دہلی کے انتخاب :آدمی جان کے کھاتا ہے سیاست میں فریب

تاریخ پھر ایک بار اپنے آپ کو دوہرانے جارہی ہے ۔ بی جے پی رہنماوں کی بوکھلاہٹ گواہ ہے کہ اسے دہلی میں اپنی شکست کا اندازہ ہوگیا ہے ورنہ دہلی میں مودی اور شاہ کے ہوتے یوگی کا سہارہ لینے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ گولی اور بولی جیسے اوٹ پٹانگ بیانات نہیں دئیے جاتے ۔ اسی طرح کی حرکت 2015 میں بھی سرزد ہوئی تھی جب بی جے پی کی رکن پارلیمان پڑتی ۔ اس وقت مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی نے بھی اپنی ذہنی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''رام زادے اور حرام زادے''کا نعرہ لگایا تو سب کو حیرت ہوئی لیکن آگے چل کر یوگی ادیتیہ ناتھ نے ثابت کردیا کہ ان گیروا دھاری سیاستدانوں کو مٹھوں کو یہی تہذیب سکھائی جاتی ہے۔ 2014 نرنجن جیوتی جیسے لوگ ہندوتوا کے نام جو بھی نفرت پھیلا رہے ہوں مگر مودی جی ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘، ہر سال دو کروڈ ملازمت اور ہر فرد کے لیے ۱۵ لاکھ روپیوں کی خواب دکھلارہے تھے ۔ اس موقع پر فنا نظامی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے

اس وقت یہ کہا جارہا تھا کہ مودی جی نے جس طرح گجرات کو خوشحال بنادیا تھا کہ اسی طرح سارے ملک کی بدحالی کو دور کریں گے ۔ فرض کیجیے کہ ایسا ہوگیا ہوتا ۔ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مودی جی ہندوستان کی بدحالی دور نہ کرپاتے تو کم از کم اس میں خاطر خواہ کمی کردیتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ جی ڈی پی کے اعدادوشمار گواہ ہیں کہ معیشت کے میدان میں آگے بڑھنے کے بجائے ملک بتدریج پیچھے جارہا ہے۔ مرکزی حکومت اگر عوام کی توقعات پر کسی نہ کسی حدتک پوری اترتی تو نہ امیت شاہ کو یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ اتنی زور سے ای وی ایم کا بٹن دباو کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ میں محسوس ہو اور نہ وزیراعظم کو شاہین باغ کے پیچھے کوئی سیاسی تجربہ نظر آتا۔

وزیرا عظم کے مطابق اگر شاہین باغ کا احتجاج حزب اختلاف کی سازش نہیں ہوتی تو سرکاری یقین دہانی کے بعد مظاہرہ ختم ہوجاتا ۔ وہ نہیں جانتے کہ فی الحال ان کی حکومت کے اوپر سے عوام کا اعتماد پوری طرح اُٹھ چکا ہے۔ ملک کے لوگوں کو نوٹ بندی کے بعد مودی جی کا اعلان کردہ وہ تاریخی جملہ اب بھی یاد ہے کہ اگر وہ ناکام ہوجائیں تو عوام جس چوراہے پر چاہیں ان کو پھانسی پر چڑھا دیں ۔ نوٹ بندی کے احمقانہ تجربہ کی ناکامی کے بعد لوگ چوراہا چوراہا مودی جی کو ڈھونڈتے رہے لیکن وہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئے۔ مودی جی کے سارے وعدے جھوٹے نکلے۔ اس کے برعکس کیجریوال نے اپنے سارے نہ سہی تو بہت سے وعدوں کو پورا کیا ۔اس کا اعتراف دہلی کے تینوں یونیورسٹیوں کے طلباء نے کیاہے ۔

جے این یو کے طالب علم انمول سے جب انتخاب کے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے کہا ترقی کی بنیاد پر الیکشن لڑا جانا چاہیے۔ انمول کو عآپ کی بی جے پی جیسی شاہ خرچی پر افسوس ہے۔اس کے خیال میں انتخابی مہم کے بجائے ترقی پر سرمایہ خرچ ہونا چاہیے۔غیر ملکی زبانوں کے شعبے میں زیر تعلیم اس طالب علم کا ماننا ہے کہ سی اے اے سے صرف مسلمانوں کوباہر رکھنا غلط ہے ۔ تفریق و امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ نئی نسل کو آئین پڑھانے کے بجائے اشتعال انگیز تقاریر کرکے ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ فلسفہ کے طالب علم پرتیک کا کہنا ہے کہ ’’ سرکار ہندو مسلم طبقات کے درمیان دراڑ پیدا کرانا چاہتی ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ بیروزگاری اور معیشت پر گفتگو کیوں نہیں ہوتی؟ شاہین باغ اور مسلمانوں مسئلہ بتایا جارہا ہے۔ ایوان پارلیمان میں اشتعال انگیز بیان بازی کی جارہی ہے۔ عآپ کہیں نہ کہیں ترقی کی بات کرتی ہے لیکن بی جے پی شاہین باغ پر اٹکی ہوئی ہے۔ وہ عوام کو تقسیم کرکے حکومت کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی ایسا کیوں کررہی ہے اس سوال کا جواب اختر نظمی نے یوں دیا ہے؎
وہ زہر دیتا تو سب کی نگہ میں آ جاتا
سو یہ کیا کہ مجھے وقت پہ دوائیں نہ دیں

طلباء کا یہ اضطراب جے این یو تک محدود نہیں ہے بلکہ دہلی یونیورسٹی کے طالب علم وشال رائے کے مطابق سی اے اے آچکا ہے۔ این آر سی صرف افواہ ہے۔ اتنا سب ہونے کے بعداسے نہیں لگتا کہ این آر سی لایا جائے گا۔ جمہوریت میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ گولی کا چلنا خلافِ انصاف ہے۔ جمہوریت میں مخالفت کا حق ہےبس یہ دیکھنا ہوگا کہ کوئی قانون و آئین کو پامال تو نہیں کررہا ہے۔ سی اے اے میں سبھی طبقات کو شامل کیا جانا چاہیے ۔ دہلی کے اندر پانچ سالوں میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں اچھا کام ہوا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے ایک اور طالب علم کنال سنگھ کہتے ہیں کہ شاہین باغ میں کڑی حفاظت کے باوجود کوئی بندوق لے کر کیسے پہنچ گیا؟ یہ سب منصوبہ بند لگتا ہے۔ حالات خراب ہیں۔ معاشی طور پر ہم ناکام ہوچکے ہیں ۔ نوجوان بیروزگارہیں ۔ ۱۱ سال میں پہلی بار شرح نمو (جی ڈی پی)اتنے نیچے کیسے پہنچ گئی ؟ جبکہ سرکار کے پاس ہر طرح کا فنڈ ہوتاہے۔ کنال سنگھ کے مطابق سی اے اے درست ہے مگر این آر سی غلط ہے۔ وہ کیجریوال کے زمینی سطح پر کیے جانے والے اچھے کام کامعترف ہے۔

ان تاثرات سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ سارے طلباء بی جے پی کے چنگل سے نکل چکے ہیں ۔ دہلی یونیورسٹی میں آج بھی روپیش تیواری جیسے مودی بھکت موجود ہیں ۔ اس نے کیجریوال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے بجلی وپانی اور خواتین کے سفر کو مفت کرنے کا کام پہلے کیوں نہیں کیا؟ چاندنی چوک پر ایک حملے میں زخمی ہونے والوں سے کیجریوال نے ہمدردی کیوں نہیں جتائی؟ اب پھر سےکیجریوال کے نعرے لگائے جارہے ہیں ۔ دنیا کےہر ملک میں غداروں کو گولی ماری جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں یہ نہیں ہوتا۔ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات کیے جانے پر کیجریوال کیوں خاموش رہتے ہیں؟ روپیش بی جے پی کے مکمل حامی ہیں۔ حنا شرما کی رائےبین بین ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں نے عوامی جائیداد کو کیوں نقصان پہنچایا؟ مظاہرہ پرامن کیوں نہیں ہوتا؟ حنا کے مطابق سی اے اے اور این آر سی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نجف گڑھ کی نالیاں کھلی ہیں چونکہ ہر حکومت انتخاب سے پہلےکچھ نہ کچھ کرتی ہے اس لیے یہ (عآپ) حکومت بھی کررہی ہے۔روپیش اور حنا جیسے لوگوں پر اقبال عظیم کا یہ شعر (مع ترمیم ) صادق آتا ہے کہ؎
آدمی جان کے کھاتا ہے سیاست میں فریب
خود فریبی ہی سیاست کا صلہ ہو جیسے

دہلی کی جامعہ اسلامیہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا مرکز ہے۔ یہاں پڑھنے والے طالب علم ساحل نے کمال پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ماحول خراب کرنے والا بیانیہ تیار کیا جارہا ہے۔ حکومت بانٹو اور راج کرو کی حکمت عملی پر کام کررہی ہے۔ سی اے اے اور این آر سی نہیں آتا تو اتناخلفشار نہیں ہوتا ۔طلباء کو پرامن جلوس بھی نکالنے نہیں دیا جاتا۔ کوئی بندوق دکھائے تب بھی پولس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ ساحل نے سوال کیا ہم کیسا ملک بنارہے ہیں؟اقلیتوں کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے۔تعلیم ، صحت اور ترقی کے مسائل پرپر انتخابی مہم چلائی جانی چاہیےلیکن یہاں تو اشتعال انگیزی کی جاتی ہے۔ جامعہ کی حقیقت پسندطالبہ رشمی کہتی ہیں کہ کیجریوال نے چار سال میں کچھ نہیں کیا۔ آخری سال میں مفت اسکیمیں جاری کردیں لیکن بی جے پی نے بھی ایوانِ پارلیمان کے وقت یہی کیا تھا ۔

۶ سال قبل مودی جی نے ہر سال دوکروڈ نوجوانوں کو ملازمت دینے کا خواب دکھا کر ان کا دل جیت لیا تھا ۔ اس عرصہ اگر مودی جی دس کروڈ نہ سہی تو دس لاکھ لوگوں کو بھی ملازمت دینے میں کامیاب ہوجاتے تو نوجوانوں کے اندر یہ غم و غصہ نہیں ہوتا۔ اب حالت یہ ہے کہ وزیرخزانہ نرملا سیتارامن کو بجٹ پیش کرنے کے بعد ایوان پارلیمان میں یہ کہنا پڑرہا ہے کہ وہ بیروزگاری کی بابت کوئی عدد نہیں بتائیں گی کیونکہ اگرانہوں نے ایک کروڈ کی تعداد بتا دی تو ایک سال بعد راہل پوچھیں گے کہاں ہیں ایک کروڈ نوکریاں؟ یہ دراصل خوداعتمادی کے خاتمہ کا کھلا ثبوت ہے کہ اب ان لوگوں کے اندر جھوٹ موٹ وعدہ کرنے کی جرأت بھی جاتی رہی ہے۔ یہ حزب اختلاف کے سوالات سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ پہلے جیسا بلند بانگ دعویٰ بھی نہیں کرپارہے ہیں ۔ اس لیے کہ جب ملک میں بیروزگاری کی سطح پچھلے ۷۰ سال میں سب سے نچلی سطح پرپہنچ گئیْ تو انہیں بھی اپنی نااہلی کا احساس ہوگیا ۔

مودی جی اگر یہ کہہ پاتے کہ دیکھو پچھلے ۶ سالوں میں نے ملک کو ترقی کی کن بلندیوں پر پہنچا دیا ہے ۔ دہلی میں اگرعآپ کے بجائے بی جے پی کی سرکار ہوتی تو وہاں بھی اسی طرح ترقی ہوتی تو لوگ بی جے پی کے اس نعرے پر ازخود لبیک کہتے کہ ’دیش بدلا دہلی بھی بدلو ‘اور کمل کے نشان پر مہر لگا تے ۔دہلی انتخاب سے قبل روزنامہ بھاسکر کے نامہ نگار سے بات چیت کرتے ہوئے نئی نسل کے رائے دہندگان کا اظہار خیال سن کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ بی جے پی کے دامِ فریب سے آزاد ہو چکے ہیں اور اس کے مایا جال کو توڑ کر نکلنے لگے ہیں ۔ان کی زبان پر شبنم شکیل کا یہ( ترمیم شدہ )شعر ہے کہ؎
سب توڑ کے بندھن نیتا کے میں پیار کی جوت جگاؤں گی
اب مایا جال سے نکلوں گی اور جوگنیا کہلاؤں گی



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218403 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.