جوابی نوٹس لیا ہے

معاشی صورت حال خراب ہی نہیں انتہائی خراب ہے ۔مہنگائی تو خیر پورے جوبن پر ہے ہی، لیکن اب چیزوں میں باقاعدہ مقابلہ شروع ہو گیاہے کہ کون سی چیز زیادہ مہنگی ہے اور کون سی کم۔آٹا جوایک ضروری اور لازمی خوراک ہے آج ستر (70) روپے کلو ہو گیا۔ہمارے کلچر میں گاؤں کے بہت سے کسان سالن نہ بھی ہو، اچار یا ایسی کسی چھوٹی موٹی چیز کے ساتھ آسانی سے روٹی کھا لیتے ہیں۔اسلئے ہماری آبادی کے لئے آٹے سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں۔اس میں اضافہ ہر آدمی کو متاثر کرتا ہے۔یہ آٹا ایوب خان کے دور میں بیس روپے من ہو گیا تھا تو لوگ سر پیٹنے لگے تھے۔ حبیب جالب کو گلہ تھا کہ لوگ احتجاج کو سڑکوں پر نہیں آئے۔ اس نے کہا تھا، ’’بیس روپے من آٹا اور اس پر بھی ہے سناٹا۔‘‘ آج ستر روپے کلو ہے اور سناٹا بھی ہے مگر یہ سناٹا حکومت کے لئے کسی نہ کسی طوفان کا پیش خیمہ لگتا ہے۔ چینی کو بھی پر لگنے لگے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ چینی کی یہ پرواز یقیناً وزیر اعظم کے ایک مخصوص دست راست کے تعاون کی محتاج ہی نہیں اس کے اشیر باد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ویسے فکر کی کوئی بات نہیں۔ ہمارے محبوب وزیر اعظم نے آٹے کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لے لیا ہے۔ ایک ا ورنو ٹس چینی کے لئے بھی آ رہا ہے ۔ نوٹس لینے سے کیا ہو گا، یہ اﷲجانتا ہے اب تک ہزاروں نوٹس لئے گئے ہیں مگر نتیجہ کیا ہوتا ہے کسی کو معلوم نہیں۔

نظم و نسق کی صورت بھی دگر گوں ہے ۔ میرے ہمسایے میں ایک معروف صحافی رہتے ہیں۔ ان کے ہاں ڈاکہ پڑا۔ چھ ڈاکو دیوار پھاند کر ان کے لان میں آئے ۔ کھڑکی کی جالی کاٹی، ان کی بیگم اور بیٹیوں کو ڈرایا دھمکایا اور لمحوں میں عمر بھر کاسرمایہ لوٹ کر چلے گئے۔ان کی بیگم انتہائی زیرک، دبنگ اور مضبوط اعصاب کی مالک خاتون ہیں، انہوں نے بڑے حوصلے سے اس خطرناک صورت حال کا سامنا کیا ۔ پولیس کا دیا گیاان کا مسلح گارڈ موجود تھا۔ ایک ڈرائیور بھی موجود تھا۔ گھر کی حفاظت کے لئے دوسرے بھی سو جتن کئے ہوئے تھے ، گرلیں خار دار تاریں اور بہت کچھ مگر سب بے کار۔جو ہونا تھا ہو گیا۔ موصوف بااثر آدمی ہیں۔ ان کی شخصیت اور اثر دیکھتے ہوئے ہمارے پلس وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے لیا ۔ نوٹس کا کمال یہ ہوا کہ ایک آدھ دن پولیس گھر اور گرد و نواح میں بھر پور انداز میں پھرتی نظر آئی۔ چوروں اور ڈاکوؤں نے بھی پولیس کی پھرتیوں کا جوابی نوٹس لیا اور ٹھیک دو دن بعد ان کے ہمسائے میں ایک چار پانچ کنال کے خالی پلاٹ پر جس پر کسی دوسرے شخص نے کنوں کے بہت سے درخت لگائے ہوئے تھے، جوابی کمال دکھایا۔ تمام پھل اتار کر مزے سے پولیس کا منہ چڑاتے درخت خالی کرکے چلے گئے۔ ایسے نوٹس کا عوام کیا کریں، جس کا جوابی نوٹس بھی وصول ہو جائے۔ کوئی سمجھائے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا۔لوگ پہلے ہی خائف تھے ، اب مزید خائف ہو گئے ہیں۔

میراایک دوست پوچھ رہا تھا کہ بھائی حکمرانوں کا تمام مسائل پر یہ نوٹس نوٹس کھیلنا کچھ تمہیں سمجھ آتا ہے۔ہر حادثے ، ہر سانحے اور ہر بڑے واقع کا نوٹس لیتے ہیں۔کبھی کوئی نتیجہ سامنے آیا۔ کبھی اس نوٹس کا انجام محسوس ہوا۔ اس نوٹس کے اثرات کیا ہوئے ۔ بس کوئی جوابی نوٹس مل جاتا ہے عملاً کچھ نہیں ہوتا۔میں نے کہا ، بھائی حکمرانی بڑی عجیب چیز ہے ۔ ہمارے سارے حکمران پانچوں حسوں سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ عوام کے مسائل کے حوالے سے گونگے ، بہرے اور اندھے ہوتے ہیں ۔کسی بڑے حادثے یا واقعے کی صورت میں جو عوام کی چیخ نکلتی ہے اس سے ان کی سماعتوں میں خلل پڑتا ہے، یہ گھبرا کر ایک نوٹس لینے کا اعلان کرتے اور پھر سو جاتے ہیں۔ صرف نوٹس سے مطمن ہو جانا اب عوام کی عادت ہو گئی ہے ۔ ان کے پاس مطمن ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا حل ہوتا ہی نہیں۔ ایسے نوٹس ہماری عام زندگی میں تمام لوگ لیتے ہیں اور کچھ نہ ہونے کی صورت میں صبر اور شکر پر ہی گزارہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

عام آدمی بھی اپنے ساتھ پیش آنے والے بہت سے واقعات کا کیسے نوٹس لیتا اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے ، بس سرکاری اور حکمرانی نوٹس جیسا ہی حال ہے ۔ مجھے دو واقعات یاد آئے۔میں ایک کام کے لئے تھوڑی دیر کے لئے گھر سے باہرجا رہا تھا۔ میرا بیٹا اور اس کا دوست گھر میں بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے۔ مجھے باہر جاتے دیکھ کر انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی تصویریں بنوائی ہیں اور مجھے کہا کہ واپسی پر میں فوٹو گرافر سے ان کی تصویریں لیتا آؤں۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد میں تصویریں لے کر واپس آیا۔ تصویریں وصول کرنے والوں، میرے بیٹے اور اس کے دوست کو وہ تصویریں پسند نہ آئیں۔ انہوں نے فوراً نوٹس لیا اور اتنی گندی تصویریں کہتے ہوئے فوراً گاڑی میں بیٹھے اور فوٹو گرافر کے پاس پہنچ گئے۔فوٹو گرافر کچھ کام کر رہا تھا مگر اس نے گاہکوں کی آمد کا نوٹس لیا ۔ فوراً کاونٹر پر آیا۔ اب دونوں نوٹسوں کے تصادم کاوقت آگیا، فوٹو گرافر نے کہا، فرمائیں۔ دونوں بولے، یہ کیا فوٹو بنائی ہے۔ دکاندار فوٹو گرافر نے فوٹو نکالیں ۔ دونوں کے سامنے ان کی فوٹو رکھیں ۔ دو تین بار کبھی فوٹو اور کبھی ان کاچہرہ دیکھا۔ پھر گویا ہوا، کوئی خرابی نہیں ، جیسے ہو ویسی فوٹو ہے، اور کیا چاہتے ہو۔ یہ کہہ کر وہ واپس اپنے کام میں لگ گیا۔ یہ دونوں مسکرائے ، فوٹو واپس جیب میں ڈالیں اور یوں سارے نوٹس اور جوابی نوٹس اسی طرح ہوا میں اڑ گئے جیسے وہ حکام کے لئے گئے نوٹس ہوں۔

میرا ایک عزیز اپنے دوستوں کے ساتھ ایک کیفے میں کافی پینے گیا۔ کافی آئی تو عجیب چیز تھی۔ نہ آپ اسے کافی کہہ سکتے تھے اور نہ چائے۔ ایک جذباتی دوست نے فوراً نوٹس لیا۔ زور سے بیرے کو آواز دی ۔’’ ادھر آؤ۔ کافی کہا تھا یہ کیا لائے ہو۔ اپنے مینجر کو بلاؤ ‘‘۔مینجر پہلے ہی ہال میں موجود تھا اور اپنے ان گاہکوں کے شور کا نوٹس لے کر ان کی طرف ہی آ رہا تھا۔ اس نے بیرے سے پوچھا کیا مسئلہ ہے۔ بیرے نے بتایا کہ کافی کے ذائقے کی شکایت کر رہے ہیں۔ اگلے لمحے چھ فٹ سے اونچا، چار فٹ سے چوڑا ، بازو جتنی موٹی مونچھوں والا مینجر اپنی سرخ سرخ آنکھیں لئے ان کے پاس تھا۔اسے دیکھ کر تینوں دوست خوفزدہ نظر آئے۔ مینجر نے پوچھا، کس کی کافی کا ذائقہ ٹھیک نہیں۔ وہ جس نے نعرہ لگایا تھا۔ اس نے ڈرے ڈرے لہجے میں کہا، میری کافی کا۔ مینجر نے اس کے سامنے سے کافی کا مگ اٹھایا۔ ایک بڑا گھونٹ تیزی سے پیا اور پھر آدھا بچا ہوا مگ واپس رکھ کر کہنے لگا، شاندار ذائقہ ہے ، چپکے سے پیو، بل دو اور جاؤ۔ اتنا زار دار جوابی نوٹس ، تینوں دوست مزید پریشان ہو گئے۔مینجر نے پھر پوچھا۔ کسی اور کی کافی کا ذائقہ تو خراب نہیں۔ ایک دوست کو شاندار جوابی نوٹس ملنے پر باقی دونوں اپنے نوٹس کو واپس لے چکے تھے۔ ایک دم دونوں بولے، نہیں نہیں ، بہت شاندار ہے۔ مینجر فاتحانہ انداز میں واپس مڑ گیا۔ انہیں لگا کہ جس طرح اپنے گھر چوری ہونے پر پولیس کے اعلیٰ حکام کے نوٹس سے جان چھڑانے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ وہاں سے بل دے کر بھاگ جانے ہی میں بہتری ہے۔ بس اس دن کے بعد سے آج تک انہوں نے نوٹس لینا اور کسی دوسرے کے لئے گئے نوٹس یا کسی تبدیلی کا اعتبار کرناچھوڑ دیا ہے۔ تنویر صادق
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501468 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More