کرپٹ کون؟

تبدیلی سرکار کے اقتدار کو سترہ ماہ بیت چکے لیکن تاحال وعدۂ فردہ یا ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کا بہانہ۔ مہنگائی اور معاشی بدحالی کا عفریت قابو سے باہر، عوام کے صبر کا پیمانہ چھلکنے کو لیکن حکمرانوں کی جانب سے بہتری کی طرف کوئی ایک قدم بھی نہیں۔ اُن کا سارا زور اپوزیشن کو چور، ڈاکو اور کرپٹ ثابت کرنے پر۔ چلیں مان لیا کہ سارے سابقہ حکمران کرپٹ تھے لیکن کیا اُن کے دَور میں آٹا 70 روپے کلو اور چینی 80 روپے کلو تھی۔ کیا اشیائے خورونوش عام عوام کی پہنچ سے دوراُن کا مُنہ چڑا رہی تھیں؟۔ کیا پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی یہی قیمتیں تھیں۔ جب خود وزیرِاعظم کہیں کہ اِس تنخواہ میں میرے گھر کا چولہا نہیں جلتا تو عامیوں کا کیا حال ہوگا۔

چور، چور اور ڈاکو، ڈاکو کہنے سے آتشِ شکم کی سیری ممکن نہیں۔ قوم نے کرپشن فری پاکستان کی اُمید میں تحریکِ انصاف کو حقِ حکمرانی بخشا لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی چشم کشا رپورٹ نے سارے خواب چکناچور کر دیئے۔ وزیرِاعظم سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے ’’ماضی میں حکمرانوں نے ذاتی مفاد کے لیے اداروں کو تباہ کیا، کرپشن اور مَنی لانڈرنگ کے باعث مہنگائی بڑھی، بڑے بڑے منصوبوں میں کمیشن لی، معیشت کو مصنوعی طور پر کنٹرول کیا اور دنیا سے جھوٹے وعدے کیے‘‘۔دست بستہ عرض ہے کہ گھر کے گندے کپڑے باہر گلی میں نہیں دھوئے جاتے کہ بدنامی ہوتی ہے لیکن آپ نے تو گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہی وطیرہ اختیار کر رکھا ہے۔ جب وزیرِاعظم خود اقرار کرے کہ پاکستانی حکمرانوں نے پوری دنیا سے جھوٹے وعدے کیے تو پھر حکمرانوں پر کون اعتبار کرے گا؟۔ اﷲ آپ کو سلامت رکھے، رسمِ دنیا تو یہی کہ آپ کے بعد بھی کسی کو اقتدار نصیب ہوگا۔ کیا اُس وقت اقوامِ عالم کو آپ کا پاکستان کے بارے میں بنایا گیا امیج یاد نہیں ہوگا؟۔ ویسے اطلاعاََ عرض ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سروے رپورٹ یہ ظاہر کر رہی تھی کہ 2018ء کے مقابلے میں 2019ء میں کرپشن زیادہ ہوئی اور پاکستان 117ویں نمبر سے 120 ویں نمبر پر چلا گیا (یہ پورا سال تحریکِ انصاف اور اتحادیوں کی حکومت کا ہے جن کا نعرہ ہی کرپشن فری پاکستان ہے)۔ 2010ء سے 2018ء تک پاکستان کی ریٹنگ متواتر بہتر ہو رہی تھی۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 2019ء میں پاکستان کی ریٹنگ نیچے آگئی لیکن وزیرِاعظم کا اب بھی دعویٰ کہ اُن کی حکومت شفاف ترین۔ ڈیووس میں پاکستان بریک فاسٹ میٹ میں کاروباری شخصیات سے گفتگو اور امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا ’’میری حکومت شفاف ترین ہے۔ حکومت کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا ہے اِس لیے میں لوگوں کو کہتا ہوں کہ وہ اخبار نہ پڑھیں اور شام کو ٹی وی ٹاک شوز تو ہرگز نہ دیکھیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کرپٹ مافیا نہیں چاہتی کہ میری حکومت کامیاب ہو اِس لیے روز نئی افواہ پھیلائی جا رہی ہے‘‘۔

عرض ہے کہ کیا کرپٹ مافیا کا تعلق صرف اپوزیشن سے ہے اور سارا حکمران ٹولہ دودھ کا دُھلا؟۔ پانامہ لیکس میں تو 480 سے زائد نام تھے لیکن گھیرا تنگ ہوا صرف میاں نوازشریف کے خاندان کے گرد۔ چیئرمین نیب یوں تو ہر دوسرے، تیسرے دِن بڑھکیں لگاتے رہتے ہیں، اُنہوں نے پانامہ لیکس کے باقی ناموں پر آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب کو یہ نام نظر کیوں نہیں آتے؟۔ ویسے اگر وزیرِاعظم حقیقت سے آنکھیں چرانا بند کر دیں تو اُنہیں اپنے پہلو میں ایسے کئی لوگ نظر آجائیں گے۔ اِس لیے شفاف ترین حکومت کی ’’بڑھک‘‘ تو رہنے ہی دیں۔ ویسے بھی شفافیت کابھانڈا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بیچ چوراہے پھوڑ دیا۔ رہی میڈیا کی بات تو یہ وہی میڈیا ہے جس کی بدولت آپ وزیرِاعظم ہاؤس تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ماضی( خصوصاََ اکتوبر 2011ء سے 2018ء کے اوائل تک) میں میڈیا کی جتنی حمایت آپ کو حاصل رہی، اُتنی شاید تاریخِ پاکستان میں کسی کے حصّے میں نہیں آئی۔ آپ کی کرشماتی شخصیت کا بُت تراشنے والے میڈیا ہی کے ہاتھ تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ آپ کے جلسوں کی گھنٹوں بلکہ پہروں لائیو کوریج ہوا کرتی تھی۔ قوم کو ڈی چوک اسلام آباد کا وہ 126 روزہ دھرنا ابھی تک یاد ہے جب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاہمہ وقت آپ ہی کے گرد بھنبھناتا رہتا تھا۔ پھر یکایک ایسا کیا ہوا کہ آپ نے اُسی میڈیا کو قابو کرنے کے لیے ہر حربہ آزما ڈالا اور جب کچھ بَن نہ پڑا تو کہہ دیا کہ لوگ اخبار پڑھیں نہ ٹی وی ٹاک شوز دیکھیں۔

ہو سکتا ہے کہ کل کلاں آپ یہ نادرشاہی حکم بھی صادر فرما دیں کہ لوگ ساڑھے تین سال تک اپنے گھروں میں بند ہو کر بیٹھ رہیں اور اگر کوئی زندہ بچ گیا تو اُسے جنت نظیر پاکستان نظر آجائے گا۔ گویا ’’ڈاچی اودوں سُوئے گی جدوں سائیں مر گئے‘‘ (اونٹنی تب بچہ دے گی جب اُس کے مالک مر گئے)۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے ’’شرارتی‘‘اینکرز آپ کے ماضی میں دیئے گئے بیانات کے ’’ٹوٹے‘‘ چلا کر آپ کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اُن احمقوں کو یہ نہیں پتہ کہ آپ کو تو یوٹرن لے لے کر وزیرِاعظم بننے پر فخر ہے (یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ آپ کو زورآوروں نے وزیرِاعظم بنوایا یا پیرنی کی پھونکوں نے یا پھر یوٹرنوں نے)۔ آپ نے ماضی میں شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی تک نہ رکھنے کا اعلان کیا لیکن پھر اُسے ریلوے کی وزارت بھی دے دی۔ چودھری برادران کو چور اور ڈاکو کہااور پھر چودھری پرویزالٰہی کو سپیکر پنجاب اسمبلی بنا دیا۔ ایم کیو ایم کے خلاف ثبوتوں کا بیگ بھر کے عازمِ لندن ہوئے اورآجکل وہ آپ کی اتحادی، وزارتوں کے مزے لوٹتی ہوئی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خودکشی کو بہتر قرار دیا اور پھر اُسی کے آگے زانوئے تلمذتہ کر دیا۔ 100 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کا اعلان کرکے یہ کہہ دیا ’’قوم میں صبر نہیں، ابھی تو صرف 390 دن ہوئے ہیں‘‘۔ یہ کہاکہ ایسے لوگوں کا انتخاب کروں گا جو ’’دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضوکریں‘‘ لیکن پھر سارے ریس جیتنے والے ’’گھوڑے‘‘ اکٹھے کر کے کہہ دیا ’’آسمان کے فرشتے کہاں سے لاؤں، انہی سے گزارہ کرنا ہوگا‘‘ یہ آپ کے ایسے یوٹرن تھے جن کی بازگشت اب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سنائی دیتی ہے، پھر گلہ کیسا؟۔ سیانے کہتے ہیں ’’پہلے تولو، پھر بولولیکن آپ بولتے اور بے تحاشہ بولتے ہیں، تولتے کبھی نہیں۔ آپ کے فرمودات کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے کسی ایک فرمان پر بھی نہ صرف یہ کہ عمل نہیں ہوا بلکہ اُلٹ ہوا۔ اِسی لیے اب ’’الجھاؤہے زمیں سے، جھگڑا ہے آسماں سے‘‘۔

بات کرپشن سے چلی تھی، نکل کسی اور طرف گئی، اب پلٹتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر ’’ماسی مصیبتے‘‘ کی پریس کانفرنس بہت دلچسپ تھی۔ اُس نے کہا ’’ایسی رپورٹ پر تو صرف قوالی ہی کی جا سکتی ہے‘‘۔ بات تو ماسی مصیبتے نے بڑی پتے کی کہی ہے، اگر وہ پسند کرے تو بڑے میاں، چھوٹے میاں اور ہمنواؤں کو بلا کر قوالی کی محفل سجا لیتے ہیں لیکن یاد رہے کہ قوال زیبِ داستاں کے لیے بات کو بڑھا دیتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قوالی سُن کے طبیعت زیادہ ’’اوازار‘‘ ہوجائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قوالی کا مشورہ دینے پر ماسی مصیبتے کو اطلاعات کی مشاورت سے ہاتھ دھونے پڑیں کیونکہ کئی تحریکیوں کی رالیں اِس وزارت پر ٹپک رہی ہیں۔ اِس لیے اگر اپوزیشن بغلیں بجا رہی ہے تو بجانے دیں کہ اِسی میں ’’تحریکیوں‘‘ کا بھلا ہے۔

اپنی کانفرنس میں ماسی مصیبتے نے یہ بھی کہا ’’ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ غیرجانبدار نہیں۔ یہ جانبداری اور تعصب کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے‘‘۔ عرض ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا یہ سروے کسی ایک ملک نہیں، 180 ممالک کے سرویز پر مشتمل ہے جن میں پاکستان بھی ایک ہے۔ اِس رپورٹ میں آٹھ مختلف مستند بین الاقوامی سرویز سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ اِن سرویز میں سے 5 نے پاکستان کی منفی ریٹنگ کی ہے۔ کیا یہ سارے سرویز ہی غلط ہیں؟۔ ویسے بھی اگر پاکستان کے اندرونی حالات کا جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ یہ رپورٹ غلط نہیں۔ وفاقی وزارتِ خزانہ نے قومی اسمبلی میں جو رپورٹ پیش کی اُس کے مطابق مہنگائی کی شرح 15 فیصد تک پہنچ گئی۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق دیہاتوں میں مہنگائی کی شرح 19 فیصد ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان میں آئندہ سال ترقی کی شرح 3.1 فیصد سے کم ہو کر 2.1 فیصد رہ جائے گی۔ نوازلیگ کے ’’کرپٹ‘‘ دَورِ حکومت میں ترقی کی شرح 5.8 فیصد اور مہنگائی کی شرح 3.9 فیصد تھی۔ ۔۔۔۔ اِس سے عیاں ہے کہ پاکستان میں خوشحالی کا تصور ابھی خواب وخیال ہی رہے گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کرپٹ کون، وہ جن کے دَور میں لوگوں کو پیٹ بھر کے کھانا نصیب ہوتا تھا یا وہ جن کے صرف ڈیڑھ سالہ دَورِ حکومت میں قوم نانِ جویں کی محتاج ہو گئی۔ وزیرِاعظم تو کہا کرتے تھے کہ اگر مہنگائی ہو تو سمجھ لیں کہ حکمران چور ہیں۔ موجودہ دَور میں تو مہنگائی اپنی ساری حدیں توڑ چکی، پھر کرپٹ کون اور چور کون۔
 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 864 Articles with 557611 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More