے
مطابق شہری اور دیہی دو طرح کے ادارے معرض وجودمیں آئے جن میں ٹاؤن
کمیٹی،میونسپل کمیٹی،میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن آبادی
کے تناسب سے شہری سطح پر جبکہ یونین کونسل،تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے
ادارے دیہی علاقوں میں قائم ہوئے۔
اس کے بعد 1998 ء میں بھی بلدیاتی انتخابات کروائے گئے مگر بلدیاتی نظام کا
جو سب سے کامیاب دور گزرا وہ 2001 سے 2005 میں یہ نظام مضبوط بنیادوں پر نا
صرف استوار کیا بلکہ ناظمین کو مفاد عامہ اور انتظامی امور کے میدان میں لا
محدود اختیارات سونپے گئے اور ناظمین کو بے شمار فنڈز بھی جاری کئے گئے۔
بلدیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام براہ راست منسلک ہوتے ہیں عوام
اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کرتے ہیں اور انہیں نہ صرف وہ عرصہ دراز سے
جانتے ہیں بلکہ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں جبکہ قومی و صوبائی نمائندے محض
انتخابات کے دِنوں میں ہی عوام میں نظر آتے ہیں وہ نہ تو علاقے کے مسائل کو
جانتے ہیں اور نہ ہی عوام سے شناسائی رکھتے ہیں۔ عوام اپنے نمائندے اہل
علاقہ سے منتخب کرتے ہیں ملکی سطح پر چھوٹے چھوٹے وارڈ / یونٹ میں الیکشن
کروائے جاتے ہیں اور وہی اُمیدوار کامیاب ہوتے ہیں جنہیں عوام براہ راست
چنتے ہیں۔
بلدیاتی نظام میں نمائندوں کا اپنے علاقہ سے منتخب ہونے کی وجہ سے وہ نہ
صرف چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ اس نظام کی ایک اور اہم
خوبی خواتین کی انتخابات میں شمولیت ہے اہلِ علاقہ سے ہونے کی بناء پر وہ
ان خواتین اُمیدواروں کا چناؤ کر سکتی ہیں جن پر وہ نہ صرف بھروسہ کرتی ہیں
بلکہ اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ان کے مسائل کو اُجاگر کرنے اور حل کرنے کی
بھر پور سعی کریں گی۔
اگر ہر علاقے میں بلدیاتی ادارے ہوں، عوامی نمائندے عوام کی نمائندگی کریں،
تو ایسا ہرگز نہ ہو۔ جس صورتِ حال کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت کا کلچر
بھی پروان چڑھتا ہے، کیونکہ جب لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کا کوئی راستہ
نظر نہیں آتا تو وہ سڑکوں پر آ جاتے ہیں اور اپنا غم و غصہ سرکاری املاک پر
نکالتے ہیں ہونا تو یہ چاہئے کہ عوام کو اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لئے
ذلیل و خوار نہ ہونا پڑے، ایک خود کار نظام کے تحت ان کے مسائل کو حل کیا
جاتا رہے، آزاد کشمیر میں بھی گزشتہ 29 سالوں میں بلدیاتی انتخاب نہیں ہو
سکے، جس کی وجہ سے دور افتادہ گا وں کے مسائل اس طرح سے ارباب ِاختیار تک
پہنچ نہیں سکتے، جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا
ہے۔
بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ صرف آئینی تقاضہ ہے بلکہ محرومیوں سے نجات
کیلئے بلدیاتی انتخابات میں تسلسل انتہائی ضروری ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے
انعقاد کیلئے نئی حلقہ بندی ضروری ہے اور حلقہ بندی مردم شماری کے بغیر
ممکن نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام صوبوں /آزاد کشمیر میں بر
وقت بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں،تاکہ عوام کے مسائل بلدیاتی سطح پر حل
ہو سکیں۔
موجودہ دَور حکومت میں ایک بارپھر بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے جارہے ہیں
اسلئے اُمید کی جاتی ہے کہ یہ نظام اپنی اَصل شکل میں رائج کیا جائیگا جس
سے نہ صرف ملکی سطح پر عوامی نمائندگی ہوسکے گی بلکہ عام لوگوں کی فلاح
وبہبود کیلئے بھی خاطر خواہ کام کیا جائے گا۔
|