آٹے کا بحران، ذمہ دار کون؟

تبدیلی کے نام پر آنے والی حکومت نے عوام کو کیا تبدیلی دی یہ ڈیڑھ برس میں ہی سب کچھ سامنے آ گیا، بلندو بانگ دعوے اور حقیقت میں کچھ اور، غریب عوام نئے پاکستان میں جینے کو ترس گئے،مہنگائی میں دو سو فیصد اضافہ ہوا جس سے مزدور طبقہ پریشان حال ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، اداروں سے مزدوروں کو فارغ کر دیا گیا، لوگ ڈگریاں لئے پھر رہے ہیں لیکن نوکریاں نہیں مل رہیں، وزراایسے بیانات دیتے ہیں جیسے سب کچھ واقعی پچھلی حکومتوں کا کیا ہوا ہو، اگر پچھلی حکومتوں کا قصور ہے تو فردو س عاشق اعوان، فواد چوھدری سمیت متعدد ایسے وزرا ہیں جو پچھلی حکومتوں کی کابینہ کا حصہ رہے ہیں یقینا اس میں ان کو خود کو مورد الزام ٹھہرانا چاہئے، کارکردگی بہتر کرنے کی بجائے صرف احتساب کے نعرے پر کام کرنے سے غریب عوام کو کچھ نہیں ملنے والا، عوام کو دو وقت کی روٹی کپڑا مکان چاہئے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اگر حکومت نے مدت پوری کی تو واقعی وزیراعظم کے بیان کی طرح قبر میں ہی سکون ملے گا۔

تحریک انصاف کی حکومت نے نئے سال کو معیشت کے لئے خوش آئند قرار دیا لیکن نئے سال کے آغاز سے ہی ایسے بحران کا سامنا کرنا پڑا کہ عوام سمیت اپوزیشن بلکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی سوالات اٹھا دیئے، ڈالر مہنگا، پٹرول مہنگا، گھی مہنگا، پیاز مہنگے، دوائیاں مہنگی،چینی مہنگی ،سب کچھ مہنگا ہونے کے بعد اب ایسا بحران آیا کہ غریب کا جینا محال ہو گیا، دو وقت کی روٹی کو پاکستانی ترسنے لگے، ملکی تاریخ میں پہلی بار آٹا 70 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ عوام حکومت کی جانب سے سستے آٹے کے اقدامات کے نتائج کے منتظر ہیں۔ایک ماہ پہلے چکی کا آٹا 4 روپے مہنگا ہو کر 64 روپے کلو ہوا اور اب چند روز میں مزید 6 روپے مہنگا کر دیا گیا۔ دیسی آٹا کھانے والے چکی مالکان کو من مانی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ روٹی کھائے بغیر بھی تو گزارہ نہیں ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ اب تو بے بسی کی انتہا ہو گئی، کوئی سننے والا ہے اور نہ ہی کوئی داد رسی کی امید ہے۔ چکی مالکان کا موقف ہے کہ اوپن مارکیٹ سے گندم 22 سو روپے من سے بھی مہنگی خرید رہے ہیں، سستا آٹا کیسے دیں؟ حکومت آٹا سستا کرانا چاہتی ہے تو 1500 روپے فی من گندم فراہم کر دے۔ دوسری طرف حکومتی اقدامات صرف اجلاسوں تک محدود ہی محدود ہیں۔

معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کے حکومتی دعوے ر یت کے دیوارثابت ہوئے ا ورپنجاب سمیت ملک بھرکے عوام کا ہردن آئی سی یومیں گزرہا ہے۔آٹے اورگندم جیسی بنیادی ضرورت کے بدترین بحران کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائدہوتی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی چیخیں نکال دیں،تحریک انصاف کے و زراء اورسینکڑوں ترجمان قوم کو روزانہ خوش خبری سناتے ہیں کہ معیشت مستحکم ہو گئی،2020 استحکام کا سال ہوگا۔لیکن 2020ء کے ایک ماہ نے ہی پسے ہوئے غریب عوام کی چیخیں نکال دیں۔ موجودہ حکومت میں مہنگائی کا جادوسرچڑھ کربول رہا ہے ا ورمہنگائی 7 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے حکومت کے اپنے ادارہ شماریات کے مطابق جنوری کے دوسرے ہفتے کے دوران مہنگائی میں اضافے کی اوسط شرح 20فیصد سے ز ائدرہی اور 30 ہزار روپے ماہانہ تک آمدنی والوں کے لیے قیمتوں میں اضافے کی شرح 22.5فیصد ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان ادارہ شماریات کی رپورٹ میں جنوری کے دوسرے ہفتے کے دوران آٹا،گھی، چکن، تمام دالوں،چاول سمیت کھانے پینے کی تمام 32 بنیادی اشیا گزشتہ سال سے 160 فیصد تک مہنگی فروخت ہوئیں جبکہ روز مرہ استعمال کی 17 بنیادی اشیا کی قیمتوں میں 37 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت نے عوام سے سو ئی گیس چھینی توانھوں نے لکڑیوں جلانی شروع کیں لیکن شاید حکومتی نمائندوں کوعوام کی یہ ادابھی پسند نہ آئی اورجلانے کی لکڑی بھی 40 روپے فی من مہنگی کردی۔

ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں کبھی فاقہ کشی کی نوبت نہیں آئی، کتنی بھی ابتر صورتحال ہو،عوام کیلئے دال روٹی کا بندوبست ہو جاتا تھا لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اب دال روٹی کا مسئلہ بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور کسی بھی سطح پر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا، گندم اور آٹے کے بحران کے حوالے سے دو تین ماہ سے چہ مگوئیاں جاری تھیں لیکن جواب آ رہا تھا کہ گندم وافر موجود ہے ، ایسی کوئی بات نہیں، سندھ حکومت کو چار لاکھ ٹن گندم دی گئی مگر انہوں نے صرف ایک لاکھ ٹن اٹھائی ،کچھ ایسی ہی صورتحال پختونخوا میں رہی اور پنجاب تو گندم کا گھر ہے ، پنجاب کی گندم دیگر صوبوں کے ساتھ بعض ہمسایہ ممالک تک جاتی ہے مگر ایسا کیوں کہ پنجاب میں بھی آٹے کی قیمتیں 70 روپے کلو کو چھوتی نظر آ رہی ہیں اور پنجاب کے ذمہ دار یہ دہائی دیتے نظر آ رہے ہیں کہ یہاں کوئی بحران نہیں، اگر بحران نہیں تھا تو وزیراعظم عمران خان کو کیوں اعلان کرنا پڑا کہ ذمہ داروں کے خلاف بڑا آپریشن ہوگا، ذخیرہ اندوزوں اور آٹا مہنگا بیچنے والوں کو فوری گرفتار کر کے ان کے گودام سیل کئے جائیں گے ، مگر وزیراعظم کے نوٹس کے باوجود ایک وزیر کہتے ہیں کہ سفید آٹا صحت کیلئے مضر ہے ، یہ کھانا چھوڑ دیں، دوسرے وزیر کا کہنا ہے کہ نومبر، دسمبر میں عوام روٹی زیادہ کھاتے ہیں ،جس سے آٹے کا بحران پیدا ہوا،تیسرے کہتے ہیں کہ قیمت وہی رکھیں مگر روٹی چھوٹی کر دیں، اس بے رحمی اور ایسی مضحکہ خیزی کا کیا علاج ہو سکتا ہے ؟ مگر اس کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ایسی بحرانی کیفیت میں سیاسی جماعتیں عوام کی آواز بنتی ہیں، مگر کوئی باہر آنے اور کردار ادا کرنے کو تیار نہیں،مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے گندم، آٹے کے اربوں روپے کے سکینڈل کا ذمہ دار عمران نیازی اور کابینہ کو قرار دے دیا ،شہباز شریف نے آٹے کی قلت اور پیدا ہونے والے بحران کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا، شہباز شریف کا کہنا تھا کہ گندم، آٹے اور اب چینی کی قیمت میں اضافے کو مسترد کرتے ہیں ،چوبیس گھنٹے سے زائد ہوگیا وزیراعظم اب تک کوئی حکمت عملی پیش نہیں کرسکے،وفاقی حکومت کی پابندی کے باوجود25 جولائی سے اکتوبر 2019کو 48000 میٹرک ٹن گندم کیسے برآمد کی گئی؟ ایک ارب 83 کروڑ روپے کس کی جیب میں گئے؟وزیر فوڈ سکیورٹی کا دعوی ہے کہ 25 جولائی کے بعد ایک دانہ بھی ملک سے باہر نہیں گیا تو پھر جنات گندم باہر لے گئے؟گندم اور اس پر مال کس کس نے کھایا؟ ایک ایک پائی کا قوم کو حساب دینا ہوگا ۔آج ایک زرعی ملک کو گندم درآمد کرنا پڑرہی ہے، اس سے زیادہ نالائقی، نااہلی اور شرم کی اور کیابات ہوگی؟یہ حقیقت ریکارڈ پر موجود ہے کہ ستمبر 2018ء سے لے کر اکتوبر2019ء تک پاکستان نے 6 لاکھ 93 ہزار میٹرک ٹن گندم برآمد کی۔ گندم کس قیمت پر پہلے ملک سے باہر بھیجی گئی؟ اور اب کس قیمت پر ملک میں درآمد کی جائے گی؟ اس کا بھی حساب دینا ہوگا،بجلی، گیس ، روزگار چھیننے کے بعد اب قوم سے ایک وقت کی روٹی بھی چھینی جارہی ہے،مزدور سے روزگار تو پہلے ہی چھن چکا ہے، اب اس کے بچوں کا نوالہ بھی چھین لیاگیا ہے۔

ملک میں آٹے کا بحران حکومت کی بد ترین ناکامی ہے۔ آٹا اور روٹی کی قیمتوں اضافہ عوام کے منہ سے روٹی کانوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔ نعرہ توریاست مدینہ کا لگایا گیا لیکن حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں نے غریب عوام کو خودکشی پر مجبور کر دیا ہے۔ پھر بھی پی ٹی آئی کی نااہل حکومت سب اچھا کی رٹ لگائے جارہی ہے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور حالات یہاں تک پہنچ گے ہیں غریب خودکشیاں کر نے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم اعلانات کی بجائے عملی اقدامات کریں ،عوام کو ریلیف پیکج دیں اور اگر حکومت عوام کو ریلیف نہ دے سکی تو آنے والے الیکشن میں عوام تحریک انصاف کو ریلیف دے دیں گے۔


 
Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 62082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.