صحابۂ کرامؓ کو ہجرتِ مدینہ کی اجازت:
ہجرت سے قبل، مکہ مکرمہ میں صحابۂ کرامؓ پرشب وروزظلم و جور کے پہاڑ توڑے
جاتے تھے۔ پھر اللہ کا یہ کرنا ہوا کہ "عَقَبہ ثانیہ کی بیعت" کے بعد،
انصار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے متبعین کی حمایت اور مدد
کا وعدہ کیا۔ ادھر یثرب میں اسلام کو خوب فروغ مل رہا تھا۔ پھر آپؐ نے
مسلمانوں کواپنے دین کی حفاظت اور اطمینان سے احکام خداوندی بجالانے کے لیے
ہجرتِ مدینہ کی اجازت دیدی۔
آپؐ کی اجازت کے بعد، سب سے پہلے مدینہ کی ہجرت کرنے والے صحابی، آپؐ کے
رضاعی بھائی ابو سلمہؓ تھے۔ پھر مدینہ کی ہجرت عام ہوگئی۔ آپؐ، ابو بکر
صدیقؓ اور علیؓ اور چند ضعیف و ناتواں مسلمانوں کے سوا مکہ میں کوئی باقی
نہ رہا۔ حضرت ابو بکرؓ بھی ہجرت کی تیاری کررہے تھے۔ آپؐ نے ان سے کہا:
(ترجمہ) "ذرا رکے رہو، مجھے امید ہے کہ مجھے بھی اجازت دی جائے گی۔" (صحیح
بخاری: 3905) اس ارشاد کے بعد، حضرت ابو بکرؓ رک گئے۔
دارالندوہ میں رسول اکرمؐ کے قتل کا منصوبہ:
کثیر تعداد میں، صحابۂ کرامؓ کی ہجرت یثرب کو دیکھ کر، کفارقریش کو یہ خیال
ہوا کہ یہ مہاجر ین اہلِ یثرب کے ساتھ مل کر،ہمارےشام کے سفر تجارت میں
مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ ان کو یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ کب تک ہم اس شخص
(محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو برداشت کریں اور وہ ہمارے معبودوں اور آباء
واجداد کی توہین کرتا رہے۔ ان وجوہات کی بنا پر قریش کے چودھری اپنی مشورہ
گاہ: "دار الندوہ" میں، خفیہ طور پر آپؐ کے خلاف فیصلہ لینے کو جمع ہوئے۔
کسی نے کہا کہ اسے لوہے کی زنجیر میں باندھ کر دروازہ بند کردیا جائے۔ کسی
نے کہا کہ انھیں جلا وطن کردیا جائے۔ مگر نجدی شیخ کے شکل میں، دار الندوہ
میں بیٹھا مردود ابلیس نے ان رایوں کے نقص کو اجاگر کیا اور کہا کہ یہ کوئی
رائے نہیں ہے۔ پھر ابوجہل بن ہشام نے یہ رائے دی کہ "ہم ہر قبیلے سے ایک
قوی جوان کو منتخب کریں؛ پھر ہم ان میں سے ہر ایک جوان کو ایک تیز تلوار
دیں۔ وہ سب کے سب یکبارگی حملہ کرکے، ان کو قتل کردیں۔ جب وہ اسے اس طرح
قتل کریں گے؛ تو ان کا خون مختلف قبائل میں بنٹ جائے گا۔ پھر میں نہیں
سمجھتا کہ بنوہاشم سارے قریش سے جنگ کریں گے۔ جب اس صورت حال کا بنو ہاشم
مشاہدہ کریں گے؛ تو دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے۔ پھر ہم ان کو دیت دیدیں
گے۔" ابلیس نے کہا کہ بات تو یہ ہے جو اس آدمی نے کہی اور اس رائے کے بعد
کوئی رائے نہیں ہے۔ پھر پوری قوم اس پر تیار ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام1/480)
کفار کا راز فاش اور آپؐ کوہجرت کی ہدایت:
کفار نے اپنے منصوبہ کی تکمیل کے لیے آدھی رات کے بعد کا وقت مقرر کیا۔
جبرئیل علیہ السلام آپؐ کے پاس آئے اور کہا: آپؐ اپنے جس بستر پر رات
گزارتے ہیں، اس پر آپ رات نہ گزاریں۔ جب رات تاریک ہوئی؛ تو سب کے سب (قتل
کے ارادے سے) آپؐ کا انتظار کررہے تھے کہ آپؐ کب سوتے ہیں؛ تاکہ وہ سب آپؐ
پر ٹوٹ پڑیں۔ نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ سے کہا: "میرے بستر پر لیٹ کر، میری
اس حضرمی ہری چادر اوڑھ کر سوجاؤ۔ کوئی ناپسندیدہ عمل ان کی طرف سے تمھیں
پیش نہیں آئے گا ۔ جب آپؐ سوتے تھے؛ تو اسی چادر کو اوڑھ کر سوتے۔" پھر آپؐ
اپنے ہاتھ میں لپ بھر مٹی لے کر، ان کے سامنے سے نکلے۔ پھر آپؐ وہ مٹی ان
تمام کے سر پر ڈالتے ہوئے سورہ یس کی آیات 1-5کی تلاوت کررہے تھے۔ پھر اللہ
تعالی نے ان کی قوت بینائی لےلی وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ جب آپؐ ان
آیات کی تلاوت سے فارغ ہوئے؛ تو کوئی ایسا نہیں بچا تھا جس کے سر پر مٹی نہ
پڑی ہو۔ پھر آپؐ وہاں سے رخصت ہوئے، جہاں آپؐ کو رخصت ہونا تھا"۔ (سیرت ابن
ہشام1/482-483)
ہجرت کے لیے روانگی اور غار ثور میں پناہ:
آپؐ رات کے درمیانی حصہ میں، ابو بکرؓ کے گھر تشریف لائے اور ان کو ساتھ لے
کر، "جبل ثور" کا راستہ پکڑا۔ وہاں پہنچ کر تین راتوں تک غار ثور میں چھپے
رہے۔ پھر غار سے نکل کر، یثرب کے لیے روانہ ہوئے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: "جب
رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ہجرت کا پختہ ارادہ کرلیا؛ تو ابو بکرؓ
کے پاس آئے اور ان کے گھر کے پچھلے چھوٹے دروازے سے دونوں حضرات نکلے۔ پھر
آپؐ نے ثور پہاڑ کے ایک غار کا قصد کیا اور دونوں اس میں داخل ہوگئے۔ ابو
بکرؓ نے اپنے فرزند حضرت عبد اللہ کو یہ حکم کیا کہ وہ لوگوں کی باتوں پر
اچھی طرح دھیان دیں کہ وہ ان دونوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؛ پھر شام میں
آکر ،جو کچھ دن میں ہو اس کی اطلاع کریں۔ ابو بکرؓ نے اپنے غلام عامر بن
فہیرہ کو حکم دیا کہ وہ دن میں ان کی بکری چرائے اور شام کے وقت (تاریکی
میں) بکری لے کر ان کے پاس غار میں آئے (تاکہ دودھ پی سکیں)۔ (سیرت ابن
ہشام 1/ 485)
مشرکین مکہ حیران و پریشان:
مشرکین مکہ کو جب آپؐ کے سفر ہجرت کا علم ہوا؛ تو وہ بہت حیران و پریشان
ہوئے اور آپؐ کی گرفتاری پر سو اونٹوں کا انعام مقرر کیا۔ اس انعام کی لالچ
میں بہت سے مشرکین آپؐ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ مگر کوئی کامیابی نہیں
ملی۔ کچھ کفّار "قائف" (جو نشان ہائے قدم کا ماہر تھا) کو لے کر آپؐ کی
تلاش میں نکلے۔ اس نے غار ثور تک نشان قدم کی شناخت کی، جس میں آپؐ اور ابو
بکرؓ نے پناہ لی ہوئی تھی۔ وہ لوگ ہر ممکن سمت میں آپؐ کو تلاش کررہے
تھے؛مگر وہ آپؐ کو اور ابو بکرؓ کو نہیں دیکھ سکے۔
کفار مکہ سروں پر چڑھ آئے:
صورت حال یہ تھی کہ ان مشرکین کے قدم ،حضرت ابو بکرؓ کو دکھائی دے رہے تھے۔
آپؓ فرماتے ہیں: (ترجمہ) "جب ہم غار (ثور) میں تھے، تو مشرکوں کے پاؤں کو
دیکھا کہ وہ ہمارے سروں پر چڑھ آئے تھے؛ تو میں کہا: یا رسول اللہ! ان میں
سے کوئی انسان اپنے پاؤں کے نیچے دیکھ لے تو یقینی طور پر ہمیں دیکھ لے
گا"۔ تو آپؐ نے جواب دیا: "اے ابوبکر! ان دونوں انسانوں کے بارے میں تیرا
کیا گمان ہےجن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے؟" (صحیح مسلم : 2381)
تین دنوں بعد غار ثور سے روانگی:
مشرکین تلاشی کے بعدمایوس ہوگئے۔ تین دن کے بعد،حالات قابل اطمینان لگنے
لگے؛ تو نبی اکرمؐ نے یار غار حضرت ابو بکرؓ، خادم عامر بن فہیرہ اور
بیابانی اور صحرائی راستوں کے ماہررہبر:عبد اللہ بن اریقط کی معیت میں،
اللہ تعالی کے حفظ وامان میں، غار ثور سے سفر شروع کیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے
پہلے ہی سے سواری کے لیے دو اونٹ رہبر کو دے کر، یہ ہدایت کردی تھی کہ تین
راتیں گزرنے کے بعد، وہ اونٹوں کے ساتھ غار ثور پہنچ جائے؛ چناں چہ رہبر
ہدایت کے مطابق، مقام معین پر پہنچا اور مہاجرین کی یہ چھوٹی سی جماعت،
مدینہ کے لیے روانہ ہوئی۔ رہبر نے ایسے راستے کا انتخاب کیا جس سے مکہ کے
اکثر لوگ ناواقف تھے اور اس میں مہاجرین کی سلامتی کی ضمانت تھی۔ "عبد اللہ
بن اریقط آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکرؓ کو ہمراہ لیے ہوئے، اسفل
مکہ سے نکل کر، ساحل کی طرف جھکا اور اسفل عسفان سے گزرتا ہوا، منزل بمنزل
ہوتا ہواقبا میں داخل ہوا"۔ (سیرت مصطفی1/ 372)
امّ معبد کے خیمےپر معجزہ کا ظہور:
قافلۂ اہلِ حق کٹھن راستے کو طے کرتے ہوئے مدینہ کی سمت بڑھتا جارہا تھا۔
چلتے چلتے "قدید" کے علاقے سے گزر ہوا۔ اس علاقہ میں ایک چھوٹی سی بستی
تھی، جس میں "قبیلہ خزاعہ" کے لوگ بود و باش اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس کا
فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس کیلو میٹر ہے۔ آپؐ "قبیلہ خزاعہ" میں پہنچے۔
بھوک پیاس بڑھتا جارہا تھا۔ آپؐ خزاعہ کی ایک خاتون: امّ معبد کے مکان کے
پاس جاکر رکے؛ تاکہ اس سے کچھ کھجور اور گوشت خرید سکیں۔
آپؐ نے پوچھا: "کیا تمھارے پاس کچھ (کھانے پینے کا )ہے؟" اُمّ معبد نے جواب
دیا: واللہ! ہمارے پاس کچھ ہوتا؛ تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی۔
آپؐ کی نظر رحمت اس دبلی پتلی بکری پر پڑی۔ پھر آپؐ نے کہا: "اے اُمّ معبد!
یہ بکری کیسی ہے؟" اُمّ معبد نے جواب دیا: اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے
چھوڑ رکھا ہے۔ آپؐ نے پوچھا: "کیا اس میں کچھ دودھ ہے؟" اُمّ معبد کا جواب
تھا: وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ آپؐ گویا ہوتے ہیں: "اجازت ہے کہ اسے
دوہ لوں؟" وہ خاتون یوں جواب دیتی ہیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ
محسوس کرتے ہیں کہ اس کے تھن میں دودھ ہے؛ تو آپ ضرور دوہ لیں!
آپؐ نےبکری کو پاس بلایا اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا ، اللہ کا نام لیا
اور بارگاہ رب الغزت میں دعا کی۔ بکری نے پاؤں پھیلا دیا۔ معجزہ کا ظہور
ہوا کہ تھن دودھ سے بھر گیا۔ پھر آپؐ نے بڑا برتن منگوایا اور اتنا دوہا کہ
وہ برتن پورا لبریز ہوگیا۔ پھر اس خاتون کو دودھ پلایا؛ تا آں کہ وہ آسودہ
ہوگئیں۔ آپؐ نے اپنے وفا شعار ساتھیوں کو دودھ پیش فرمایا، وہ سب بھی آسودہ
ہوگئے۔ آپؐ نے سب سے اخیر میں دودھ نوش فرمایا۔ پھر دوسری دفعہ اتنا دودھ
دوہا کہ برتن پھر بھر گیا۔ اس دودھ سے بھرے برتن کو اُمّ معبد کے پاس چھوڑ
کر، وہاں سے کوچ کرگئے۔
سراقہ بن مالک کی ناکام کوشش:
جب نبی اکرمؐ "قدید "سے آگےنکلے؛ تو آپؐ کو گرفتار کرکےسو اونٹ کا قیمتی
انعام حاصل کرنے کی لالچ میں، گھوڑے پر سوار ہوکر، سراقہ بن مالک نے پیچھا
کرنا شروع کیا۔ پھر کیا ہوا؟ اس کی تفصیل ایک روایت میں یوں ہے:
"ہم نے سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کیا اور سراقہ بن مالک نے ہماراپیچھا کیا۔ ہم
نے کہا:اے اللہ کے رسول! ہم آئے گئے(ہم پکڑ لیے گئے)"۔ آپؐ نے فرمایا:"غم
نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے"۔ پھر آپؐ نے اس کے لیے بد دعا کی؛لہذا اس کے
ساتھ اس کا گھوڑا پیٹ تک دھنس گيا۔ .... سراقہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ آپ
حضرات نے میرے لیے بد دعا کی ہے، پس دعا کریں! اور میں آپ دونوں کو اللہ کا
عہد دیتا ہوں کہ تلاش کرنے والے کوآپ دونوں سے واپس کردوں گا؛ لہذا آپؐ نے
اس کے لیے دعا کی اور اسے نجات ملی۔ پھر وہ جس سے بھی ملاقات کرتا اس سے
کہتا: اس طرف سے میں تمھارے لیے کافی ہوگیا ہوں؛ لہذا جس سے بھی وہ ملاقات
کرتا، اسے واپس کردیتا۔ ابو بکرؓ کہتے ہیں: (اس نے جو وعدہ ہم سے کیا
تھااسے) پورا کیا"۔ (صحیح بخاری: 3615)
زبیرؓ بن عوام سے ملاقات:
جب آپؐ وادی ریم میں پہنچے؛ تو آپؐ کی ملاقات حضرت زبیرؓ سے ہوئی۔ آپ
مسلمانوں کے تجارتی قافلہ کے ساتھ ملک شام سے آرہے تھے۔ حضرت زبیرؓ نے سفید
جوڑےبطور ہدیہ پیش کرکےآپؐ اور ابو بکرؓ کا استقبال کیا۔ (صحیح بخاری:
3906)
اہالیان یثرب کی بے تابی اور قباء میں آپؐ کی آمد:
آپؐ اپنے رفیق اور رہبر کی معیت میں 12/ربیع الاول کو ، پیر کے دن یثرب کے
مضافات میں، تین میل کے فاصلے پر واقع مقام: "قباء" پہنچے۔ بنو عمرو بن عوف
کا قبیلہ اسی مقام قباء میں آباد تھا۔ آپؐ نے قباء میں، قبیلہ کے سردار:
کلثوم بن ہدم کے مکان پر دس دنوں سے زیادہ قیام کیا اور ایک مسجدتعمیر کی
جسے "مسجدتقوی" اور" مسجد قبا" بھی کہا جاتا ہے۔ایک روایت میں ہے:
"مسلمانوں نے مدینہ میں آپؐ کے مکہ سے نکلنے کی بات سن لی تھی۔ وہ روزانہ
صبح "حرہ" کی طرف نکل جاتے اور آپؐ کا انتظار کرتے؛ تا آں کہ دوپہر کی
(ناقابل برداشت) گرمی انھیں واپس کردیتی۔ ایک دن طویل انتظار کے بعد، لوگ
اپنے گھروں کو واپس آگئے۔ جب وہ اپنے گھروں کو واپس آگئے؛ تو یہودکا ایک
شخص اپنے قلعے میں سے ایک پر، کچھ دیکھنے کے لیے چڑھا؛ تو اس نے آپؐ اور ان
کے ساتھیوں کو سفید کپڑے میں ملبوس آتے ہوئے دیکھا۔ وہ شخص خود کو روک نہیں
سکا کہ بلند آواز سے کہا: اے عرب کے لوگو! یہ تمھارا وہ نصیبہ ہے جس کا تم
انتظار کررہے ہو۔ لہذا مسلمان اسلحہ کی طرف دوڑے (اور اسلحہ سے لیس
ہوکر)"حرہ" کے میدان میں، آپؐ سے ملے (اور استقبال کیا)۔ آپؐ ان کے ساتھ
دائیں جانب مڑگئے؛ تا آں کہ بنو عمر وبن عوف کے محلہ میں تشریف فرما
ہوئے۔.... پس انصار میں سے جو بھی آتا جس نے آپؐ کو (پہلے سے) نہیں دیکھ
رکھا تھا، ابو بکرؓ کو سلام کرتا؛ تا آں کہ آپؐ پر دھوپ آگئی؛ تو ابو بکرؓ
آئے اور اپنی چادر سے آپؐ پر سایہ کردیا۔ اس وقت لوگوں نے آپؐ کو پہچانا۔
آپؐ بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں، دس راتوں سے زیادہ ٹھہرے اور اس مسجد
(مسجد قبا) کی تعمیر کی جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے اور آپؐ نے اس میں
نمازیں پڑھیں۔" (صحیح بخاری: 3906)
مدینہ منورہ میں داخلہ:
قبا سے جمعہ کے دن یثرب کے لیے روانہ ہوئے۔ "پھر آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار
ہوئے اور چلے۔ لوگ آپؐ کے ساتھ چلنے لگے؛ تا آں کہ اونٹنی مدینہ (بنو نجار
کے محلہ ) میں آپؐ کی مسجد (جس جگہ پر مسجد نبوی کا دروازہ ہے) کے پاس
بیٹھی۔ کچھ مسلمان اس جگہ پر ان دنوں نماز پڑھتے تھے۔ (یہ جگہ) دو یتیم
لڑکے: سہیل اور سہل کی کھجوریں سوکھانے کا کھلیان تھا، جو اسعد بن زرارہ کی
پرورش میں تھے۔ جب آپؐ کی سواری وہاں بیٹھ گئی؛ تو آپؐ نے فرمایا: "اگر
اللہ نے چاہا؛ تو یہی منزل ہوگی۔" پھر آپؐ نے دونوں لڑکوں کو بلایا اور
کھلیان کا بھاؤ کیا؛ تاکہ وہاں مسجد بنائیں۔ ان دونوں لڑکے نے جواب دیا: اے
اللہ کے رسول! نہیں ، بل کہ ہم آپ کو یہ ہبہ کرتے ہیں۔ مگر آپؐ بطور ہبہ ان
سے قبول کرنے سے انکار کیا؛ حتی کہ اس (جگہ) کو ان سے خریدا (اور ابو بکرؓ
نے اس جگہ کی قیمت دس دینار اپنے مال سےادا کی)۔ پھر وہاں مسجد بنائی۔ مسجد
کی تعمیر کے لیے آپؐ لوگوں کے ساتھ کچی اینٹیں ڈھوتے تھے۔ (صحیح بخاری:
3906)
نبی اکرمؐ کی آمد پر "لوگ راستوں اور گزرگاہوں پر اور مکانوں کی چھتوں،
کھڑکیوں اور دروازوں پر جمع ہوگئےتھے۔ لڑکے اور نوکر خدمت گار ہر طرف کہتے
تھے: "اللهُ أكبر جاء رسول الله، اللهُ أكبر جاء محمد، اللهُ أكبر جاء
محمد، اللهُ أكبر جاء رسول الله." (اللہ اکبر رسول اللہ تشریف لے آئے، اللہ
اکبر محمؐد تشریف لے آئے، اللہ اکبر محمؐد تشریف لے آئے، اللہ اکبر رسول
اللہ تشریف لے آئے۔) (نبی رحمت/ 252)
جب آپؐ کی اونٹنی مدینہ میں داخل ہورہی تھی ؛ تو لوگوں نے آپؐ کو درخواست
کرنی شروع کردی کہ اللہ کے رسول، آپ ہمارے یہاں تشریف رکھیں! کبھی کبھی لوگ
آپ کی اونٹنی کی نکیل اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیتے کہ آپؐ ان کے یہاں قیام
فرمائیں۔ مگر رسول اکرمؐ فرماتےاس اونٹنی کو جانے دو ، یہ اللہ کی طرف سے
مامور ہے۔ آپؐ کی اونٹنی قبیلہ بنو نجار میں جاکر، اس جگہ بیٹھی جہاں آج
مسجد نبوی کا دروازہ ہے۔ لوگوں کی طرف سے قیام کی درخواست کا سلسلہ جاری ہی
تھا کہ ابو ایوب خالد بن زید نجاری خزرجی انصاری ؓ کجاوہ اٹھا کر اپنے گھر
لے گئے؛ لہذا اللہ کے رسولؐ نے ابو ایوبؓ کے یہاں تقریبا سات یا دس ماہ
قیام فرمایا۔ ابو ایوبؓ نے ادب واحترام ملحوظ رکھتے ہوئے، اپنے گھر کی
بالائی منزل میں آپؐ کو قیام کرنے کی درخواست کی! مگر آپؐ نے ملنے والوں کی
راحت کی خاطر نیچے والے حصہ کو ترجیح دی۔
یثرب مدینۃ الرسول بن گیا:
نبی اکرمؐ کی آمد کے بعد، یثرب کا نام "مدینۃ الرسول" ہوگیا، جسے آج ہم
مدینہ منورہ یا مدینہ کہتے ہیں۔ آپؐ کی آمد سے مدینہ کا ذرہ ذرہ روشن ہوگیا
اور اہل مدینہ کبھی بھی کسی چیز سے اتنے خوش نہیں ہوئے،جتنا آپؐ کی تشریف
آوری سے خوش ہوئے۔ مسلمانوں کو امن واطمینان حاصل ہوا۔ اسلام کو استحکام
اور فروغ ملا۔ ایک مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔ پورا مدینہ ایک دین
اور ایک عقیدہ کے رنگ میں رنگ گیا۔ آپؐ نے انصار ومہاجرین میں بھائی چارہ
اور مواخات کا معاہدہ کرایا۔ اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ سب کے سب
اللہ پاک کی عبادت بلاخوف وخطر کرنے لگے۔
ہجرت کا انعام اور مسلمانوں کے لیے سبق:
نبی اکرمؐ اور صحابۂ کرامؓ کی ہجرتِ مدینہ، اللہ تعالی کے دین کی خاطر،
تاریخ عالم کی بے مثال اور منفرد قربانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے
ان مہاجرین کے لیےبہت بڑا انعام متعین کیا۔ ارشاد خداوندی ہے: (ترجمہ) "اور
جو شخص اللہ تعالی کی راہ میں ہجرت کرے گا،تو اس کو روئے زمین پر جانے کی
بہت جگہ ملے گی اور بہت گنجائش،اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا
ہو کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کروں گا، پھر اس کو موت آپکڑے،تب بھی اس
کا ثواب ثابت ہوگیااللہ تعالی کے ذمے،اور اللہ تعالی بڑے مغفرت کرنے والے
ہیں، بڑے رحمت والے ہیں"۔ (سورہ نساء:100) دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
(ترجمہ) "اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں (یعنی دین کے لیے) اپنا وطن
چھورڑا، پھر وہ لوگ (کفر کے مقابلہ میں) قتل کيے گئے یا مرگئے، اللہ تعالی
ضرور ان کو ایک عمدہ رزق دے گا اور یقینا اللہ تعالی سب دینے والوں سے اچھا
(دینے والا) ہے۔ (اور رزق حسن کے ساتھ) اللہ تعالی ان کو ایسی جگہ لے جاکر
داخل کرے گا، جس کو وہ (بہت ہی) پسند کریں گے۔ اور بلاشبہ اللہ تعالی (ہر
بات کی مصلحت کو) خوب جاننے والا ہے، بہت حلم والا (بھی) ہے"۔ (سورہ
حج:58-59)
اس ہجرت سے مسلمانوں کو یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کے دین کی
سرفرازی وسربلندی کے لیےمسلمانوں کو جو بھی مصائب وآلام پیش آئے، اسے بلا
تامل فرحت وشادمانی کے ساتھ برداشت کرلینی چاہیے۔ پھر من جانب اللہ عزت
واعزاز کے ساتھ ساتھ، اس کا انعام بھی بڑا ملے گا، ان شاء اللہ۔ ***
|