کیا کوئی دہشت گرد رنگے ہاتھوں گرفتار ہوجانے پر یہ کہہ
سکتا ہے کہ ’’صاحب یہ گیم ہے ۔ آپ گیم خراب مت کیجیے ‘‘ ۔ آپ کو یقین
نہیں آئے گا مگر کرنا پڑے گا کہ اپنی گرفتاری کے وقت دیویندرسنگھ نے بڑے
اعتماد کے ساتھ کسی معذرت یا شرمندگی کے بجائے ڈھٹائی کے ساتھ یہی بات کہی
تھی ۔ یہ اس سرکاری لاڈ پیار کا نتیجہ تھا جس پر وہ برسوں سے پرورش پا رہا
تھا لیکن جب اس جملے کے جواب میں اس کے منہ پر اتل گوئیل نامی فرض شناس
افسر کا زناّٹے دار تھپڑ پڑا تو اس کے ہوش ٹھکانے آگئے ۔ دیویندر سنگھ کی
سمجھ میں آگیا کہ گیم پلٹ گیا ہے اور بازی الٹ چکی ہے۔ دیویندر سنگھ کے
تار کشمیر کے مختلف اہم واقعات سے ناقابلِ یقین حد تک جڑے ہوئے ہیں ۔ وہ ہر
اہم موڑ پر ہنستا مسکراتا نظر آتا ہے۔
دیویندر کشمیر کے علاقہ ترال کا رہنے والا ہے۔ جی ہاں وہی ترال جس نے دور
جدید میں علٰحیدگی پسندی کی علامت سمجھے جانے والے برہان وانی کو دنیا کے
سامنے پیش کیا۔ بعید نہیں کہ تفتیش کے بعد دیویندر کا کوئی تار برہان سے
بھی جڑ جائے ۔برہان وانی کی برسی کے بعد پلوامہ کے جس حملے نے انتخابی مہم
سے رافیل کو غائب کرکے وہاں ائیر اسٹرایئک کو نصب کردیا ۔ جس کے سبب
وزیراعظم کو نریندر مودی کی اکھڑتی سانسوں کو جس وقت نئی زندگی ملی تو
دیویندر وہاں بھی موجود تھا۔ پلوامہ حملے کے وقت وہاں کا تھانہ انچارج کوئی
اور نہیں یہی سرکاری ایوارڈ یافتہ دیویندر سنگھ تھا۔ دفع ۳۷۰ کو ختم کرنے
کے بعد جب وادیٔ کشمیر کی ناکہ بندی کردی گئی تو سرینگر ہوائی اڈے کو غیر
معمولی اہمیت حاصل ہوگئی ۔آزمائش کی اس نازک گھڑ ی میں دیویندر سنگھ کو
وہاں تعینات کردیا گیا تھا اور اب امریکی سفیر سمیت جب غیر ملکی ارکان ِ
پارلیمان کا وفد کشمیر پہنچا تو ان کا استقبال کرنے کے لیے اور انہیں
سرینگر کی سیر کرانے کی ذمہ داری بھی کسی اور کو نہیں بلکہ دیویندر سنگھ کو
سونپی گئی۔
ان واقعات کو دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس سرکار سب بڑا سنکٹ وموچک
اگرکوئی تھا تو وہ دیویندر سنگھ ہی تھا ۔ اسی لیے وہ دہشت گردوں کے ساتھ
سفر کرنے کو ایک کھیل سمجھتا تھا ۔ سچ تو یہ ہے کشمیر کی عوام کے ساتھ ایک
نہایت ہی خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے۔ دیویندر سنگھ کو شک کے دائرے میں
کھڑا کرنے کے لیے ایوان پارلیمان پر حملے کی سزا پانے والے افضل گرو کا جیل
سے تحریر کردہ ایک خط کافی تھا ۔ اس میں افضل نے لکھا تھا کہ اگر وہ رہا
بھی ہوجائے تو دیویندر اس کو پریشان کرتا رہے گا۔ افضل گرو نے الزام لگایا
تھا کہ دیویندر نے اس کو ٹارچر کرنے کے بعد اس سے اسیّ ہزار روپئے اور
اسکوٹر لے لیے تھے لیکن اس کے بعد پیچھا نہیں چھوڑا۔ اسی نے افضل سے محمد
نامی دہشت گرد کو دہلی پہنچانے کی خدمت حاصل کی تھی اور حکم دیا تھا کہ وہ
محمد کو کرائے پر مکان حاصل کرنے میں تعاون کرے اور پرانی کار دلائے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں ہے ایک دہشت گرد کا تعاون کرنے والے افضل گرو کو تو
پھانسی پر چڑھا دیا جائے اور اس کو اس کام پر لگانے کے الزام کو نظر انداز
کرکے تفتیش تک نہ کی جائے۔ یہ بھی حسنِ اتفاق ہے واجپائی کی سرکار نے
دیویندر سنگھ کی جانب سے اپنی آنکھیں موند لیں اور مودی سرکار نے آنکھیں
کھول کر اسے قومی اعزاز سے نواز دیا۔ دیویندر سنگھ کو این آئی اے کے حوالے
کرنے پر راہل گاندھی نے سرکار کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تو دیویندر کو
چپ کرنے (پردہ داری) کا بہترین طریقہ ہے۔ اس لیے کہ این آئی کا سربراہ بھی
اتفاق سےدوسرا مودی ہے ۔ این آئی اے کے مودی کا اسم گرامی وائی کے مودی ہے
اور وہ بھی دیویندر سنگھ سے کم چمتکاری نہیں ہے۔ نریندر مودی جب گجرات میں
وزیر اعلیٰ تھے اور ان کے پرانے دوست ہرین پنڈیا کا قتل ہوگیا اس کی تفتیش
کا کام انہوں نے ایسی صفائی سے کیا کہ وزیراعلیٰ پر اس کی کوئی آنچ تک
نہیں آئی ۔ اس کا انعام انہیں یہ ملا کہ نریندر مودی جب ترقی کرکے دہلی
آئے تو وائی کے مودی کو بھی اپنے ساتھ لائے اس لیے کہ ایسے دست راست کی
ضرورت کسی بھی وقت پڑ سکتی ہے۔
ہرین پنڈیا گجرات کے وزیرداخلہ تھے ۔ انہوں گجرات گسادات کے بعد ناناوتی
کمیشن کے سامنے گواہی دے کر حقائق رکھے تھے اور نہایت مشکوک حالات میں
انہیں قتل کردیا گیا۔ ہرین پنڈیا کا تعلق ایک سنگھی گھرانے سے تھا ۔ ان کے
والدوٹھل بھائی پنڈیا آر ایس ایس کے دیرینہ ہمنوا تھے ۔ہرین پنڈیا کی
تعزیتی نشست میں وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی دہلی سے آئے۔ انڈوانی نے وٹھل
بھائی کو اسٹیج پر بلانے کے لیے بہت اصرار کیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر
انکار کردیا تھا کہ میں اپنے بیٹے کے قاتل کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتا ہوں ؟
گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نریندر مودی اس وقت اسٹیج پر براجمان تھے۔ وٹھل
بھائی چاہتے تھے کہ نریندر مودی پر مقدمہ چلے لیکن وائی کے مودی نےانہیں
تمام الزامات سے بچا لیا ۔ اس رویہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ سنگھ سے ناراض ہوکر
وٹھل بھائی نے کانگریس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑالیکن ناکام رہے۔ 2011 میں اپنے
بیٹے کے لیے انصاف کی دہائی دینے والا 91سالہ باپ اپنے بیٹے کے قاتل سزا
دلانے کی حسرت لے کر اس دارِ فانی سے رخصت ہوگیا۔
راہل گاندھی کے ذریعہ دیویندر کی بابت لگائے جانے والے الزام میں دم ہے
کیونکہ اس کو جب گرفتار کیا گیا تو یہ خبر آئی کہ وہ دودہشت گردوں کو
مبینہ طور پر یوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں دھماکہ کروانے کے لیے اپنے
ساتھ لے جارہا تھا ۔ جب یہ معاملہ این آئی کے پاس گیا تو بیانیہ بدل گیا۔
اب کہا جارہا ہے کہ عرفان نامی حزب المجاہدین کے دہشت گرد کو پاکستان کا
سفر کر وانے کے لیے دیویندر سنگھ بابو نامی وکیل کو جموں لے جارہا تھا ۔ اس
طرح پہلے تودو دہشت گرد تھے لیکن اب ان میں سے ایک کم ہوکروکیل بن گیا۔ اس
کے علاوہ پہلے جو معاملہ دھماکے کا تھا اب سفر میں بدل گیا ۔ ۔ سوال یہ بھی
ہے کہ اگر کسی کو پاکستان بھیجنا ہو تو یہ کام وادی سے آسان اور جموں سے
مشکل ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ پاکستان جاتے ہوئے
ہینڈ گرینیڈس اور بندوق کا کیا کام ؟ یہ سامان یہاں سے وہاں جاتا ہے یا
وہاں سے یہاں آتا ہے ؟ ایسے میں راہل گاندھی کا مطالبہ کہ دیویندر کے ساتھ
دہشت گرد جیسا سلوک کرکے اسے ۶ ماہ کے اندر سزا دی جائے مناسب معلوم ہوتا
ہے لیکن مودی سرکار سے اس کی توقع کم ہے۔ بی جے پی کو سمجھ لینا چاہیے کہ
دہشت گردی کا خاتمہ آئین کی دفع ۳۷۰ کو ختم کرنےکے بعد مختلف قسم کی
پابندیاں لگانے سے نہیں بلکہ دیویندر جیسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دینے سے
ہوگا ۔اب اس بات کی بھی تفتیش ہونی چاہیے کہ آخر دیویندر کی خاکی وردی کے
نیچے کوئی خاکی نیکر تو نہیں جو وہ اس قدر دھونس جمارہا ہے؟ اس واقعہ نے 56
انچ کے سینے کی ہوا نکال دی ہے۔خود اپنے ملک میں دیویندر جیسے لوگوں کے
آگے بے بس سرکار دوسروں کو ان کےگھر میں گھس کر کیا مارے گی؟
|