ہڑپہ سے میری پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ یہ جو سیاحت کا شوق
ہوتا ہے نا یہ پیدائشی فالٹ ہوتا ہے۔ مجھے بچپن کی جو جیزیں یاد ہیں۔ ان
میں ایک وہ دن بھی ہے جب سکول میں ٹرپ جا رہا تھا۔ یہ کوئی 2002 یا 2003 کی
بات ہو گے لیکن گھر والوں نے اس وقت جانے نہیں دیا جس کی مختلف وجوہات نقل
کی جاتی ہیں۔
اور اس کے بعد پھر میں اسلام آباد چلا گیا۔وہاں کافی کچھ دیکھنے اوربہت
گھومنے کا موقع ملا ۔میں بات کر رہا تھا ہڑپہ کی تو جناب حوصلہ رکھیں میں
بھی ادھر ہوں اور آپ نے بھی جا کے کوئی دانش کے قُل نہیں کروانے۔
اب بات یہاں پہنچی ہے کہ میں ایک سفر پر نکل رہا ہوں جس کی ابتدا لاہور سے
یے۔اور میرے ساتھ بھی میں ہی ہوں کے علاوہ میری اونچ نیچ، سڑک اور پکڈنڈیوں
کی ساتھی سلامتی اور میری حفاظت کا ذمہ دار سدید بھی ہیں۔ میں لاہور سے
27دسمبر کی یخ بختہ صبح سویرے سہیل انجم بھائی کی الوداعیہ چائے نوش کرنے
کے بعد نکل گیا تھا۔اب اردادہ تھا کہ ،اوکاڑا جا کر رکنا ہے، لیکن ادھرجا
کر میرے معزز میزبان گرامی قدر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے یوں میں
باروں بار بائی باس نکل گیا۔لیکن آگے ایک بابا جی آتے ہیں جن کی چائے کا
نشہ ہی الگ ہے ادھر رک کر چائے پی۔ پچھلوں کا احوال لیا کیوں کہ کچھ دوست
اس دن ٹرین پر بھی سفر کر رہے تھے۔ہم تقریبا ایک ساتھ ہی نکلے تھے۔ چونکہ
وہ پاکستان ریلوےکی ریل پر سفر کر رہے تھے اس لیے وہ ابھی تک لاہور میں ہی
تھے۔اور میں اوکاڑا سے نکلنے کو تھا۔ اب جو نکلا تو ساہیوال کے بعد ہڑپہ کا
بورڈ آیا تو نا جانے کیا سوچی کہ میں نے ان بیابانوں کی طرف اپنی سلامتی کو
ہانک دیا حالانکہ میں اس کے بعد کئی مرتبہ ہڑپہ جا چکا ہوں ۔ لیکن یہ ایک
یاد گار سفر ہونا تھا شاید اس لیے قدرت کو یہی منظور تھا ۔ ہڑپہ زیادہ دیر
نہیں رکا کہ مجھے جلد از جلد ملتان پہنچنا تھا۔
جمعہ ہونے کی وجہ سے چیچہ وطنی کا شاہی مہمان خانہ ابوبکر آٹوز آج بند تھا
یوں تو ان کی طرف سے ہدایت ہوتی کہ کہ کوئی بھی سیاح بھائی کسی وقت بھی
چیچہ وطنی سے گزرے وہ ہمیں خدمت کا موقع دے۔ ہم اکثر ملتے رہتے اس لیے میں
نے آج کی رخصت دی اور نیت برائے ملتان منہ میرا ملتان کی طرف سلامتی کے
ساتھ بمع زائد سمان اور فل سیفٹی کے پھوں پھوں
اب حال یہ ہے نید آ نے لگی ہے لیکن منزل قریب ہے بنا رکے اور تھکے جا پہنچا
ملتان جمعہ شہر سے باہر ہی ایک مسجد میں ادا کیا اور ملتان میں اپنے میزبان
دوست سید سیف جعفر صاحب کے حجرے میں بریک لگائی حجرہ اس لیے کہ وہ بھی ادھر
مسافر ہی ہیں اور کام کے سلسلہ میں ملتان میں قیام پزیر ہیں۔ وائے رے قسمت
جب میں گیا تو کام پر تھے اور میں نے جاتے ہی گدھے گھوڑے بھی بیچنا گوارہ
نہ کیے اور لمبی تان لی، ہاں نا اگر میں گدھے گھوڑے بیچنے لگتا تو مجھے اور
جاگنا پڑتا ۔
جب شام کے قریب سیف صاحب تشریف لائے، ہم نے پیٹ پوجا کی اور نکلے صوفیاء کے
شہر میں گشت پر ہماری منزل تھی ہماری نسبت کے صوفی صاحب (اوے ہوئے کیا کہہ
دیا لڑکے) جی میں بات کر رہا ہوں دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے
بایئکر جناب اقبال گانگلہ صاحب کی،
اب جو مل بیٹھے دیوانے چار خوب گزری شام یار (ارے واہ واہ تو بول دو)
اب مجھے سونا ہے
حیران نہ ہوں جناب میں رات کو کام کر کے نکلا تھا اس لیے نید آ رہی تھی اور
اب کل سے آگے سفر کرنا ہے تو دن سفر کا، رات آرام کی
لیں جی فی امان اللہ
آپ کے آنے، جانے،بیٹھنےاور پڑھنے کا شکریہ
آگے ہم کل چلیں گے۔
عبید الرحمٰن معاویہ
|