پاکستان میں امن و امان کی بحالی کے لئے ریاستی
اداروں کی کوششیں رنگ لانا شروع ہوگئی ہیں ۔ انتہا پسندوں کی وجہ سے چار
دہائیوں سے زایدعرصہ مملکت دہشت گردی کی زد میں رہا ۔ سیاحت و کاروبار کے
لئے وطن ِ عزیز میں سرمایہ کاری و سیاحوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوئی
اور یورپ ، امریکا سمیت کئی ممالک کی پاکستان کے لئے سفری ہدایات اطمینان
بخش نہ رہیں۔ تاہم ریاستی اداروں کی جانب سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے
خاتمے کے لئے سنجیدہ کوششوں کے ثمرات آنا شروع ہوچکے ہیں ۔ جرمنی ، فرانس
نے اپنے شہریوں کو نظر ثانی سفری ہدایات میں پاکستان کو محفوظ ملک قرار
دینے میں پہل کی ، جس کے بعدبرطانیہ و امریکا نے بھی ٹریول ایڈوئرزی جاری
کیں۔ امریکی جریدے فوربز نے بھی پاکستان کو 2020 میں سیاحت کے لیے دنیا کے
10 پسندیدہ ملکوں میں شامل کیا۔اس کے علاوہ سیاحت اور لائف اسٹائل کے مقبول
ترین امریکی میگزین’کونڈی ناسٹ‘ نے بھی 2020 میں گھومنے پھرنے کے لیے
سیاحوں کے لیے بہترین اور خوبصورت ترین 20 ممالک کی فہرست میں پاکستان کو
سرفہرست رکھا ہے۔ جس سے یقینی طور پر بیرون ملک سرمایہ کاروں و سیاحوں کو
اعتماد حاصل ہوگا اور پاکستان کے تاریخی و مشہور مقامات کی سیاحوں کی آمد
سے مملکت میں امن کے استحکام کا مثبت پیغام عالمی برداری کو پہنچے گا ۔
ریاستی اور حساس اداروں نے وطن ِ عزیز کی حفاظت کے لئے قیمتی جانوں کی
قربانیاں دیں تو دوسری جانب عوام نے بھی ملک دشمن عناصر کا بہادری سے
مقابلہ کیا ۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں و فنڈنگ کرنے والے انتہا پسند
عناصر نے ملک میں لسانیت ، فرقہ واریت ، صوبائیت او ر نسلی تعصب کو پھیلانے
کے لئے مذموم سازشیں کیں ، لسانی اکائیوں کے درمیان عصبیت کا بیج بو کر ،
ملکی سلامتی و بقا کو خطرات سے دوچار کرنے کی کوشش کی ، تاہم ملک میں سیاسی
بحرانوں کے باوجود ریاستی و حساس اداروں نے ملک و قوم کی حفاظت پر توجہ
مرکوز رکھی۔سیاحت کے حوالے سے وطن ِ عزیز دنیا کے اُن خوش قسمت ممالک میں
شامل ہے، جہاں قدرت نے پاکستان کو اپنے خزانوں سے مالا مال کیا ہوا ہے ،
تاریخی مقامات و ثقافتی اقدار کے منفرد انداز و روایات کا امین مملکت کسی
بھی سیاح و سرمایہ کار کے لئے ایک آئیڈیل سرزمین ہے ۔ ملک دشمن عناصر نے سب
سے پہلے امن کو ہی نقصان پہنچایا اور معاشی شہ رگ کراچی پر لسانیت کے کاری
وار کئے کہ اس کے مضمرات کے سبب عوام متاثر ہوئے۔ صوبہ بلوچستان و خیبر
پختونخوا میں نام نہاد قوم پرستوں کی سازشوں نے ترقی کی راہ میں رکاؤٹیں
کھڑی کیں اور قدرت کے دیئے خزانوں کے فوائد سے عوام کو محروم رکھا گیا۔
شمالی علاقے جات پاکستان کے حسن کا جھومر ہیں ، سیاحوں کے لئے جنت نظیر
علاقوں میں سوات کے حسین مقامات و آثار قدیمہ کو بھی بدترین نقصان پہنچا یا
گیا،شمالی علاقے جات کی بلند بالا پہاڑہوں یا پھر سندھ پنجاب کے تاریخی
مقامات و آثار قدیمہ ، ریگستان ہوں یا سرسبز میدان ، ثقافت کے ہر رنگ و ہر
موسم کی خوبصورتی لئے جنت نظیر پُر امن مملکت کے تشخص کو بحال کرنے کی
عالمی برداری جانب سے عملی اعتراف ، دیر آید درست آید کے مترادف ہے۔ ٹریول
ایڈوئزری میں نظر ثانی اس اَمر کو تسلیم کئے جانا ہے کہ ریاست نے انتہا
پسندوں و دہشت گردوں کے خلاف غیر جانبداری پالیسی کے تحت مختلف آپریشن کئے
اور جاری آپریشن رد الفساد میں باقی ماندہ سہولت کاروں کو بِلوں سے نکالا
جارہا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن نے خصوصی طور پر پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے
میں مرکزی کردار ادا کیا ۔ باجوہ ڈاکٹرائن میں مشکل فیصلے بھی کئے گئے اور
اہم ترین اقدامات میں پاک۔افغان بارڈر منجمنٹ کے ساتھ ایرانی سرحدوں پر بھی
باڑ و چیک پوسٹوں کے قیام سے مملکت کو محفوظ بنانے میں سب سے اہم کردار ادا
کیا ۔ باجوہ داکٹرائن کاسب سے اہم ترین فیصلہ ، پرائی جنگ میں پاکستان کو
غیر جانبدار رکھنا ہے ، جس کی وجہ سے مملکت کے وقار میں غیر جانبدار ہونے
کے مثبت تاثر نے عالمی برادری کو پاکستانی مثبت اقدامات تسلیم کرنے پر
مجبور کردیا کہ مملکت میں امن و امان کی صورتحال کو مستحکم کیا گیا ۔
یہاں یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں امریکی پالیسیوں کی وجہ سے ہی
مملکت میں شرپسند عناصر کو تقویت ملی تھی، نیز بیرونی مداخلت کے بڑھتے
رجحانات کے سبب سیکورٹی مسائل کو حل کرنے میں دشواریوں کا سامنا رہا ، بلیک
واٹر سمیت بدنام زمانہ ایجنسیوں و این جی اوزکی ماورائے قانون اقدامات کی
وجہ سے ملکی سا لمیت و امن پر سوالیہ نشان اٹھتے رہے، تاہم ریاستی اداروں
نے بُردباری کے ساتھ بیرون مداخلت کار اور اُن کی بدنام زمانہ ایجنسیوں کے
ایجنٹس کو لگام ڈالی تو اُس کے ردعمل میں پاکستان کے خلاف الزامات کا نہ
رکنے والا سلسلہ شروع کردیاگیا ، منفی پروپیگنڈا کی وجہ سے دنیا بھر میں
پاکستان کے سافٹ امیج کو نقصان پہنچا، جسے ریاستی و حساس اداروں نے پیشہ
وارانہ مہارت کے ساتھ کنٹرول اور ایسے کئی نیٹ ورکس کا خاتمہ کیا ، جن کا
ایجنڈا ہی پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا تھا ۔ یہاں محب الوطن عوام کی
قربانیوں کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا ،جنہوں نے ریاستی اداروں کی جانب سے
انتہا پسندوں کے خلاف متعدد آپریشنز میں آئی پی ڈی بن کر بھرپور ساتھ دیا ۔
جانی و مالی نقصانات و ناقابل تلافی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے شانہ بہ
شانہ کھڑے ہوکر ملک دشمن عناصر کی ہر مذموم سازش کو ناکام بنایا۔
گو کہ اس وقت بھی مملکت مختلف سیاسی بحرانوں کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود
جمہوری حکومتوں کی مکمل مدت و پُرامن انتقال اقتدار کے جاری سلسلے نے
جمہوریت کے کمزور پودے کو توانا کرنے کی کوشش کی ۔مملکت میں مختلف نظام کو
رول ماڈل قرار دیا جاتا رہا تو کبھی کمزور جمہوری نظام کو لپٹنے کی خبروں
نے بھی سیاسی استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، لیکن اس کے باوجود
ریاستی وحساس اداروں نے مملکت میں امن کی بحالی کو ممکن بنانے کے مشن کو
جاری رکھا۔ ضرورت اس اَمر کی بھی ہے کہ ریاست اُن عناصر کی آزادنہ سرگرمیوں
و ماورائے قانون اقدامات پر گرفت مضبوط رکھے جنہوں نے ماضی میں اپنی من
مانیاں و ڈو مور جیسے مطالبات سے پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کیں۔ اس اَمر
کو بھی یقینی بنانے کی قوی ضرورت ہے کہ امریکا ، برطانیہ جیسے ممالک
پاکستان کی غیر جانبداری پالیسیو ں کے اعتراف کے بعد دوبارہ مملکت میں
سیاسی عدم استحکام میں مداخلت کا سبب نہ بنیں تاکہ بیرونِ ملک سے سرمایہ
کاروں کی آمد کے ساتھ ساتھ پاکستانی سرمایہ دار ، صنعت کاروں کا مملکت پر
اعتمادمزید بحال ہو اور اپنے وطن میں تجارتی سرگرمیوں و معیشت کو مضبوط
بنانے کے لئے دوبارہ کوشش کریں ، پاکستان کے لئے ہم وطنوں کا اعتماد زیادہ
مقدم ہے کیونکہ پاکستانی سرمایہ کاروں کی واپسی و اعتماد کی بحالی ہی ملکی
معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے میں اہمیت کا حامل ہے۔ امید ہے کہ مایوس
کاروباری حلقے اپنی کاروباری ترجیحات میں وطن کی خوشحالی کے لئے نظر ثانی
کریں گے۔
|