"عظیم فلسطین میرے لیے ضرور حاصل کرنا،میں نے اپنے دل
کاخون اپنے یہودی بھائیوں کے عظیم فلسطین کے لیے دیا ہے۔میری خواہش ہے کہ
فی الحال مجھے میرے باپ کے ساتھ(ویانا )میں دفن کیا جائے ،لیکن جب یہودی
اپنا الگ ملک حاصل کرلیں تو مجھے اس عظیم ملک (فلسطین)میں دفنا یاجائے،یہ
وصیت ہے اس شخص کی جس کوجدیدصیہونیت کاباپ کہاجاتاہے ،جس نے یہودیوں کے لیے
ایک الگ ملک حاصل کرکے دنیاپرپریہودیوں کی حکمرانی کامنصوبہ بنایا ہرزل کے
مرنے کے بعد یہودیوں نے صرف 44سال بعد فلسطین پرقبضہ کرکے اسرائیل کے نام
سے الگ ملک بنالیاحالانکہ یہ ہرزل دو مرتبہ خلافت عثمانیہ کے فرماں روا
خلفیہ عبدالحمید ثانی کے پاس گیا کہ یہودیوں کو فلسطین میں رہنے کی اجازت
دی جائے لیکن خلیفہ نے اجازت نہیں دی،،تھیوڈور ہرزل انیسویں صدی کا متنازع
کردارجو1904میں مرگیا مگریہودیوں نے اس کی وصیت کوعملی جامہ پہناتے ہوئے ،
1949میں اس کی باقیات کو ویاناسے لاکرالقدس کے قریب ایک پہاڑ پر دفنادیا۔
امریکی صدرڈونلڈٹرمپ اوراسرائیل نے ہرزل کی کوششوں کوعملی جامہ پہناتے ہوئے
مسلمانوں کاقبلہ اول یہودیوں کے حوالے کیاہے اورفلسطین کے حوالے سے
دوریاستی امن فارمولہ پیش کیاہے یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوگیا بلکہ اس کے
پیچھے پوری ایک داستان ہے ایک منصوبہ ہے امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے
6دسمبر2017کواعلان کیاتھا کہ وہ اپناسفارتخانہ بیت المقدس منتقل کریں گے
چنانچہ 14مئی 2018 کوجب بیت المقدس پر اسرائیلی غاصب یہودیوں کے قبضے کے
70سال مکمل ہورہے تھے تواسی دن امریکہ نے اپناسفارتخانہ تل ابیب سے بیت
المقدس منتقل کرکے یہ بتایاکہ وہ اپنے منصوبے میں کتنے سنجیدہ ہیں ۔
آج اگرچہ ٹرمپ نے اس منصوبے کااعلان کیاہے مگراس دوران امریکہ اوراسرائیل
نے مسلمان ممالک خاص کرکے عرب ممالک کوکمزورکرنے ،انہیں توڑنے اوروہاں
کمزورحکومتیں بنانے کی پوری منصوبہ بندی کی ہے تاکہ گریٹراسرائیل کی راہ
ہموارہوسکے چنانچہ 1948 میں فلسطین کے محدود علاقے پر قبضہ کرکے اسرائیل
قائم کیاگیا۔پھر1967کی عرب اسرائیل جنگ کے ذریعے،مصر ،اردن،لبنان اور شام
کے کچھ حصے پر قبضہ کرکے اسرائیلی ریاست کو توسیع دی گئی۔ 1980میں ایران
عراق جنگ کروائی گئی، بعدازاں 2003میں امریکا عراق جنگ کے ذریعے تباہی
مچائی گئی،شام میں داعش کاہواکھڑاکرکے مسلمانوں کاقتل عام کیاگیا 2011میں
عرب بہار کے ذریعے اس منصوبے کے اگلے اہداف پر کام کو بڑھایاگیا، جوتاحال
مشرق وسطی میں خانہ جنگی کی صورت جاری ہے اوراس سارے منصوبے میں بدقسمتی سے
ایران جیسے مسلم ممالک بھی امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں ۔
اس وقت پورامشرق وسطی عدم استحکام کاشکارہے ،عراق ،شام میں خانہ جنگی کی
کیفیت ہے ،سعودی عرب پریمن کاعفریت سوارہے ،ترکی کوکردستان کے چیلنج
کاسامناہے ایک چنگاری لبنان کوبھسم کرسکتی ہے ، غرضیکہ گریٹراسرائیل میں
شامل مصر،عراق،سعودی عرب،شام،اردن،لبنان ،ترکی،لیبیا اور ایران سے لے
کرخلیج عربی،خلیج عقبہ سمیت بحیرہ عرب ،افریقہ کا کچھ حصہ اورپاکستان تک
یاتو بدامنی کاراج ہے یاکمزورحکومتیں قائم ہیں ایسے میں مسلمانوں کاقبلہ
اول عملی طوپریہودیوں کے حوالے کردیاگیاہے مگرمسلمان حکمرانوں کی طرف سے اس
پرکوئی سخت ردعمل سامنے نہیں آیاہے جواس بات کی غمازی کررہاہے مسلمان ممالک
خوف اورعدم تحفظ کاشکارہیں ۔
مشرق وسطی میں صہیونی عزائم کو روکنے ،قبلہ اول کویہودیوں کے قبضے سے
آزادکروانے کے لیے پوری دنیا کے اسلامی ممالک کو متحرک ہونا ہوگاورنہ
صیہونی طاقتیں گریٹر اسرائیل کے ذریعے یہودیوں کی پوری دنیا پر حکمرانی کے
دیرینہ خواب کو بھی پایہ تکمیل تک پہچاناچاہتی ہیں ٹرمپ اورنیتن یاہوکے
اعلان کے بعدعرب دنیامیں ہلچل مچی ہے مگروقتی ابال کافی نہیں اس کے لیے
دیرپاجدوجہدکی ضرورت ہے اسی کوپیش نظررکھتے ہوئے سعودی عرب کے شاہ سلمان بن
عبدالعزیز نے محمود عباس سے گفتگو میں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے اور کہا
ہے کہ مملکت ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہوگی ۔سعودی وزیر خارجہ شہزادہ
فیصل بن فرحان نے بھی اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سعودی عرب
فلسطینی عوام اور ان کے منصفانہ نصب العین کی حمایت جاری رکھے گا۔عرب لیگ
کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط کاکہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ
اسرائیل، فلسطین تنازع کے بارے میں امریکا کے دیرینہ مؤقف سے سرمو انحراف
کا عکاس ہے۔ اس تبدیلی سے امن اور تنازع کے منصفانہ حل کے حصول میں کوئی
مدد نہیں ملے گی۔
اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش
کردہ مشرقِ اوسط امن منصوبہ مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطین میں امن
اور سلامتی فلسطینیوں سمیت تمام فریقوں کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔ او
آئی سی کا اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا، اجلاس کے دوران 57 ممبران
نے شرکت کی، اجلاس کے دوران تمام ممبران سے امریکی منصوبے کے نفاذ کے لئے
ٹرمپ انتطامیہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر زور دیااجلاس کے بعد اعلامیے میں
کہاگیاکہ امریکا کے اعلان کردہ منصوبہ کو منصفانہ اور فریقین کے اطمینان کے
مطابق ہونا چاہیے تھا۔ اوآئی سی فلسطینی عوام اور ان کی حکومت کے ساتھ آزاد
فلسطینی ریاست کے قیام،ان کی امداد اور آبرومندانہ زندگی گزارنے کے قابل
بنانے کے لیے کھڑی ہے۔ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل پر زوردیا گیا ہے کہ وہ
اس معاملے میں مداخلت کریں اور ایسی کسی بھی قرارداد کو یکسر مسترد کردیں
جس میں فلسطینی کاز کا کوئی مفاد پنہاں نہ ہو۔اس میں تنظیم کے رکن ممالک سے
کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے
ساتھ فلسطینی نصب العین کے مفاد میں قراردادوں کی تیاری کے لیے ابلاغ
کریں۔اس سے قبل عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں
ہفتے کے روز ہنگامی اجلاس ہوااجلاس کے بعداعلامیے میں کہاگیاہے کہ امریکا،
اسرائیل کی صدی کی ڈیل کو مسترد کرتے ہیں، یہ فلسطینی عوام کے کم سے کم
حقوق اور امنگوں کو پورا نہیں کرتی ہے۔عرب لیڈروں نے اس منصوبے پر عمل
درآمد کے لیے امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں فلسطینی صدر محمود عباس نے لمبی
اورپرجوش تقریر کی ہے انھوں نے اسرائیل اور امریکا کے ساتھ سکیورٹی تعاون
ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔امریکی منصوبے میں فلسطینیوں کو مقبوضہ مغربی
کنارے کے بعض حصوں پر محدود خود مختاری دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ
اسرائیل تمام یہودی بستیوں کو ریاست میں ضم کرسکے گا اور کم وبیش تمام
مشرقی القدس پر بھی اس کا کنٹرول ہوگا۔صدر محمود عباس نے تقریر میں کہا کہ
میں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فون کالز سننے سے انکار کردیا تھا اور ان
کے پیغامات کا بھی کوئی جواب نہیں ؒؒؒدیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ امریکی
صدر بعد میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ہم سے مشاورت کی تھی۔محمود عباس
نے دوٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ میں اس حل کو کبھی قبول نہیں کروں گا۔
میں اپنی تاریخ میں نہیں لکھوں گا کہ میں نے یروشلیم(بیت المقدس) کو فروخت
کردیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور مشرقی
القدس دارالحکومت کے ساتھ اپنی ریاست کے قیام کے لیے بدستور پرعزم ہیں۔ وہ
اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں امریکا کو کبھی واحد ثالث کار کے طور پر تسلیم
نہیں کریں گے۔محمود عباس کے آخری الفاظ ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی پیغام
ہیں کہ جوکشمیرپرٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پرپھولے نہیں سمارہے ہیں۔ |