میرے ایک دوست میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے کہا، برادرم ،
آپ کو پتہ ہے کہ عمران خان کو لوگوں نے تبدیلی کی ایک عظیم علامت سمجھ کر
ووٹ دئیے تھے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کیا تبدیلی آئی۔ کہنے لگے عظیم تبدیلیاں
آئی ہیں کوئی ایک ہو تو کہوں ۔ ہر روز جہاں جاؤ کسی نہ کسی تبدیلی کا سامنا
ہے۔ آج صبح میں نے پکانے کا تیل خریدا تو کمال تبدیلی دکھائی دی۔ جس دن
عمران خان حکمران بنے یہ تیل ایک سو ساٹھ (160) روپے کلو تھا۔ آج ڈیڑھ سال
بعد دو سو چالیس (240)روپے ملا ہے۔ میں تو سوچتا ہو کہ اگر تبدیلی کی یہی
رفتار رہی تو اگلے چند ماہ بعد ہم پنشن زدہ بوڑھے لوگ شکل ہی سے قحط زدہ
نظر آئیں گیکیونکہ پنشن میں اضافے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔مجھے ان کا
یہ نقطہ نظر کچھ اچھا نہیں لگا۔میں نے انہیں بتایا کہ وزیر اعظم کے مشیر
کہتے ہیں کہ لوگوں میں صبر ہی نہیں۔ جواب ملا، لا محدود وسائل کے مالک ایسا
ہی کہتے ہیں۔ قیادت کا قحط الرجال ہے لوگوں کو کوئی متبادل نظر نہیں آ رہا۔
لیکن کب تک ۔ لوگ تنگ آ کر سڑکوں کا رخ کرنے والے ہیں۔ ورنہ سارا صبر اب تک
سڑکوں پر امڈ آتا۔ میرے جیسے سارے سفید پوش لوگ معیشت کے علاوہ سوچتے ہی
نہیں۔ان کا مسئلہ ہی مہنگائی ہے ۔یتیم خانے اور لنگر تو تبدیلی کے مظہر
نہیں ہوتے۔ حکمرانوں کی بتائی ہوئی اس ملک میں ہونے والی عظیم تبدیلیوں پر
معاشی حالات کے مارے لوگ نظر ڈالتے ہی نہیں۔ میں نے دوبارہ سمجھایا کہ
ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ، وزیر اعظم بتا چکے ہیں کہ سکوں چائیے تو اس کے
لئے بہترین جگہ قبرستان ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ کو جلدی ہے تو خود کشی کر
لیں یا پھر حالات کے ہاتھوں مرنے کے لئے اپنی موت کا انتظار کریں۔ یہ عظیم
نسخہ کتنی زبردست اور شاندار تبدیلی ہے کہ جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔
فوج اس ملک کا ایک عظیم ادارہ ہے۔ جس کا نظم اور عزم ہمیشہ مثالی رہا ہے۔
فوج اپنے فیصلے خود کرتی رہی ہے اور کبھی کسی کی محتاج نہیں رہی۔ فوج اپنا
سربراہ بھی خود منتخب کرتی رہی ہے۔ جس طرح ہر نالائق اور سست کو گلا ہوتا
ہے کہ ایک متحرک اور زیرک شخص اس کو ہاتھ دکھا دیتا ہے اسی طرح ہمارے کمزور
سیاستدانوں کو ہمیشہ گلا رہا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔یہ پہلا
موقع ہے کہ سیاست نے فوجی نظم کو مات دے دی ہے۔ اس دفعہ فوج کے سربراہ کا
انتخاب خالص سیاسی بنیادوں پر ہونے کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے ۔جناب باجوہ کو
اب پارلیمان نے منتخب کیا ہے۔اس لئے وہ پاکستان کے پہلے جمہوری آرمی چیف
ہیں۔ کتنی بڑی تبدیلی ہے۔کون انکار کر سکتا ہے۔پہلے فوجی سیاست میں مداخلت
کرتے تھے اب سیاست نے فوج کا رخ کر لیا ہے۔ویسے میرا ایمان ہے کہ جب آپ کسی
شخص کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ شخص تو یقیناً مضبوط ہو جاتا ہے
مگر ادارے کمزور ہوجاتے ہیں۔ بہر حال فیصلہ کرنے والوں کا فیصلہ ہے میں تو
اتنا جانتا ہوں کہ فوج مضبوط ہے تو قوم مضبوط ہے کیونکہ مضبوط فوج ہی کسی
ملک کی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے۔
ایک استاد کی حیثیت سے میری نظر تعلیمی اداروں پر ہمیشہ ہوتی ہے میں محسوس
کرتا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں بھی عظیم تبدیلیاں آئی ہیں، ایسی تبدیلیاں جو
صرف تحریک انصاف کے ہونہا روں کے علاوہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔راولپنڈی
میں ایک خواتین یونیورسٹی ہے۔ وہاں بہت سی نامور خواتین وائس چانسلر رہی
ہیں۔خواتین تعلیمی اداروں میں خواتین کے تھوڑے الگ مسائل ہوتے ہیں۔ خواتین
لمبی چھٹیاں لیتی ہیں ۔ اتنی لمبی کہ پورا سیمسٹر ان کی صورت نظر نہیں آتی۔
خصوصاً بچے کی پیدائش کے دنوں میں چار چھ ماہ کی چھٹی تو عام سی بات ہے۔
تحریک انصاف کے ارسطو ہر چیز کا حل ڈھونڈھ لیتے ہیں سوائے معیشت کے۔ معیشت
ان کا سر درد نہیں ۔ سب کے پاس کھلی دولت ہے ، معیشت کا وہ سوچیں جنہیں
معاشی مسائل کا سامنا ہے۔عورتوں کی لمبی چھٹیوں کے سد باب کے لئے حکومت نے
عام پی ایچ ڈی کی بجائے ایک میڈیکل ڈاکٹر کو وائس چانسلرتعینات کر دیا ہے۔
مجھے امید ہے کہ وائس چانسلر صاحبہ اپنے کمرے میں تین چار بستر لگا لیں گی
۔ یہ بستر زچہ بچہ کی خدمت کی علامت ہوں گے۔ اب چھٹی بند۔ اب وہیں پر علاج
، آبادی میں اضافہ بھی ہو گا ا ور کلاسوں کا حرج بھی نہیں ہو گا۔ایسی
تبدیلی صرف تحریک انصاف کا ہی وصف ہو سکتا ہے کسی دوسرے کا نہیں۔
کچھ یونیورسٹیاں مخصوص علوم کے لئے ہوتی ہیں اور وہاں تعیناتی انہی مضامین
سے وابستہ لوگوں کی ہوتی ہے۔ میڈیکل کی تعلیم کے لئے انجینئر یا ریاضی دان
نہیں لگایا جا سکتا۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے لئے ڈاکٹر کی تعیناتی نہیں
ہوتی۔ مگر تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔لاہور میں ایک ایجوکیشن یونیورسٹی
ہے ۔ اس یونیورسٹی کا مقصد ایجوکیشن کے مضمون کا فروغ ہے تاکہ ملک کے لئے
بہتر اساتذہ تیار کئے جائیں۔ اس یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ پر پہلا حق
ایجوکیشن کے کسی پی ایچ ڈی کا ہے مگر ایجوکیشن والوں کو نظر انداز کرکے کسی
عام مضمون والے کو وہاں تعینات کر دیا جاتا ہے جو کسی حد تک غنیمت تھا۔ مگر
اس حکومت نے ایک نئی سوچ کو پروان چڑھایا ہے کہ وہاں ایک وٹرنڑی ڈاکٹر کو
وائس چانسلر لگا دیا ہے ۔ وٹرنڑی ڈاکٹروں کا کمال ہوتا ہے کہ وہ کسی جانور
جیسے گائے بھینس یا مرغی کی دو مختلف نسلوں کے ملاپ سے ایک ہائی برڈ نسل
تیار کر لیتے ہیں۔ ہائی برڈ گائے عام گائے سے زیادہ صحت مند اور بہتر گوشت
والی ہوتی ہے، دودھ بھی زیادہ دیتی ہے۔ ہائی برڈ مرغی میں گوشت بھی زیادہ
ہوتا اور انڈے بھی زیادہ دیتی ہے۔ امید ہے وٹرنڑی ڈاکٹر کے وائس چانسلر
تعینات ہونے کے بعد ایجو کیشن یونیورسٹی ہائی برڈ ٹیچر کی ایک نئی نسل تیار
کرے گی جو بہتر استاد بھی ہوں گے اور بہتر مرغ باز بھی کہ ہمارے محبوب وزیر
اعظم کے مشن مرغ بازی کو فروغ حاصل ہو۔ میری دعا ہے کہ اس حکومت کو ایسے
سقراط، افلاطون اور ارسطو میسر آتے رہیں تا کہ لوگوں کوتبدیلی محسوس ہی
نہیں کھٹکتی نظر آئے۔
|