بیجنگ، اسلام آباد اور دوحہ میں ایف اے ٹی ایف ،
پاک۔ امریکا تعلقات میں بہتری اوردوحہ میں افغان مفاہمتی عمل کے مذاکراتی
ادوار رواں ہفتے ایک ساتھ شروع ہوئے، جس کے بعد خطے میں امن و امان کے
حوالے سے اہم اعلانات کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے ۔ چین اور بھارت کی مشترکہ
سربراہی میں بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف)
کا 3 روزہ (21 تا 23 جنوری ) مذاکراتی اجلاس چین کے دارالحکومت بیجنگ میں
منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزامات پر حکومتی اقدامات کا
جائزہ لیا گیا۔واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ستائیس نکات پر عمل
درآمد کے لیے کہا تھا۔ ان نکات کے تفصیلی جوابات پر650صفحات کی مشتمل نظر
ثانی رپورٹ پاکستان آٹھ جنوری کو جمع کرا نے کے بعد بریفنگ بھی دے چکا
۔پاکستانی وفد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے مذاکراتی اجلاس
میں شرکت کے لیے وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کے ہمراہ نیشنل
کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)، کسٹمز، اسٹیٹ بینک، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ
(ایف ایم یو) وزرات خارجہ اور وزرات داخلہ کے حکام شامل تھے، پیرس اجلاس کے
بعد پاکستان کو پابند کیاگیا تھا کہ ہر تین مہینے بعد ایف اے ٹی ایف کی دی
گئی گائیڈ لائن کی پیش رفت سے آگاہ کرے۔
پاکستان نے اکتوبر پیرس اجلاس کے بعد دسمبر 2019میں پیش رفت پر رپورٹ جمع
کرائی تھی ۔اس پر گذشتہ ماہ دسمبر میں پاکستانی رپورٹ کے جواب میں 150
سوالوں کے جواب 8 جنوری 2020 تک طلب کیے تھے۔ ان سوالات میں پاکستان میں
مدرسوں سے متعلق زیادہ وضاحتیں طلب کی گئی تھیں جب کہ منی لانڈرنگ اور دہشت
گردوں کی مالی معاونت روکنے سے متعلق پیش رفت سمیت دہشت گردوں پر قائم
مقدمات کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا تھا۔ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی
معاونت اور منی لانڈرنگ روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ بیجنگ میں ہونے
والے اجلاس میں نظر ثانی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا جبکہ حتمی جائزہ ماہ فروری
2020کو پیرس اجلاس میں لیا جائے گا ، جس میں پاکستان کے واچنگ لسٹ لسٹ میں
رہنے یا نکالنے کا فیصلہ ہوگا۔توقع ہے کہ جون 2020تک پاکستان کو مزید مہلت
مل جائے کیونکہ فروری 2020تک باقی ماندہ اقدامات پر عمل پیرا ہونے کے لئے
وقت کی کمی حائل ہوگی۔
ایف اے ٹی ایف کا اکتوبر میں پیرس اجلاس چین کی سربراہی میں ہوا تھا۔ یہ
چین کی سربراہی میں ہونے والا پہلا اجلاس تھا،اب 21جنوری کو بھارت نے چین
کے ساتھ ایف اے ٹی ایف کی میزبانی کی ، اس حوالے سے پاکستان کو سخت تحفظات
بھی تھے کیونکہ بھارت ، پاکستان کے خلاف ایف اے ٹی ایف میں لابنگ بھی کرچکا
ہے ، تاہم پاکستان نے توقع ظاہر کی ہے بھارت اوردیگر ممالک میرٹ کی بنیادوں
پر فیصلہ کریں گے ۔ گزشتہ سال جون میں جب پاکستان کو 'گرے لسٹ' میں شامل
کیا گیا تو اس وقت پاکستان میں نگران حکومت قائم تھی۔پاکستانی حکام نے
عالمی حکام کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے تمام اہداف پر
عمل پیرا ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین بین الاقوامی معیار کے مطابق کیے
گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے دیئے اہداف پر
پاکستان نے اہم پیش رفت کی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردوں کی فنڈنگ کی بھرپور
روک تھام کی۔ دہشتگردوں کی فنڈنگ روکنے کے باعث دہشتگردی کے واقعات کم
ہوئے۔پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے ایک مربوط
لائحہ عمل کو اختیار کیا ہے۔ایف اے ٹی ایف کا سب سے بڑا مطالبہ دہشت گردی
میں ملوث مبینہ 1267 افراد اور 1373 اقوام متحدہ کی جانب سے مبینہ دہشت گرد
قرار دی گئیں شخصیات ان مالیاتی پابندیاں عائد کئے جانا ہے، اس کے علاوہ
اُن اداروں اور افراد پر بھی جو اِن شخصیات کے لیے مالی امداد جمع کرنے
سمیت رقم یا دیگر سامان منتقل کرتے ہیں ان کو ہدف بنا کر (جن کو جامع قسم
کی قانونی حمایت حاصل ہو) ان کے خلاف اقدامات کرنے کے مطالبات ہیں، مزید یہ
کہ ایسی شخصیات اور افراد کے منقولہ و غیر منقولہ اثاثے منجمد کیے جائیں
اور انھیں کسی بھی قسم کے فنڈ یا مالیاتی خدمت حاصل کرنے سے محروم کیا
جائے۔ پاکستان نے اُن تمام جماعتوں و کالعدم تنظیموں کے اکاؤنٹ منجمد کئے
ان کی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کرنا شروع کی ہوئی ہیں ۔ مشکوک ادارے
حکومتی تحویل میں بھی لئے ہیں اور عالمی قوانین کے تحت اُن جماعتوں کے خلاف
بھی کاروائی کی اور ان کے منقولہ و غیر منقولہ اثاثے بھی منجمد کئے ہیں۔
پاکستان نے عالمی قوانین کا احترام کو مد نظر رکھا اور ایسی کالعدم تنظیموں
کو کام سے روکا اور ان کے سربراہوں کو گرفتار بھی کیا۔ ان اراکین کے خلاف
مقدمات بنائے،827کیس رجسٹرڈ کئے ہیں۔ اب پاکستا نی عدالتوں میں دائرمقدمات
چل رہے ہیں۔دسزائیں دینے کے عمل میں 403فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سمبر میں
پاکستان نے دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کے لیے ملک بھر میں قومی بچت
اسکمیوں میں سرمایہ کاری کرنے والی کالعدم تنظیموں اور ان سے وابستہ افراد
کی نشان دہی کا فیصلہ کیا تھا۔ اب قومی بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کرنے
والے 40 لاکھ پاکستانی افراد کی چھان بین کی جا رہی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکا ، ایران کشیدگی کی کمی کے
لئے سہ ملکی غیر ملکی دورے میں امریکا میں اپنے ہم منصب سے بھی ملاقات کی
تھی ۔ جس میں خطے میں قیام امن ، افغان مفاہمتی عمل سمیت بیجنگ میں ورکنگ
گروپ اجلاس میں تعاون کے حوالے سے مذاکرات کئے گئے ۔ پاکستان نے اپنے موقف
کو دہرایا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ ’امریکہ کا نمائندہ اس اجلاس میں پاکستان
کے لیے سہولت پیدا کرے گا۔‘امریکی سکیریٹری خارجہ مائیک پومپیو سے اپنی
حالیہ ملاقات کو بہت حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
نے کہا کہ ان توقعات کی ’بڑی ٹھوس وجوہات‘ بھی ہیں۔ ان کے مطابق ’پاکستان
نے گذشتہ دس ماہ میں ایسے قابل ذکر اقدامات اٹھائے ہیں جو گذشتہ دس سال میں
بھی ممکن نہیں ہو سکے تھے۔‘شاہ محمود قریشی ان اقدامات کو یقینی بنانے کے
حوالے سے وزارت خزانہ کی کارکردگی کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہیں۔پاکستانی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حالیہ دورہ امریکا میں حکومت کی جانب سے زور
دیا گیا کہ پاکستا ن نے امریکا کے اہداف کی تکمیل کے لئے اہم سہولت کار کا
کردار سرانجام دیا ہے ، بدلے میں امریکا کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے ۔
بھارت اور سی لنکا کے بعد پاکستان کے دورے پرامریکی نائب وزیر خارجہ ایلس
ویلز بھی آئیں ۔ ذرائع کے مطابق چار روزہ دورے میں امریکی نائب وزیر خارجہ
ایلس ویلز اہم اعلیٰ حکام سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی
معاملات میں تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت پر اتفاق رائے پایا گیا ۔
پاکستانی وزیر اعظم ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کی نمائندگی
کررہے ہیں کہ پاکستان اس وقت امن و امان کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں کے
لئے ایک بہترین مملکت کی صورت میں موجود ہے ، سائیڈ لائن میں وزیر اعظم کی
امریکی صدر کے ساتھ خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی اور امریکی صدر نے ایک
مرتبہ پھر مقبوضہ کشمیر تنازع پر ثالثی کی پیش کش کو دوہرایا۔ امریکی صدر
نے وزیراعظم کو اپنا دوست قرار دیا اور پاک۔ امریکا تعلقات کو تاریخی قرار
دیاکہ پہلی مرتبہ پاکستان۔ امریکا تعلقات بہترین سطح پر ہیں۔ امریکی نائب
وزیر خارجہ ایلس ویلز نے سی پیک پر اپنا پُرانا متنازع بیان دوہرایا جیسے
پاکستان و چین نے مسترد کردیا ، چین نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا
کو پاکستا ن کی فکر ہے تو کیش لائے۔ ایلس ویلز بھارتی جارحیت کے خلاف
پاکستان کے موقف کی حمایت اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی
خلاف ورزیوں پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کرتی رہی ہیں۔ یہا ں یہ امر بھی
قابل ذکر ہے کہ خاص طور پر وزیر اعظمکی جانب سے امر کی توقع کی جا رہی ہے
کہ خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان کے مثبت کردار کے سبب امریکی تعاون
پاکستان کے لئے مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔ امریکی تعاون سے پاکستان کا گرے
لسٹ سے نکلنے کی راہ ہموارہوسکتی ہے ، گو کہ امریکا کے موقف میں خاص لچک
نظر نہیں آتی تاہم پاکستان نے جس طرح امریکا کو احساس دلایا ہے کہ گذشتہ
حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت نے امریکا کے لئے سہولت کاری میں اہم
کردار ادا کیا ہے اور اس حوالے سے اہم اقدامات کئے ہوئے ہیں۔تاہم پاکستان
میں سرکاری حلقے اس بات کی امید کر رہے ہیں کہ اس دورے سے پاکستان کے لیے
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا راستہ ہموار ہو گا اور یہ کہ
پاکستانی حکام امریکی عہدیدار کو قائل کریں گے کہ امریکا اس لسٹ میں سے
پاکستان کو نکلوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ اس خواہش کا اظہار وزیر
اعظم اوروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کیا، جس میں انہوں نے امریکا کو
یاد دلایا کہ پاکستان نے افغانستان کے استحکام کے لیے بھرپور تعاون کیا اور
طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے کر آیا۔
ایلس ویلز کے موجودہ دورے کا مقصد پاکستانی حکام سے خطے کی صورت حال،
افغانستان میں قیام امن کی کوششیں اور کشمیر کی صورت حال صورت حال پر گفتگو
کرنا رہا ، جس میں پاکستان کی جانب سے اعادہ کیا گیا کہ پاکستان افغان امن
عمل میں احمایت اور پاک افغان تعلقات میں مثبت پیش رفت جاری رکھے گا,ان
خیالات کا اظہارپاکستان کے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے امریکہ کی معاون
نائب وزیرِ خارجہ ایلس ویلز سے اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات کے دوران
کیا۔پاکستان کی جانب سے ان خیالات کا اظہار ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب قطر
کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت جاری ہے
اور فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
دوحہ قطر میں افغان طالبان اور امریکی وفد کے درمیان افغان مفاہمتی عمل کے
حوالے سے مذاکرات کا ایک نیا 20جنوری سے شروع ہوچکا ہے ، زلمے خلیل زاد ،
افغان طالبان کے وفد سے افغان مفاہمتی عمل کے حوالے سے جنگ بندی کے لئے اہم
مذاکرات میں مسودے پر عمل درآمد کے لئے اہم پیش رفت کی توقع ہے ۔ جرمنی اس
حوالے سے اپنے فارمیٹ کے مطابق چاہتا ہے کہ دونوں فریقین جنگ بندی کے ساتھ
بین الافغان کانفرنس جرمنی میں منعقد کریں اور نیٹو افواج کی افغانستان سے
انخلا کے بعد افغانستان کے نظام و انصرام پر اتفاق رائے پیدا کریں ، اس وقت
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان جرمنی فارمیٹ کے مطابق مذاکرات کا دور
چل رہا ہے جس میں روس ،چین، ایران اور پاکستان اہم کردار ادا کررہے ہیں ،
امریکا ، کابل انتظامیہ اوربھارت کے علاوہ متحدہ عرب امارات و سعودی عرب
مجوزہ معاہدے پر اپے تحفظات رکھتے ہیں ، دیگر عالمی ادارے بھی اس ضرورت پر
زور دے رہے ہیں کہ افغان طالبان و کابل انتظامیہ کے درمیان مکمل جنگ بندی
کا اعلان کردیا جائے تاکہ امریکی افواج کا ٹارگٹ پورا ہوسکے ۔صدر ٹرمپ نے
کہا کہ اُس وقت تک بامعنی مذاکرات نہیں ہو سکتے ہیں جب تک طالبان واضح طور
پر تشدد میں کمی نہیں کرتے۔بیان کے مطابق صدر ٹرمپ نے طالبان کی طرف سے
تشدد میں واضح اور پائیدار کمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے
افغانستان کے مستقبل سے متعلق بامعنی مذاکرات میں مدد ملے گی۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب قطر کے
دارالحکومت دوحہ مین امریکہ اور طالبان کی مذاکراتی وفد کے درمیان بات چیت
جاری ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ بات چیت اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔
اس وقت فریقین کے درمیان مسودے پر دستخط کے لئے حتمی مرحلے پر مذاکرات کئے
جا رہے ہیں۔ افغان طالبان نے امریکا کو عارضی جنگ بندی کے لئے پیش کش میں
دوسری جانب سے بھی عمل درآمد ہونے پر ضمانت مانگی ہے۔ اسی حوالے سے دوحہ
میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری ہے۔ پاکستان نے خطے کے نازک
ترین مسئلے کو حل کرنے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے اور مملکت کی خواہش ہے
کہ جس طرح پاکستان ذمے دار کردار ادا کرکے خطے میں امن کے قیام کے لئے کوشش
کررہا ہے ، اسی طرح عالمی قوتوں کو مسئلہ کشمیر سمیت بھارتی جارحیت اور
لائن آف کنٹرول پر دراندزی پر بھی مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔
پاکستان منی لانڈرنگ و دہشت گردی کی معاونت کے الزامات پر عالمی فورمز پر
اپنی پیش رفت کو احسن انداز میں جائزے کے لئے رکھ چکا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے کردار و اہمیت کو تسلیم کیا جائے اور گرے
لسٹ سے خاتمے کے علاوہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے عالمی قوتیں
تعاون کریں ، خاص طور پر امریکا کو اپنا رویہ درست کرنے کی ضرورت ہے ،
پاکستان اسی حوالے سے بارہا امریکی اعلیٰ حکام کو باور کرارہا ہے کہ اس نے
اپنے حصے کا کردار بخوبی ادا کیا ہے اب امریکا و دیگر عالمی اداروں کو
پاکستانی معیشت کی بحالی و مدد کے لئے تعاون کرنا چاہے ، شاہ محمود قریشی
نے بڑا صائب بیان دے کر امریکا سے واضح طور پر یہی دریافت کیا ہے کہ امریکا
، پاکستان کی کوششوں کے جواب ایسی کیا اسٹریجی رکھتا ہے کہ وہ ایف اے ٹی
ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکالنے کے لئے کیا کرسکتا ہے ۔ اگر
امریکا ماضی کی طرح پاکستان پر دباؤ برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کی حمایت
نہیں کرتا تو اس سے پاکستان کی کاوشوں اورقربانیوں کو نقصان پہنچے گا ۔
پاکستان یکطرفہ طور پر جتناکچھ کرسکتا ہے وہ کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔ تاہم
ماضی میں ہونے والے کچھ ایسے معاملات ، جس پر امریکا یا بھارت تحفظات کا
اظہار کرتے ہیں تو ، اس کا ذمے دار واحد پاکستان ہی نہیں ہے بلکہ امریکا
اور بھارت کی پالیسیوں کی سبب ایسے حالات پیدا ہوئے اور جس کا مکمل نزلہ
پاکستان پر گرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
پاکستان ، خطے میں قیام امن ، دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں کے لئے سنجیدہ
کاروائیاں کررہا ہے ، لیکن دہشت گردی کا معاملہ صرف ایک ملک سے نہیں جڑا ۔
جس طرح منی لانڈرنگ کے حوالے سے پاکستانی موقف دنیا بھر میں سراہا گیا کہ
اگر ترقی یافتہ ممالک منی لانڈرنگ کرنے والوں کو قانونی تحفظ نہ دیں تو
ترقی پذیر ممالک کی معیشت متاثر نہ ہو ۔ پراکسی وار عالمی قوتوں کی اجارہ
داری کرنے کے لئے لڑی جاتی ہے ، جہاں جہاں عالمی قوتوں کے مفادات ہیں وہاں
پراکسی وار کے پس پشت عالمی قوتوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو قیام امن کے لئے
مشترکہ طور پر ایک صفحے پر ہونا چاہے ۔ بھارت ، ایران ، افغانستان خطے میں
قیام امن کے لئے اہم کردار کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ اتفاق ہے کہ تینوں
ممالک کو داخلی امور میں امن و اما ن کے مسائل کا سامنا ہے ۔ حالات میں اگر
صرف پاکستان کے داخلی معاملات کو صرف نظر کیا جائے گا تو اس سے خطے میں
دہشت گردی کے خلاف عالمی طاقتوں کے مفادات پورے نہیں ہوسکتے ، ضروری یہی ہے
کہ ایران ، بھارت افغانستا ن اور پاکستان کے داخلی معاملات کے اصل محرکات
کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔رواں ہفتے عالمی پس منظر میں تین اہم
معاملات ، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہے ۔
پاکستان ، عالمی برداری کو باور کرانے میں کامیاب ہورہا ہے کہ وہ خطے میں
امن کے قیام کے لئے انتہائی سنجیدہ کوشش کررہا ہے ۔پاکستان کا مقصد خطے میں
پائدار امن ہے ۔ |