حسرتِ آیات قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ
(Mufti Muhammad Waqas Raffi, Rawalpindi)
27 جمادی الاولیٰ یوم وفات |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اﷲ کا شمار ہمارے ماضی قریب
کے اُن نابغہ روزگار محدثین اور فقیہ النفس مجتہدین میں ہوتا ہے جن پر آج
مسلمانانِ برصغیر (پاک و ہند) کو فخر ہے۔ آپؒ کا نام نامی اسم گرامی: رشید
احمد، لقب: قطب الارشاد، والد کا نام : ہدایت احمد، اور دادا کا نام: پیر
بخش ہے۔ والد کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے:’’رشید احمد بن ہدایت احمد بن پیر
بخش بن غلام حسن بن غلام علی بن علی اکبر بن محمد اسلم الانصاری الایوبی
……الخ۔‘‘اور اِس طرح پینتیسویں پشت پر جاکر یہ سلسلہ مشہور میزبانِ رسول
صلی اﷲ علیہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے جاملتا ہے۔
حضرت گنگوہی رحمہ اﷲ مؤرخہ۶؍ ذی قعدہ ۱۲۴۴ھ کو یوم دوشنبہ (سوموار کے روز)
چاشت کے وقت قصبہ گنگوہ ضلع سہارن پور میں پیدا ہوئے ۔اور جس وقت آپؒ کے
والد ماجدؒ مولانا ہدایت احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے بہ عمر پینتیس سال ۱۲۵۲
ھ میں گورکھ پور میں انتقال فرمایا اس وقت آپؒ کی عمر مبارک صرف سات برس
کی تھی ۔
حضرت گنگوہی رحمہ اﷲ کے دو حقیقی بھائی تھے ۔ ایک بڑے حضرت مولانا عنایت
احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ جو فارسی کی ابتدائی کتابوں میں حضرت گنگوہی رحمۃ
اﷲ علیہ کے استاذ بھی تھے ۔ اور دوسرے چھوٹے جناب سعید احمد صاحب جو کہ صرف
نو سال کی عمر میں اﷲ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے تھے ۔ علاوہ ازیں آپؒ کی دو
بہنیں بھی تھیں ، ایک حقیقی ٗ جن کا نام ’’ فصیحاً ‘‘ اور دوسری سوتلی جن
کا نام ’’ أمۃ الحق‘‘ تھا ۔
حضرت گنگوہی رحمہ اﷲ نے حضرت نانوتوی رحمہ اﷲ سے ایک سال بعد ۱۲۶۲ ھ میں
اُستاذُ الکل حضرت مولانا مملوک علی صاحب رحمہ اﷲ سے ( جو دہلی میں اجمیری
دروازہ کے قریب صدر مدرس تھے ) تعلیم شروع کی ، اور پھر دونوں ( حضرت
نانوتویؒ اور حضرت گنگوہی ؒ)ہم سبق ہوگئے اور بہت تھوڑے عرصہ میں کتابیں
ختم کرلیں اور حفظ قرآن پاک کی نعمت عظمیٰ سے بہرہ ور ہوئے ۔بعد ازاں آپؒ
نے نوعمری ہی میں فارسی کی کتابیں ’’کرنال‘‘ میں اپنے ماموں حضرت مولانا
محمد تقی صاحب رحمہ اﷲ سے پڑھیں جو فارسی کے قابل ترین اُستاذ تھے ۔ فارسی
کی کتابوں سے فارغ ہونے کے بعد آپ ؒ کو عربی کی کتابوں کے پڑھنے کا شوق ہوا
، اور آپؒ نے ابتدائی صرف و نحو کی کتابیں حضرت مولانا محمد بخش صاحب رام
پوری رحمۃ اﷲ علیہ سے پڑھیں ۔اور اُستاذ کی ترغیب سے نے بہ عمر سترہ
سال۱۲۶۱ ھ کو آپ ؒنے دہلی کا سفر کیا اور حضرت مولانا قاضی احمد الدین
صاحب جہلمی رحمہ اﷲ سے تعلیم شروع کی ۔
حضرت گنگوہی رحمہ اﷲ کا نکاح آپؒ کے حقیقی بڑے ماموں حضرت مولانا محمد نقی
صاحب رحمہ اﷲ کی صاحب زادی ’’خدیجہ‘‘ خاتون علیہا الرحمۃ سے ہوا ، اور حضرت
حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمہ اﷲ کے ہاتھ پرسلاسل اربعہ میں بیعت ہوئے ۔
اِس خاتون سے حضرت گنگوہی رحمہ اﷲ کے دو صاحب زادے اور دو ہی صاحب زادیاں
تولد ہوئیں ۔ ایک صاحب زادے ولادت کے بعد چند ایام ہی کی عمر میں فوت ہوگئے
تھے۔ اور دوسرے صاحب زادے مولانا حکیم مسعود احمد صاحب رحمہ اﷲ ۱۴؍جمادی
الثانی ۱۲۷۸ ھ کو پیدا ہوئے تھے ۔ اور ایک لڑکی بنام ’’امہانی ‘‘ تین ،
چار سال کی عمر میں انتقال کرگئیں تھیں ۔ اور دوسری صاحب زادی ’’صفیہ
خاتون‘‘ تھیں جو حافظ محمد یعقوب صاحب رحمہ اﷲ کی والدہ تھیں۔
برطانیہ کے خلاف ہندوستان میں جب رمضان المبارک (۱۲۷۳ھ بمطابق ۱۸۵۷ء )میں
تحریک آزادی شروع ہوئی تو اس جہاد میں (جس کو کم بخت مؤرخ غدر لکھنے سے
نہیں چونکتے) حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکیؒ ، حضرت مولانا محمد قاسم
نانوتویؒ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒاور حافظ محمد ضامن صاحب شہید ؒ
رحمہم اﷲ تعالیٰ نے بھرپور حصہ لیا اور مؤخر الذکر ’’جہادِ شاملی‘‘ میں
شہید ہوگئے۔
اس جہاد کی پر زور تحریک کئی وجوہ کی بناء پر ناکام ہوگئی۔ اور سابق تینوں
حضرات کے خلاف حکومت برطانیہ نے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔ اور گرفتار
کرنے والوں کے لئے صلہ اور انعام تجویز کیا ۔ اس لئے طالب دُنیا لوگ ان کی
تلاش میں مساعی اور ان کو گرفتار کرانے کی تگ و دو میں سرگرداں رہے ۔ حضرت
حاجی صاحب رحمہ اﷲ اپنے مرید صادق جناب راؤ عبد اﷲ خان صاحب رحمہ اﷲ کے
’’اصطبلِ اسپاں‘‘ میں پنج لاسہ ضلع انبالہ میں رُوپوش ہوگئے ۔ کسی بدبخت
مخبر نے حکومت کو خبر کردی اور سرکاری عملہ آپہنچا اور راؤصاحب علیہ الرحمۃ
سے گھوڑوں کی دیکھ بھال کے بہانے پورے’’ اصطبل ‘‘کا محاصرہ کرکے تلاشی لی ،
مگر اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضرت حاجی صاحب رحمہ اﷲ کو اُن کی نگاہوں سے
اُوجھل رکھا اور وہ خائب و خاسر ہوکر بے نیل مرام واپس چلے گئے۔
لیکن ظالم برطانیہ کی آتشِ انتقام اس سے کب ٹھنڈی ہوسکتی تھی ؟ حضرت گنگوہی
رحمۃ اﷲ علیہ کا تعاقب اور تلاش بھی بدستور جاری رہی ، آپؒ ظالموں کی نگاہ
سے بچ کر رام پور چلے گئے اور حضرت حکیم ضیاء الدین صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے
مکان میں جا ٹھہرے اور وہیں سے ۱۲۷۶ ھ کے شروع میں گرفتار کئے گئے اور
سہارن پور کے جیل خانہ میں پہنچا کر جنگی پہرہ کی نگرانی میں دے دیئے گئے
۔تین چار دن آپؒ کو کال کوٹھری میں اور پھر پندرہ دن جیل خانہ کے حوالات
میں مقید رکھا گیا ۔ اس کے بعد پیدل ہی براستہ دیوبند مظفر نگر کے جیل خانہ
میں منتقل کردیا گیا اور تقریباً چھ ماہ وہاں رہے اور بالآخر اﷲ تعالیٰ کے
فضل و کرم سے باعزت رہائی نصیب ہوئی ۔
اس کی یہ وجہ تھی کہ ظالم برطانیہ کے قدم مضبوط ہوچکے تھے اور کوئی خطرہ
باقی نہ رہا تھا ، اس لئے مسلمانوں کی ایک مقتدر شخصیت کو رہا کرکے ہی ملکی
شورش کو ختم کرنا مناسب سمجھا گیا اور حضرت گنگوہی رحمہ اﷲ ٗ مولانا ابو
النصر علیہ الرحمۃ اور اُن کے والد مولانا عبد الغنی صاحب علیہ الرحمۃ
وغیرہ متعلقین و احباب کی معیت میں گنگوہ پہنچے ۔ اور گنگوہ میں ۱۳۱۴ھ تک
ایک کم پچاس برس تک ’’برہما، سندھ ، بنگال، پنجاب ، مدراس، دکن، برار اور
افغانستان وغیرہ اطراف و اکناف کے طلبۂ دین آپؒ سے مستفید ہوتے رہے ۔
۱۲۸۰ ھ میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضرت گنگوہی رحمہ اﷲ کو حج کی سعادت نصیب
فرمائی اور یہ حج فرض تھا ۔ دوسرا حج ۱۲۹۴ھ میں نصیب ہوا جو حج بدل تھا ۔
اور تیسرا حج ۱۲۹۹ھ میں کیا یہ بھی حج بدل تھا ۔
حضرت گنگوہی رحمہ اﷲ کو جہاں اﷲ تعالیٰ نے حقیقی اولاد سے نواز رکھا تھا تو
وہیں روحانی نیک و صالح اولاد سے بھی نواز رکھا تھا ۔ چنانچہ آپؒ نے روحانی
اولاد کی صورت میں ہزاروں طلباء ، سیکڑوں علماء اور بے شمار خلفاء اپنے
پیچھے چھوڑے ۔
اسی طرح صدقۂ جاریہ کی صورت میں بے مثال و باکمال نہایت ہی عالمانہ و
محققانہ تصانیف آپؒ نے یاد گار چھوڑیں، جن کے نام یہ ہیں: (۱)فتاویٰ رشیدیہ
(۲)اوثق العریٰ (۳)ہدایۃ الشیعۃ (۴)سبیل الرشاد (۵)امداد السلوک (۶)القطوف
الدانیہ (۷)زُبدۃ المناسک (۸)لطائف رشیدیہ (۹)رسالہ تراویح (۱۰)رسالہ وقف
(۱۱)فتویٰ ظہر احتیاطی (۱۲) فتویٰ میلاد (۱۳)ہدایۃ المعتدی (۱۴) رسالہ خطوط
وغیرہ۔
حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے مؤرخہ ۲۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۳ھ میں داعیٔ اجل
کو لبیک کہا اور لاکھوں عقیدت مندوں ،ہزاروں علماء اور بے شمار طلباء کو
داغِ مفارقت دے کرمسافرانِ آخرت میں شامل ہوگئے۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون
|
|