ہم اور کشمیر۔۔۔۔۔۔

1990ء سے 2020ء تیس برس سے ہم ہر سال 5 فروری کو یک جہتی کشمیر کا دن مناتے ہیں۔ اِس سال پھر سیمینار اور کانفرنسیں، احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں، ہاتھوں کی زنجیریں بنیں گی۔ امریکی اور بھارتی حکمرانوں کے پتلے نذرِ آتش کیے جائیں گے۔6 فروری کے اخبارات کوریج دیں گے۔ الیکٹرانک میڈیا لائیو کوریج کرے گا، اور پھر ہم اس ’’یک جہتی‘‘ کے لیے اگلے برس کے 5 فروری کا انتظار کریں گے۔1990ء میں جب مقبوضہ کشمیر کے عوام نے کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا تو جنوری 1990ء میں سری نگر میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت کی درندہ صفت فوج نے نہتے عوام کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور تقریباً ستر کے قریب کشمیری شہید ہو گئے۔ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ کشمیریوں کے حق میں دنیا کی آزاد اقوام کی طرف سے ان کے حق میں آواز اور یکجہتی کا مظاہرہ کی اجائے اس موقع پر محترم قاضی حسین احمد جو جماعت اسلامی پاکستان کے امیر تھے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم اور محکو م عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے پانچ فروری کے دن کا انتخاب کیا اوریوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا۔ اس دوران مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھیں اور پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔ دونوں رہنماؤں نے پانچ فروری کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے یہ دن سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کی ااور گزشتہ پچیس برس سے یہ دن پاکستان اور دنیا بھر میں جہاں کہیں پاکستانی اور کشمیری آباد ہیں مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یوم یکجہتی مناتے آ رہے ہیں۔

پانچ فروری کو پاکستان میں تمام کاروبارزندگی بند ہو جاتا ہے۔ پوری پاکستانی قوم کو کشمیریوں کی پشت پر لا کھڑا کیا جاتا ہے کہ اہل کشمیر بھارت کے فوجی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جسے دنیا کی بڑی عدالت اقوام متحدہ نے متنازعہ تسلیم کر رکھا ہے۔

ہم قراردادیں منظور کراتے ہیں، وہ سرکٹاتے ہیں۔ ہم مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں، وہ لاشیں گنتے ہیں اور روز نئی قبریں کھودتے ہیں جن میں بیشتر نوجوانوں کی ہوتی ہیں۔ ہم کہتے ہیں ہم آخری گولی اور آخری فوجی تک لڑیں گے، وہ پہلی گولی اور پہلے فوجی کے قدموں کی چاپ کے منتظر ہیں۔ ہم اْن کی پشت پر ہی رہے اور وہ سینوں پر گولیاں کھاتے رہے۔ بابری مسجد کے قاتلوں نے پوری ریاست جموں و کشمیر کو جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ سوا کروڑ کشمیری محاصرے میں ہیں، جو دنیا کا طویل ترین محاصرہ ہے۔
5 اگست2019ء سے آج تک کشمیر کا ہر گلی کوچہ کربلا بن چکا ہے۔ مودی اپنے انتخابی منشور کے وعدے بتدریج پورے کررہا ہے۔ خواہ وہ بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کا وعدہ ہو یا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ بنانا، یا اکھنڈ بھارت کے خوابِ مذموم کی تعبیر کی طرف پیش قدمی۔ وہ دریاؤں کے رخ موڑ رہے ہیں پاکستان کو بنجر صحرا میں تبدیل کرنے کے لیے، ہم اقتدار کی رسّاکشی میں مصروف ہیں۔ یہاں سیاسی اکھاڑے لگے ہیں۔ ایک، دوسرے کو چاروں شانے چت کرکے سینہ پھلائے کھڑا ہے۔

ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو ثالث بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جب کہ امریکہ، اسرائیل کے ساتھ مل کر ’’گریٹر ہندوستان‘‘ کے خواب کو تعبیر دینے میں مصروف ہے۔ امریکی صدر مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا اصل مقابلہ اسلام کے ساتھ ہے۔

ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، دوسری طرف کشمیر میں بدترین کرفیو نافذ ہے۔ ہماری شہہ رگ دشمن کے پنجوں کی زد میں ہے لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے جس طرح نان ایشوز کی سیاست اپنا رکھی ہے اس کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میڈیا ایک ایسی قوم کا ترجمان ہے جس کا ایک حصہ تکمیلِ پاکستان کی جنگ لڑرہا ہے۔ وہ سنگینوں کے سائے تلے کہتے ہیں کہ ’’پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ اْن کے نہ صرف جلسوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں بلکہ اْن کے شہداء کی قبروں پر بھی پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ انھوں نے ’’آزادی‘‘ کے خواب سے اپنی شبِ تاریک کو سحر کیا ہوا ہے اور یقین رکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی موجودگی میں کشمیر پر کوئی سودا نہیں ہوسکتا‘‘، لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ ’’کشمیری تو محصور ہیں لیکن پاکستان کے عوام تو محصور نہیں ہیں؟‘‘ یہ سوال اْس وقت سے اور شدت اختیار کرگیا ہے جب 31 اکتوبر کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کردیے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے نقشے میں شامل کرلیا، لیکن دنیا کے کسی حصے سے کوئی دل خراش آواز بلند نہ ہوئی۔ وہ جو پرندوں اور آبی حیات کے دن مناتے ہیں، اور ملالہ پر تشدد ہوتا ہے تو پاکستان کے چہرے پر سیاہی مَلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اْن کو شاید خبر ہی نہیں کہ کشمیر کی عورتوں پر گھروں میں گھس کر تشدد کیا جاتا ہے۔ دس ہزار عورتوں کی مقبوضہ وادی میں آبروریزی کی جا چکی ہے۔ وہاں چادر اور چار دیواری نام کی کوئی چیز نہیں۔ کریک ڈاؤن کے نام پر انڈین آرمی جس گھر کی چاہے عزت پامال کردے۔ والدین کے سامنے بیٹیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی دلخراش ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں، جنھیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ظلم اور درندگی کی یہ کہانیاں اس روئے زمین پر رقم کی جارہی ہیں، جنھیں دیکھ کر انسانیت تو انسانیت، حیوانیت بھی لرز اٹھے۔

1947ء میں ہمارے اسلاف نے جہاد کے ذریعے عظیم قربانیاں دے کر یہ مملکتِ خداداد حاصل کی تھی۔ قیام پاکستان ایک طویل جدوجہد کی داستان ہے، نہ کہ نادیدہ قوتوں کا کرشمہ۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کی ایک ہی صورت رہ گئی ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے حکومت جہاد کا اعلان کرے۔ کشمیریوں کو جدوجہدِ آزادی کا حق اقوام متحدہ کا چارٹر فراہم کرتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اقوام متحدہ اس ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے بھی وائٹ ہاؤس کی لونڈی کا کردار ادا کررہی ہے۔

حکمرانوں کی مجبوریاں ہوتی ہوں گی، عوام مجبور نہیں ہیں۔ ہم اپنی صفوں میں جہادی روح بیدارکریں۔ کئی ماہ سے کرفیو میں محصور اپنے جسم کے اس حصے کا درد محسوس کریں جو کراہتے ہوئے بھی کہتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ پھر ہم کیسا جسدِ واحد ہیں! آٹے کی قلت نے ہمیں مقبوضہ کشمیر کا دکھ کیوں نہیں یاد دلایا، جہاں کئی ماہ سے کرفیو ہے۔ وہ کس طرح زندہ ہیں؟ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کیوں زندہ ہیں؟ اس ’’کیوں‘‘ کا ایک ہی جواب ہے کہ وہ آزادی کے خواب کی تعبیر پانے کے لیے زندہ ہیں۔ وہ تقسیمِ کشمیر کے ہر فارمولے کو پیروں تلے روندتے ہیں۔

ہم مشرقی پاکستان کو کھوکر کوئی سبق لیتے اور اپنی آئندہ نسلوں کو وہ سازشی تھیوریاں بتاتے تو پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہوتا۔ ہم مقبوضہ وادی کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھتے تو تکمیلِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا کب کا مکمل ہوچکا ہوتا۔

 

Amir Sultan
About the Author: Amir Sultan Read More Articles by Amir Sultan: 2 Articles with 1047 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.