5فروری کے دن کو پاکستان بھر میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار
یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پوری قوم متحد ہوکر کشمیریوں کو بھارتی
دراندازی کے خلاف سات عشروں سے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جاری ان کی جد
وجہد کو سلام پیش کرتی ہے۔ کیونکہ پاکستانی قوم کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ
سمجھتی ہے اور یہ اس کی بقاء کی ضامن ہے۔ لہٰذا کشمیر کی مکمل آزادی و خود
مختاری تک جد جہد آزادی کی شمع جلتی رہے گی۔ آزادی کے اس دیے میں پاکستان
کا ہر فرد اپنے حصے کا تیل ڈالتا رہے گا۔ جب تک کشمیر کو بھارت کی شر
انگیزیوں ، فتنہ پرور یوں اور کشمیر یوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و
ستم سے نجات نہیں دلائی جاتی ، پاکستان خاموش نہیں رہے گااور بھارت کا نام
نہاد جمہوریت کی آڑ میں چھپا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرتا رہے گا۔ یوم
یکجہتی کشمیر ، کشمیریوں کے ساتھ مکمل اتحا د ویکجہتی کا اظہار ہے، جسے
پاکستانی قوم کئی سالوں سے بلا تعطل جوش و جذبے سے مناتی آرہی ہے۔
5 فروری یوم یکجہتی کشمیر منانے کی روایت 1990 میں شروع ہوئی ۔ اس وقت مرکز
میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔اس
سے قبل 28 فروری 1975کو، پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں جب
ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے، شیخ عبد اﷲ اور اندرا گاندھی کے درمیان
طے پانے والے معاہدے کے بعد پاکستان میں زبردست احتجاج کیا گیا۔ کشمیر میں
سخت ترین احتجاج کیاگیا تھا ۔ اس احتجاج کی نوعیت اور ہمہ گیری کااندازہ اس
سے لگالیا جائے کہ اس دن کشمیریوں نے اپنے جانوروں تک کو پانی نہیں پلایا۔
اس کے بعد احتجاج اور جلسے جلوسوں کا یہ سلسلہ جاری رہا مگر بعدازاں، نوے
کی دہائی کی ابتدا میں ہی جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد مرحوم نے
کشمیریوں کے ساتھ کسی ایک دن یکجہتی منانے کی تجویز دی تو تمام نمائندہ
جماعتوں نے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے حامی بھرلی۔ چونکہ کشمیرکاز ملک
قوم کا متفقہ مسئلہ ہے، اس لیے یہ مسئلہ ہمیشہ سے سیاسی جماعتوں کے لیے
یکساں اہمیت کا حامل رہا۔ تب سے اب تک ہر سال 5 فروری کویوم یکجہتی کشمیر
مناکر پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
یوم یکجہتی کشمیر کی اہمیت کو جاننا اور اس دن سے جڑی تاریخی حیثیت سے واقف
ہونا قوم کے لیے بے حد لازمی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے 1946ء میں بانی
پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے سری نگر میں مسلم کانفرنس میں شرکت کی
اور کشمیر کی سیاسی،دفاعی، اقتصادی ، جغرافیائی حیثیت کی اہمیت کو اجاگر
کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔پھر سردار ابراہیم خان کے
گھر پر قرارداد الحاق پاکستان کی منظوری کے بعد1947 میں باقاعدہ کشمیر کی
آزادی کے لیے جد جہد کا آغاز مولانا فضل الہٰی کی قیادت میں کیا گیا، جسے
اب تک کی کشمیری عوام اور اہل پاکستان نے آزادی کے حصول تک جاری رکھنے
کاعزم کیا ہوا ہے۔ گزشتہ اس تمام عرصے میں بھارت کی روایتی ہٹ دھر می سے
کشمیریوں پر عرصہِ حیات تنگ کیا گیا،مال واولاد چھین لیا گیا، گھر بار سے
دور کردیا گیا اور کاروبار،معیشت ومعاشرت تباہی کے دہانے پر پہنچا دی گئی،
اس سب کے باوجود کشمیر میں مظالم کا سلسلہ تھم نہیں رہا۔ بھارت کی طرف سے
کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی کشمیر کی گھمبیر صورت
حال دنیا کے سامنے ہے مگرکشمیریوں کے حق خود ارادیت پرعالمی رہنماؤں کے
بیانات سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آرہا،جس سے کشمیریوں کی
امیدیں دم توڑرہی ہیں۔ دوسری طرف کشمیری عوام کی بے کسی اوربد حالی پر مسلم
امہ کی خاموشی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
5 فروری یوم یکجہتی کشمیر، سرکاری سطح پر مسلم ممالک میں سے صرف پاکستان
میں منایا جاتا ہے ۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی پاکستانی کمیونیٹی رہتی ہے
وہ اپنے طور پر اس میں شرکت کرکے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
پاکستانی قوم کی کشمیریوں کے ساتھ دلی وابستگی ہے اس لیے ملک بھر میں
ہاتھوں کی زنجیریں بنائی جاتی ہیں،حکومت پاکستان اس دن عام تعطیل کا اعلان
کرتی ہے ،کشمیرکی آزادی کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں اور بھارت کی سر بریت
کے خلاف پوری قوم سراپا احتجاج ہے۔ پاکستان کوکشمیری عوام کے حقوق کے لیے
عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے ، کشمیر کاز میں عملی طور پر پاکستان کا
ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے ۔ اپنوں کی حالت یہ ہے کہ کچھ کے علاوہ اکثر
اسلامی ممالک کی کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی زبانی کلامی سے زیادہ نہیں ہے۔
لہٰذا، اس اسٹیج پر پاکستان کو کشمیر کے لیے اپنا دفاع مضبوط بنانا ہوگا۔ 5
فروری کے دن کی مناسبت سے اسے نصاب تعلیم میں مکمل باب کی شکل دینی ہوگی ،
جس سے ہماری نسل کو کشمیرکی تاریخی حیثیت کا پتا چلے اور کشمیر پاکستان کی
شہہ رگ کا نعرہ پھر سے توانا آواز بن کر ابھرے۔ جب کشمیری بھائیوں کے دکھ و
الم کا احساس پیدا ہوگا، ماؤں بہنوں کی آنسوؤں بھری آنکھیں نظر آئیں گی ،
تب ہی کشمیر کے ساتھ حقیقی یکجہتی منظر عام پر آئے گی۔
گزشتہ سال ستمبر میں وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں
خود کو کشمیریوں کا سفیر باور کرایا تھا اور یہ کہا تھا کہ وہ کشمیریوں
کامقدمہ پوری دنیا کے سامنے لائیں گے جس کے بعد کشمیری مسلمانوں کو ایک
امید ہوچلی تھی کہ اب کشمیر کے مسئلے کوپاکستان پھر مؤثر انداز میں اٹھائے
گا ، جس سے عالمی برادری بھی اسے سنجیدہ لے گی، مگر بعد ازاں، نہ جانے کیوں
حکومت بیانات سے آگے کچھ نہیں کرسکی اور اُس طرف بھارت نے کشمیریوں کے خلاف
سخت لاک ڈاؤن کر رکھا ہے۔ کشمیر یوں کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں اور اس کی
طرف کسی کی نظر نہیں جارہی۔مسلم امہ کی عدم توجہی کے باعث آج کشمیر سمیت
متعدد اہم معاملات میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے۔ اپنے
آپ کو انصاف کا نمائندہ سمجھنے والوں کو کشمیر میں انصاف کی حقیقی اور
بامعنیٰ کوششیں کرنا ہوں گی تا کہ کشمیر کے مظلوم انسانوں کو ان کے حقوق
دلائے جاسکیں۔ بہرحال، ہمارے لیے 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر اس بات کا
متقاضی ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی آواز بن کرعملی جد و جہد کی طرف قدم
بڑھائے۔
|