ھر سال حسب روایت موسم سرما میں قدرتی گیس کی قلت ایک
گمبھیر مسئلے کی صورت اختیار کرجاتی ہے ۔ موسم سرما کی سردی معیشت تک کو
منجمد کرجاتی ہے کیونکہ جہاں ایک عام صارف متاثر ہوتا ہے وہاں گھریلو
صارفین کو ترجیحی بنیادوں پر دی جانے والی گیس میں کمی صنعتوں کا پہیہ چلنے
سے روک دیتی ہے ۔
آخر گزرتے وقت کے ساتھ یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بگڑتا کیوں جارہا ہے
؟ عوام ان سوالات کے جوابات کے انتظار میں موسم سرما گزار دیتے ہیں مگر
حقائق سیاسی اختلافات کی بناء یہ نظرانداز ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں
کوشش کی گئی ہے کہ سیاسی مفاد سے بالاتر ہوکر حقائق کی بنیاد پر عوام کو
کچھ آگاہ کیا جائے ۔
سردیوں میں گیس کی کمی : پاکستان اس وقت توانائی کے بحران اور گیس کی کمی
کا شکار ہے ۔ یعنی قدرتی گیس کی رسد (سپلائی ) ملکی ضروریات پورا کرنے کے
لئے ناکافی ہے ۔ یہ مسئلہ سردیوں میں شدت اختیار کرجاتا ہے مثلاً بلوچستان
میں موسم گرما میں گیس کی ضرورت 110ایم ایم ایس سی ایف ڈی ہوتی ہے جو موسم
سرما میں تقریباً250ایم ایم ایس سی ایف ڈی تک پہنچ جاتی ہے ۔
صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے ایک اور وجہ گیس پائپ لائنوں سے لیک ہونے والی گیس
بھی ہے ۔ گیس کا ایک بڑا حجم صارفین تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے ۔
گیس کی کمی پورا کرنے کے لئے
سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز صارفین تک صرف بحفاظت
گیس پہنچانے کی ذمہ دار ہیں۔
ان کا گیس کی پیداوار سے کوئی تعلق نہیں۔ گیس بحران کی اصل ذمہ دا ر وہ
کمپنیاں ہیں جو قدرتی گیس کے ذخائر کی دریافت اور کھدائی کرتی ہیں۔ چونکہ
ان کمپنیوں کا گیس صارفین سے براہ راست واسطہ نہیں ہے اس لئے عوام الناس
اکثر گیس یوٹیلیٹی کمپنیوں (سوئی سدرن اور سوئی ناردرن) کو گیس کی پیداوار
میں کمی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ گیس کی کمی کی ایک بڑی وجہ موجودہ گیس
ذخائر سے ہونے والی پیداوار میں کمی بھی ہے کیونکہ یہ ذخائر تیزی سے اپنے
اختتام کو پہنچ رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نئے ذخائر کی دریافت بھی نہیں
ہوری ہے۔
گیس کمپنیوں نے گیس کے بل بڑھا دیے؟ گیس کی قیمتوں کا تعین گیس یوٹیلیٹی
کمپنیاں نہیں بلکہ اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی ) کرتی ہے ۔ جس
کے ارکان حکومت کی طرف سے مقرر کئے جاتے ہیں۔گیس کمپنیاں صرف مقرر شدہ
نرخوں پر ہی بل بھیجتی ہیں۔ زیادہ بل آنے کی ایک وجہ گیس سلیبس (Slabs)
ہیں۔
200یونٹ تک گیس کے استعمال کا بل ، 100یونٹ کے بل سے تقریباًتیس گنا زیادہ
ہوگا ، یعنی زیادہ گیس استعمال کرنے سے بل میں کئی گنا اضافہ ہوگا ۔
گیس نہ ہونے کی وجہ گیس کمپنیوں کی نااہلی اور کرپشن ہے ؟
قدرتی گیس کی ترسیل و تقسیم کے لئے بچھایا گیا سوئی سدرن کی پائپ لائنز کا
نیٹ ورک 24000کلو میٹر طویل ہے ۔ اتنا بڑا سسٹم دنیا کے بہت کم ممالک میں
ہے اور ایسے سسٹم کو چلانا اور بہترین حالت میں رکھناانتہائی مشکل ہے۔ اور
رہی بات نااہلی کی تو بیوروکریٹک نظام کی وجہ سے بہت سے اہم امور کا فیصلہ
بروقت نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے مسائل بہت بگڑ جاتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی
ہے کہ یوٹیلیٹی کمپنیوں کا نظام کو ازسرنو ترتیب دیا جائے اورفیصلوں میں
شفافیت کے ساتھ ساتھ تیزی بھی لائی جائے۔
گیس کے پریشر میں کمی کی وجہ ہمیشہ رہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ غیر اعلانیہ
بندش کیوں کی جاتی ھے ؟
اگرچہ سی این جی کی بندش کا اعلان باقاعدگی سے ہوتا رہتا ہے اور اس بندش کی
وجہ سے عوام کو آگاہ بھی کیا جاتا ہے مگر اکثر گھریلو صارفین کو مہیا کی
جانے والی گیس کی بندش سے نہ تو متاثرین کو بروقت آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ
ہی بندش یا مین پریشرمیں کمی کی وجہ سے عوام کو آگاہ کیا جاتا ہے، جس کی
وجہ سے افواہیں جنم لیتی ہیں یوٹیلیٹی کمپنیوں کے حکام کو چاہئے کہ ایسی
کسی بھی صورتحال میں نہ صرف الیکٹرونک میڈیا، اور پرنٹ میڈیا بلکہ متاثرہ
علاقے میں لاؤڈاسپیکر سے بھی گیس کی بندش کی مدت اور اس کی وجہ سے عوام کو
آگاہ کرتے رہیں کیونکہ خصوصاً کوئٹہ اور اس سے ملحقہ علاقہ جات میں سردیوں
میں قدرتی گیس زندگی کی بقا اوراسے رواں دواں رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔
گیس باقاعدگی سے آتی بھی نہیں اور بل آجاتا ہے۔ بل پر دی جانے والی میٹر
ریڈنگ حقیقی میٹر ریڈنگ سے مختلف ہوتی ہے۔ کئی علاقوں میں میٹر کی اسکرین
اتنی دھندلا گئی ہے کہ میٹر پڑھا ہی نہیں جاسکتا۔؟
گیس پر یشر میں کمی یا بندش کا جواب پہلے دیا جاچکا ہے ۔
گیس یوٹیلیٹی کمپنیوں نے بل کے پیچھے میٹر ریڈنگ کی تصویر دی ہوتی ہے اور
ساتھ ہی ساتھ میٹر ریڈرز کے پاس ریڈنگ کے اندراج کے لئے ایک خاص ڈیوائس بھی
ہوتی ہے ۔ اگر اس کے بعد بھی شکایت ہوتو صارفین کو فوراً قریبی کسٹمر آفس
سے رجوع کرنا چاہیئے۔ میٹر کے دھندلا جانے کی شکایت بجا ہے۔ گیس یوٹیلیٹی
کمپنیوں کے حکام کو اس مسئلہ کا پائیدار حل نکالنا چایئیے ۔
اب دور بدل چکا ہے ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹل میٹر لگائے جاتے ہیں جن کی
مدد سے ریڈنگ خود کار طریقہ سے ریکارڈ ہوتی رہتی ہے۔ اور اس سے حاصل ہونے
والا ڈیٹا گیس کے باکفایت استعمال میں بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔ ساحلی
علاقوں میں ہوا میں نمی کی شرح کافی زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے میٹر اور
پائپ زنگ آلود ہوکر شکست وریخت کا شکار ہوجاتے ہیں اور گیس لیک ہونے لگتی
ہے۔
یہ امر بھی گیس حکام کی توجہ کا متقاضی ہے۔
قدرتی گیس کی طلب یعنی ڈیمانڈ میں کمی یا زیادتی موسم سے منسلک ہے۔ گرمیوں
میں اس کی طلب 1400 ملین کیوبک فٹ یومیہ ہوتی ہے جبکہ قدرتی گیس کی رسد
یعنی سپلائی 1200 ملین کیوبک فٹ یومیہ ہوتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ موسم گرما
میں بھی گیس کی کمی رہتی ہے جس کی وجہ سے سی این جی اسٹیشنوں کو ایک ہفتہ
میں دو یا تین بار بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
موسم سرما میں یہ بحران مزید شدید ہوجاتا ہے جب گیس کی طلب 1600 ملین کیوبک
فٹ یومیہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس وجہ سے صنعتوں اور کیپٹیو پاور کو گیس کی
سپلائی کم کرنا پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ گھریلو اور کمرشل صارفین بھی گیس کے
کم پر یشر سے متاثر ہوتے ہیں۔
گیس سے متعلق سارے بحران کا اصل قصور وار وہ سوچ ہے جو وقتی مفاد کو ترجیح
دیتے ہوئے مستقبل کو نظر انداز کردیتی ہے ۔ حکومتیں بدلتی رہیں مگر کسی
حکومت نے اس مسئلے پر ٹھوس اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے یہ نوبت آگئی ہے
کہ اب ہم قدرتی گیس بھی امپورٹ کررہیں ہیں جس سے قیمتی زر مبادلہ کے ذخائر
میں بھی شدید کمی واقع ہورہی ہے ۔ اب الزام تراشی سے زیادہ بحران کے حل کی
ضرورت ہے۔ نہیں تو یہ مسئلہ ایک دفعہ پھر سیاسی مفادات کی نظر ہوجائے گا۔
|