دنیائے تصوف کی نامور شخصیت جن کی تصنیف مثنوی نے شہرت
دوام پائی مولانا محمد جلال الدین رومیؒ کا نام ــ؛محمد؛ اور لقب جلال
الدین تھا۔ آپ نے مولانا روم ؒ کے نام سے شہرت پائی۔ آپ کے والد کا نام بھی
؛محمد؛ اور لقب بہاؤالدین تھا۔ حضرت محمد بہاؤالدین ؒ نابغۂ روزگار عالم
دین تھے۔ حضرت محمد بہاؤالدینؒ کے حلقہ ارادت میں امام فخرالدین رازی اور
محمد خوارزم شاہؒ بھی شامل تھے۔ مولانا محمد جلال الدین رومیؒ کا سلسلہ نسب
چند واسطوں کے ذریعے حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے جا ملتا ہے۔ آپؒ604ھ میں
بلخ میں پیدا ہوئے۔ حضرت محمد بہاؤالدینؒ کی ملاقات حضرت خواجہ فرید الدین
عطارؒ سے بھی ہوئی تھی۔ جس وقت حضرت محمد بہاؤالدینؒ کی ملاقات حضرت خواجہ
فرید الدین عطارؒ سے ہوئی اس وقت مولانا رومؒ بھی آپ ؒ کے ھمراہ تھے جن کی
عمر اس وقت صرف چھ سال تھی۔ حضرت خواجہ فریدالدین عطارؒ نے مولانا روم ؒ کو
ددیکھ کر حضرت محمد بہاؤالدین ؒ کو تاکید کی کہ وہ اپنے صاحبزادے کی پرورش
میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتیں اور اسے دینی علوم سے بہرہ ور فرمائیں۔
حضرت محمد بہاؤالدینؒ کی خصوصی توجہ سے مولانا رومؒ نے دینی علوم اور تمام
مروجہ دینی کتب پر عبور حاصل کیا۔مولانا رومؒ کی عمر مبارک ابھی صرف اٹھارہ
برس ہی تھی کہ آپ ؒ کی شہرت ہر جگہ پھیلتی چلی گئی۔ اس دوران شاہ روم
علاؤالدین کیقباد نے آپؒ کی شہرت سن کر آپؒ کو روم آنے کی دعوت دی۔آپ ؒ
علاؤالدین کیقباد کی دعوت پر روم کے شہر قونیہ تشریف لے گئے اور وہیں قیام
پذیر ہوئے۔
مولانا محمد جلال الدین رومیؒ ان بزرگ ہستیوں میں سے ہیں جن کا قلب غم امت
سے فیضیاب ہے اور وصال حق کے لئے بے تاب۔ آپؒ کا دور قتل و غارت گری کا دور
تھا۔آپؒ ابھی گیارہ برس کے ہی تھے تا تاریوں کا فتنہ شروع ہوا۔ آپؒ کے دور
میں نوے لاکھ آدمیوں کو قتل کیا گیا اور مذہبی منافرت بہت زیادہ تھی ۔اس
دور میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی حضرت خواجہ فرید الدین عطار حضرت شیخ
محی الدین عربی اور حضرت بو علی قلندر جیسے نا بغہ روزگار اولیا اﷲ پیدا
ہوے ۔
مولانا محمد جلا ل الدین رومی ؒ کی شادی اٹھارہ برس کی عمر گوہر خاتون سے
ہوئی گوہر خاتون سمر قند کے ایک با اثر شخص کی بیٹی تھیں۔ ان سے آپ کے دو
بیٹے تولد ہوے ۔
مولانا محمد جلا ل الدین رومی کی خدمت میں بیشمار علماء دین اور طلبا حاضر
ہوتے اور آپ ؒ سے علمی مسائل دریافت فرماتے تھے ۔آپؒ نے قونیہ میں ایک جا
مع مسجد کی بنیاد رکھی ا ٓپؒ کو روحانی تعلق حضرت سید برہان الدین ؒ سے
حاصل تھا آپؒ جب تقریر شروع کرتے تھے تو ہزروں لوگوں کا مجمع جمع ہو جاتا
تھا ۔لوگ آپؒ کو تقاریر کو تحریر کرتے اور اس کی کتابت کرواتے آپؒ کی مسجد
کی ایک خاصیت اس مسجد سے ملحق مکتب تھا جہاں بیشمار علمی کتابیں موجود تھیں
۔آپؒ کے مکتب میں روزانہ بیشمار کتب آتیں اور بیشمار کتب علمائے کرام لیکر
بھی جاتے تھے۔
مولانا روم کی زندگی کا دوسرا دَور حضرت شمس تبریز کی ملاقات کے بعد شروع
ہوتا ہے۔ اس بارہ میں متضاد روایات ہیں لیکن ایک حقیقت ہے کہ شمس تبریز کی
ملاقات نے مولانا کی زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ
لکھتا ہے کہ مولانا اپنے مدرسہ میں درس د یا کرتے تھے۔ ایک دن ایک شخص حلوہ
کی قاشیں بیچتا ہوا مدرسے میں آیا۔ مولانا نے ایک قاش لی اور تناول
فرمائی۔ پھر مولانا کی یہ حالت تھی کہ کچھ بولتے چالتے نہ تھے جب کبھی زبان
کھلتی تو شعر پڑھتے تھے۔ ان کے شا گرد ان شعروں کو لکھ لیا کرتے تھے یہی
اشعار تھے جو جمع ہوکر مثنوی بن گئے۔
شمس تبریز کے والد کا نا م علاؤالدین تھا۔ شمس نے علم ظاہری کی تحصیل کی
پھر بابا کمال الد ین جندی کے مرید ہو گئے۔ وہ سوداگروں کی طرح شہروں کی
سیاحت کر تے۔ جس سرائے میں اترتے دروازہ بند کرکے مرا قبے میں مصروف ہوجا
تے۔ معا ش کا ذریعہ ازاربند فروخت کرنا تھا۔ ایک دفعہ دعا کی کہ ایسا بندہ
خاص ملے جو میری صحبت کا متحمل ہو سکتا ہو۔ عالم غیب سے اشارہ ہوا کہ روم
جاؤ۔ اسی وقت چل پڑے اور قونیہ پہنچے۔ مولانا کو ان کے آنے کا حال معلوم
ہوا تو ملاقات کو چلے۔ دونوں بزرگوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور دیر تک زبان
حال سے باتیں ہو تی رہیں۔ شمس نے مولانا سے پوچھا کہ حضرت بایزید بسطامی کے
ان دو واقعات میں کیونکر تطبیق ہو سکتی ہے کہ ایک طرف تو یہ حال تھا کہ
تمام عمر اس خیال سے خربوزہ نہیں کھایا کہ معلوم نہیں کہ آنحضرتﷺنے اس کو
کس طرح کھایا تھا۔ دوسری طرف اپنی نسبت یوں فرماتے ہیں کہ سبحانی مااعظم
شانی (یعنی اللہ اکبر میری شان کس قدر بڑھی ہوئی ہے) حالانکہ رسول کریم ﷺ
جلالت شان کے باوجود فرمایا کرتے تھے کہ میں دن بھر میں ستر دفعہ استغفار
کرتا ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ بایزید اگر چہ بہت پایہ کے بزرگ تھے لیکن
مقام ولایت میں وہ ایک خاص درجہ پر ٹھہر گئے تھے اور اسی درجہ کی عظمت کے
اثر سے ان کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے تھے۔ بخلاف اس کے جناب رسول ﷺ
مناظر تقرب میں برابر ایک پایہ سے دوسرے پایہ پر چڑھتے جاتے تھے۔ اس لئے جب
بلند پائے پر پہنچتے تھے تو سابقہ پایہ اس قدر پست نظر آتا تھا کہ اس سے
استغفار کرتے تھے۔
|