ہم اچھے الفاظ اچھی طرزفکر کی بدولت دنیا پر بلاشبہ گہرے
نقوش چھوڑتے آئے ہیں اس حقیقت اور تاریخ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ
ہم اب اس تہذیب کے دائرے سے باہر آتے جارہے ہیں بزرگوں سے یہ سنتے آرہے ہیں
کہ تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی تربیتی
اور فکری نشست ختم ہونے سے ایک فائدہ تو ہوا کہ اب ہم بے لگام ۔بے تکا۔ویژن
سے عاری انداز کی چیخ وپکار کرسکتے ہیں اب دلیل اور دلائل کی پریشانیوں سے
آزاد بلکہ مادر پدر آزاد ہم چار پیسے بنانے کے لیئے ذور ذورسے الٹا سیدھا
بول سکتے ہیں بیٹھانے والے بھی ماشاء اﷲ اور بیٹھنے والے بھی سبحان اﷲ
دونوں طرف کی کیا بات کریں دونوں ہی آزاد کہتے ہیں خود کو لیکن ان دیکھی
قید سب کو نظر آرہی ہوتی ہے بے بسی کی انتہا اپنے عروج پرہوتی ہے راقم
الحروف سے پوچھا گیا کہ صحافت آزاد ہوتی ہے یا نہیں ؟ میں نے جواب دیا
بالکل صحافت آزاد ہوتی ہے لیکن صحافی ـ(قید) ہوتاہے پاکستانی سیاست میں
اخلاقیات کا شدید فقدان اب کوئی نئی بات نہیں رہی ہے عجب سیاست کے بدنما
رنگ پاکستانی سیاست میں نہ ہو ایسا ممکن نہیں ہے اس بازارسیاست جس انداز
میں اخلاقیات کی کو کم قیمت فروخت کیا جارہا ہے وہ ہماری سیاست کے لیئے
لمحہ فکریہ ہے نئی نسل کے مستقبل کو پہلے ہی درست سمت پتا نہیں چل رہی ہے
اور پھر ٹاک شو میں سیاسی جماعتوں کے رہنما اس کی طرح حرکتیں کریں گے تو
پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کے فقدان کے ساتھ جوتا چھپائی نہیں جوتا
دکھائی دے گا تحریک انصاف کے رہنما فیصل واڈانے ایسی کونسی حرکت کردی جس پر
اتنا بھاؤ کھایا جارہا ہے ٹاک شو میں جوتا دکھانے پر غصے میں بالکل نہیں
آنا چاہیئے جب ہم مہنگائی پر خاموش ہیں بیروزگاری پرخاموش ہیں لوڈشیڈنگ
پرخاموش ہیں تو پھر جوتا چھپائی نہیں جوتا دکھائی دے گا ،جب ٹماٹر 200روپ
کلو فروخت ہو گا آٹا 60روپے کا دس کلو ،ہوگا تو پھر جوتا چھپائی نہیں جوتا
دکھائی دے گا فیصل واڈا نے ایسا کیا کردیا جس پر تنقید کی جارہی پاکستان
میں حقیقی تبدیلی ہربار مصنوعی تبدیلیوں کے ساتھ مختلف اشکال میں آتی رہی
اور قوم یہ سمجھتی رہی کہ یہ جانے والی تبدیلی کے بعد آنے والی نئی تبدیلی
شاید اب حقیقی اور استحکامی ہوگی ٹکروں میں بٹی منقسم قوم مختلف سیاسی
خانقاہوں فیض مصنوعی حاصل کرتی رہی جس میں سے اشرافیہ پر مشتمل قوم بنیادی
حقوق سے محروم قوم کو احساس محرومی میں مبتلا کرتی رہی سونے پہ سہاگہ اس
قوم میں سب سے پہلے جو چیز ختم ہوئی وہ حق اور بھیک میں تمیز تھی اس پر بھی
اگر کچھ ہے تو جوتا چھپائی نہیں جوتا دکھائی ہے دور قدیم سے دور جدید تک یہ
سنتے آئے کہ ایک بہترین ریاست وہ ہوتی ہے جو اپنی عوام کوبنیادی حقوق انکے
صبرختم ہونے سے پہلے دیتی ہے لیکن کئی برس یہ دیکھنا نصیب نہ ہوا قوم میں
حق لینے اور بھیک کا یہ فرق ختم ہونے سے یہ شعور ختم ہوا کہ اپنے بنیادی
حقوق کے لیئے ہم دست سوالی بنکر کھبی اس در پر اور کھبی کسی در پر جاتے رہے
ہمارے تمام ارباب اختیار ہر لمحے گزرتے اپنی نسلوں کی بقا کو محفوظ مالی
مقامات پر لے جاتے رہے اور یہ قوم غربت وافلاس قرضوں میں ڈوبی ہوئی اس
اشرافیہ کو مضبوط کرتی رہی جو قوم کو آئی ایم ایف ،چین ،سعودی عرب، امریکہ
کے پاس گروی رکھواتے رہے اور پھر یہ المیہ کہ جوتا چھپائی نہیں جوتا دکھائی
ہی ہے قوم کی فلاح وبہود پر بات کرنے والے قوم کے ٹیکس پر خود کو اور اپنے
اہل خانہ کو پالتے رہے اور قوم بنیادی سہولیات کو ترستی رہی اشرافیہ اور
سطع غربت کے نیچے حضرات سب کے الگ الگ نظریات ہیں دونوں کے نظریات میں
یکساں تالا بندی ہے لیکن یہاں کسی ایک کو کچھ سہولیات ہیں تو دوسرے کو
احساس محرومی میں مبتلا رکھنا ضروری ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں
سیاسی نظریات کو کسی کے تابع رکھنا ضروری ہوتا ہے یا تو تابع رکھو یا پھر
بھاری قیمت فروخت کردو اور نظریات برائے فروخت کا کاروبار ہمارے ملک سے
بہتر کہیں نہیں ہوسکتا ہے پاکستان میں نظریات کی منظرکشی کی جائے تو مصنوعی
،جبر سے مزین ، خوشامدی نطریات آپکو ہر مارکیٹ میں فروخت ہوئے ملے گیاس پر
اگر آپکو یہ صلہ مل رہا ہے کہ بدلتے نظریات کی بدولت کچھ حاصل ہورہا لیکن
اس کے بعد تو آخر میں ایک ہی چیز جوتا چھپائی نہیں جوتا دکھائی ہے کہتے ہیں
کہ جس چیز کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہو وہ بتائی جاتی ہے لیکن شاید یہ
بات بتانے والے کو ہی نہیں پتا تھی خیر پاکستان میں اخلاقیات کا جنازہ کوئی
پہلی بار نہیں نکلا ہے جو صرف ہم کو جوتا چھپائی نہیں بلکہ جوتا دکھائی دے
رہا ہے
|