جھارکھنڈ، مہاراشٹر اور ہریانہ کے بعد دہلی میں بھی کمل پر کمھلاہٹ کے آثار

دہلی میں ایوانِ پارلیمان کا بجٹ اجلاس اور صوبائی انتخاب کہ مہم دوش بدوش سے چلتےرہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرکزی حکومت عوام کو یہ بتاتی کہ اس نے بجٹ میں عام لوگوں کے لیے کون کون سی سہولتیں تجویز کی ہیں اوران سے فائدہ اٹھانے کے لیے ریاستِ دہلی میں بھی بی جے پی کی سرکار ہونی چاہیےلیکن افسوس کہ انتخابی مہم کے دوران کسی ایک رہنما نے بھی بجٹ کا ذکر نہیں کیا۔ بی جے پی کے صدرجے پی نڈا نے 240 ارکان پارلیمان کو24گھنٹے کے لیے دہلی کے پرچار میں جھونک دیا مگر ان میں وزیرخزانہ نرملا سیتا رامن کہیں نظر نہیں آئیں ۔نرملا کے وزیر مملکت پرویش ورما مغربی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمان ہیں ۔ کسی اور کو نہیں تو کم ازکم پرویش ورماکو اپنے بجٹ کے بارے میں کچھ بتانا چاہیے تھا لیکن ان کے اعصاب پر شاہین باغ اس قدرسوارہوا کہ وہ اپنی وزارتی ذمہ داری بھول گئے ۔ اس لیے کہ بی جے پی والوں کی فی الحال جھارکھنڈ، مہاراشٹر اور ہریانہ کے بعد اپنی چوتھی شکست صاف نظر آرہی ہے۔ پھر سے ایک بار کمل پر جھاڑو چلنے جارہا ہے۔

دہلی میںوزیراعظم اور وزیرداخلہ سمیت ہر بی جے پی رہنمانے اشتعال انگیز بیانات دیئے اس لیے کہ وہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے لیکن پرویش کورما نے توانتہا کردی ۔ انہوں نے کہہ دیا کہ’’ آج ہی وقت ہے، کل مودی جی اور امیت شاہ آپ کو بچانے نہیں آ پائیں گے‘‘۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دہلی میں اگر کیجریوال پھر سے جیت جائیں تب بھی پولس توامیت شاہ کے تحت ہی رہے گی اس لیے وہ دہلی والوں کو بچانے کیوں نہیں آئیں گے ؟ اس سوال کا جواب پرویش ورما کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا ۔ بی جے پی والوں کا اس طرح کے معروضی سوالات سے بالا نہیں پڑتا کیونکہ ان کے جلسوں میں فی الحال صرف وہی بھکت آتے ہیں جن کا سوچنے سمجھنے سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ رہنما جو من میں آئے بکتے چلے جاتے ہیں اور بھکت نندی بیل کی طرح سر ہلاتے رہتے ہیں ۔

پرویش ورما مذکورہ بیان میں عوام کو شاہین باغ سے خوفزدہ کررہے تھے ۔ بہت ممکن ہے کہ مودی اور شاہ کی مانند ورما کو بھی معلوم نہ ہو کہ وہاں خواتین احتجاج کررہی ہیں ورنہ وہ نہیں کہتے کہ ’’وہاں (شاہین باغ میں) لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ دہلی کے لوگوں کو سوچنا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہو گا۔ وہ آپ کے گھروں میں گھسیں گے، آپ کی بہن، بیٹیوں کی عصمت دری کریں گے، انہیں قتل کر دیں گے‘‘۔ پرویش کمار کے اس احمقانہ بیان کو سن کر ہر کوئی ششدر رہ گیا لیکن اس کے دودن بعد جب لکھنو کی پولیس نے بتایا کہ وشو ہندو مہا سبھا کے سربراہ رنجیت بچن کا کسی نے گولی ماردی تو یہ خیال ہوا کہ ’’بولی نہیں تو گولی ‘‘ سے سمجھانے والے یوگی کے کسی بھکت نے پہلے رنجیت کو ضرور بولی سے سمجھانے کی کوشش کی ہوگی لیکن جب اس کی سمجھ میں بات نہیں آئی تو اسے گولی سے سمجھا دیا ہوگا ۔

اس کے علاوہ یہ بھی ممکن تھاکہ قاتل مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کا چیلا ہو ۔ اس نے اپنے گروکی آگیا ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘‘ کا پالن کرتے ہوئے رنجیت بچن کو غدارِ وطن سمجھ کر گولی مار دی ہو لیکن جب پولس نے انکشاف کیا یہ قتل رنجیت کی پہلی بیوی اسمرتی نے اپنےچچازاد بھائی دپیندر اور اس کے دوست جتندر کے مدد سے کروایاتو بے ساختہ پرویش ورما کا جملہ یاد آگیا کہ وہ آپ کے گھروں میں گھس کر عصمت دری کرنے کے بعد قتل کردیں گے ۔ پرویش ورما نے شاہین باغ کی عفت مآب خواتین کو اسمرتی جیساکردار باختہ سمجھ لیا تھا ۔ پرویش ورما شاہین اور کرگس کا فرق نہیں جانتا اس لیے علامہ اقبال کا یہ شعر اس کی نذر ہے؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

پرویش کمار جس ماحول میں پلابڑھاہے وہاں پر یہ قتل غارتگری عام سی بات ہے اور اس کی ٹھوس وجوہات ہیں ۔بی جے پی اپنے آپ کو ہندووں کا محافظ کہتی ہے۔ اس کو جب پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اس نے اپنے مرد آہن لال کرشن اڈوانی کو وزیرداخلہ بنا کر قوم کے تحفظ کی ذمہ داری سونپ دی۔ اڈوانی جی نے سوامی چنمیانند کو اپنا معاون وزیر مملکت بنالیا۔ اس گیروادھاری سوامی پر ان کے کالج میں پڑھنے والی ایک قانون کی طالبہ نے عصمت دری و جنسی ہراسانی کے الزام لگادیا اور اس کے حق میں ویڈیو پیش کردی ۔ چنمیانند کو چونکہ صوبے کی یوگی حکومت کا آشیرواد حاصل ہے اس لیے انہوں نے ڈھٹائی کے ساتھ متاثرہ کے علاوہ اس کے ساتھی پربلیک میل کرنے اور 5 کروڑ روپئے کی رنگداری کے مطالبے کا الزام لگادیا۔

اس گھناونے معاملے میں عوام کا دباو بڑھا تو مجبوراً عدلیہ کو حرکت میں آنا پڑا اور سوامی کو جیل بھیج دیا گیا لیکن وقت کے ساتھ لوگوں کی توجہات رام مندر اور شہریت قانون وغیرہ کی جانب مرکوز ہوگئیں ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر الہ آباد ہائی کورٹ نےپانچ ماہ سےجیل میں مقید سابق مرکزی وزیر کو ضمانت دے دی۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا جب متاثر طالبہکو خاموش کردیا گیا ہے لیکن اگر کل کو آتش فشاں پھٹ پڑے اور وہ رنجیت بچن کی اہلیہ اسمرتی جیسا کوئی اقدام کر بیٹھے تو اس میں اس کا کیا قصور؟اسی طرح کا ایک معاملہ ۴ ماہ قبل لکھنو میں پیش آیا تھا جب ہندو سماج پارٹی کے سربراہ کملیش تیواری کو خورشید باغ میں واقع اس کی رہائش گاہ پر قتل کردیا گیا تھا۔اترپردیش میں اور مرکز میں بھی چونکہ فی الحال ہندو انتہا پسند برسرِ اقتدار ہیں اس لیے ان ہندو شدت پسند رہنماوں کی ہلاکت کو کیرالہ کی مانند سیاسی عناد کی بنیاد پر کی جانے والی قتل و غارتگری کے خانے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔
کملیش تیواری کا معاملہ قدرے سہل تھا۔ ویسے یوگی کی پولس نے اس قتل کے الزام میں دس مسلمانوں کو گرفتار کیا اور دو سے اعتراف بھی کرالیا لیکن کملیش کی ماں کے بیان کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ اس کی ماں نے کملیش کی لاش کے سامنے بی جے پی لیڈر شیو کمار گپتا پر قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور اس کی وجہ رام جانکی مندر کے تنازع کو قرار دیا ۔ اس کے مطابق مقدمہ بازی کے دوران گپتا نے کملیش کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ کملیش تیواری کے بیٹے ستیم نے بھی یوگی انتظامیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک این آئی اے ، حراست کنندگان کے قاتل ہونے کے پختہ ثبوت فراہم نہیں کردیتی وہ ان افراد کو قاتل نہیں مانے گا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گیروا لباس پہن کر بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے اندر ہی اندر مندر کی دکشنا کے لیے ایک دوسرے کا خون بھی بہاتے ہیں۔ نفرت و عناد کی سیاست کے پس ِ پشت معاشی مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ رنجیت بچن کی مقبولیت چونکہ کملیش تیواری سے کم تھی اور ذرائع ابلاغ نے بھی اس معاملے بہت زیادہ نہیں اچھالا گیا اس لیے یوگی انتظامیہ کو ہندو مسلم کھیلنے کی ضرورت نہیں پیش آئی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کس طرح ہندو احیاء پرست اپنے خلاف بننے والی رائے عامہ کو بدلنے کے لیے مسلمانوں کو بلی کا بکرا بناتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ احمق عوام ان کے فریب میں آجاتے ہیں ۔ اسی لیے پرویش ورما جیسا وزیر مملکت برائے خزانہ بجٹ کے بجائے شاہین باغ کے نام پر نفرت پھیلاتا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223190 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.