اقراء کائنات کی پراسرار موت اور ہماری بے حسی

کوئی پتھر دل ہی ہوگا جو کسی یتیم پر ظلم کرکے بھی مطئمن رہے ، بلکہ ہمارے دین نےتو سخت دل کو نرم کرنے کا ایک نسخہ یہ بھی بتایا کہ یتیموں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا کرو دل نرم ہوجائےگا ، اور وہ کیسے بد بخت لوگ ہیں جو اپنی شیطانی ہوس پوری کرنے کے لئے یتیم خانے کی بے سہارا معصوم بچیوں کو بھی نہیں بخشتے ، یہ کیسے شقی القلب درندے ہیں جو بڑے بڑے اعلی عہدوں پر فائز ہیں مگر حرکتین کسی گندی نالی کے کیڑے کی طرح کرتے ہیں ۔

چند ماہ ہوئے پورے پاکستان کو ایک باہمت عورت اقراء کائنات کے شرمناک انکشافات نے ہلا کر رکھ دیاتھا ،وہ بلاشبہ کسی اچھی ماں کی صالحہ بیٹی تھیں، میرے دل میں ان کے لئے وہی جذبات ہیں جو اپنی بڑی بہن کے لئے ہیں، ہمارے مردہ ضمیر معاشرے میں عورت ہونا ایک جرم ہی تو ہے اور پھر اوپر سے اللہ نے انہیں ضمیر ، ایمان اور بے خوفی کی دولت سے بھی خوب نوازرکھاتھا ۔ میں نے جب پہلی بار انہیں یتیم خانے کی بچیوں میں گھرے اور بچیوں کی ان سے والہانہ محبت کو دیکھا تو لگا بہت رحم دل ہیں بالکل ماں جیسی ، پھر انہوں نے جب یتیم خانے کی معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والے گھناؤنے جرائم کو بے نقاب کیا اور گندے ظلم کا حصہ بننے سے انکار کیا تو میرے جیسے کروڑوں پاکستانیوں نے ان کے لئے اپنے دل میں محبت اور عقیدت کے جذبات محسوس کئے ۔

جمعہ کے روز اقراء کائنات اپنی حق گوئی اور جرات ایمانی کی سزا پاکر سرخرو ہوگئیں، وہ پراسرارموت کا شکار ہوئیں، کون جانے یہ طبعی موت تھی یا قتل ؟ سوشل میڈیاء پہ طرح طرح کی افواہیں گردش کررہی ہیں۔
میرے جیسے لاکھوں پاکستانی غم وغصے میں مبتلاء ہیں، میں اپنے قارئین کو کسی افواہ کا شکار نہیں کرنا چاہتا، لیکن وہ خود بار بار دہائی دے رہی تھیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور ہم میں سے ہرشخص جو اس گندے سسٹم کو جانتا ہے وہ سمجھ رہا تھا کہ اب ان کا اس ملک میں زندہ رہنا تو کم ازکم ممکن نہیں ، اس سے پہلے ڈالر گرل کو پکڑنے والے ایماندار کسٹم آفیسر کا انجام ہم سب کے سامنے تھا ۔
یتیم بچیوں کی ڈھال ان کی شفیق ماں اب اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن ہم پاکستانیوں کے سامنے بہت سارے سوالات چھوڑ گئی ہیں ، کیا یہ ملک اب کسی سچے انسان کے رہنے کے قابل ہے ؟ کیا یہاں اب درندوں، زانیوں، اور قاتلوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، جو سوال اٹھائے گا لاپتہ کردیا جائےگا یا مار دیا جائےگا؟ ۔
پولیس ، عدالت اور حکومت سے کسی انصاف کی توقع رکھنا تو بیکار ہے ، جمہوریت پہ یقین رکھنے والے ایسے معاملات میں فوج کو ملوث کرنا مناسب نہیں سمجھتے، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اب ہر پریشانی اور ظلم کے بعد دادرسی کے لئے ایک عام آدمی کی نظریں جی ایچ کیو کی طرف ہی اٹھتی ہیں، اس بدترین پریشانی کے دور مین بھی ہر طرف سے مایوس اعوام اپنی آخری امید اپنی فوج کو ہی سمجھتے ہیں ، فوج کو بھی بہرحال موجودہ حالات پہ سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا اگر وہ قوم کے دل میں اپنی محبت برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔

آج میں خود کنفیوزڈ ہوں مجھے سمجھ نہیں آرہی، میں کسے ان حالات کا ذمہ دار ٹھہراوں، انصاف کہاں سے مانگوں، کون ہے جو ہمارے ملک کے حالات بدلے گا،کیا کوئی فرشتہ اسمانوں سے اترے گا ہمین اس دلدل سے نکالنے کے لئے ؟ ۔

کھوکھلے دعوے جھوٹی باتیں کرنے والے اپنے وزیروں اور اعلی عہدیداروں سے یتیم بچیاں اور ان کی حفاظت کرنے والی بہادر عورت کو نہیں بچاسکے، سب ننگے ہوگئے ہیں ، ہاں مگر ہماری آنکھیں ابھی شائد سچائی پہچاننے کے قابل نہیں ہیں، ابھی بھی شائد بہت سارے لوگوں کو اس گندے سڑے سسٹم سے بہت ساری امیدیں ہیں، خواب سراب ہوتے ہیں، ہم نیند سے جتنی جلدی جاگ جائیں بہتر ہے ۔

 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.