پاکستان سمیت تمام دنیا بھر میں تیرہ فروری کو ریڈیو کا
عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ یونیسکو نے ریڈیو کے عالمی دن کو منانے کے لیئے
دنیا بھر میں کئی اقدامات کیئے ۔ ریڈیو معلومات تک رسائی کا ایک بہترین اور
موثر ذریعہ ہے ۔ ریڈیو اپنے منفرد تفریحی ، معلوماتی ، خبروں اور تبصروں کے
پروگراموں کے لیے آج بھی بہت مقبول ہے ۔دنیا میں جدید ٹیکنالوجی جس میں
ٹیلیویژن، ڈش انٹینا، موبائیل فون،انٹرنیٹ اور ریڈیو کی مختلف ایپس آنے کے
بعد ان کو فریکیونسی ریڈیو کی بقا کے لیے ایک خطرہ تصور کیا جانے لگا تھا
اور یہ گمان کیا جارہا تھا کہ شاید اب ریڈیو ماضی کا ایک حصہ بن جائے گا
اور اس کے سننے والے جو بہت متحرک ہیں وہ بھی تیزی سے بدلتی اس صورت حال
میں مایوسی کا شکار تھے۔
تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد ریڈیو سننے کے آلات میں ضرور تبدیلی
آئی ریڈیو نے اپنی شکل تبدیل کرتے ہوئے نئے ٹیکنالوجی کے دور میں خود کو
تبدیل کیا لیکن اپنا نام تبدیل نہیں ہونے دیا ۔ پہلے ٹرانسسٹر پر ریڈیو سنا
جاتا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شکل تبدیل ہوتی چلی گئی میڈیم وویو،
شارٹ وویو اور پھر ایف ایم نشریات کا آغاز ہوا۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے
والے پروگرام آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہے ۔ پاکستان پر جب بھی دشمن
ملک نے جنگ مسلط کی ریڈیو نے اس وقت بہت اہم کردار ادا کیا ریڈیو سے نشر
ہونے نغمات بالخصوص میڈم نورجہاں کے نشر ہونے والے نغمات نے نہ صرف پوری
قوم کے اندر ایک ولولہ پیدا کردیا بلکہ افواجِ پاکستان کے حوصلوں کو بھی
بلند کیا ۔
پاکستان میں ریڈیو پاکستان اور پاکستانی ایف ایم نشریات کے علاوہ بھی کئی
بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی اردو زبان میں نشریات پیش کی جاتی ہیں جن
وائس آف امریکہ،چائینا ریڈیو انٹرنیشنل،ریڈیو جاپان، ریڈیو صدائے ترکی،
سعودی عالمی ریڈیو، ریڈیوکویت، ریڈیو تہران اور ریڈیو فیبا وغیرہ شامل ہیں
، پاکستان میں ان نشریاتی اداروں کو سننے والے سامعین کی ایک بہت بڑی تعداد
موجود ہے جو نہ صرف ان نشریاتی اداروں کے پروگراموں کو روز آنہ کی بنیاد پر
سنتے ہیں بلکہ ان کے نشر ہونے والے پروگراموں پر اپنے تبصرے بھی باقاعدگی
سے روانہ کرتے ہیں ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریڈیو سننے والے سامعین کے
ریڈیو سامعین کلب اور ریڈیو سامعین تنظیمیں قائم ہیں جو مقامی طور پر ان
نشریاتی اداروں کو مل بیٹھ کر سنتے ہیں اور ریڈیو کے حوالے سے مختلف
تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں ۔کئی ریڈیو سامعین ان نشریاتی اداروں کی
فریکیونسی پر آواز کے معیار کے حوالے سے ان نشریاتی اداروں کو آگاہ کرتے
ہیں جو ان اداروں کی نشریات کی آواز کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتے
ہیں، ایسے سامعین کو ڈی ایکسر کہا جاتا ہے اور ایسے سامعین کی جانب سے
نشریاتی اداروں کو روانہ کی جانے والی رپورٹ کو ریسیپشن رپورٹ کہا جاتاہے ،
کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنی نشریات
کی بہتری اور اس کے معیار کو جانچنے کے لیئے ریڈیو سامعین کو ٹیکنیکل
مانیٹر مقرر کیا ہوا ہے جنہیں باقاعدہ نشریاتی اداروں کی جانب سے معاوضہ
بھی دیا جاتا ہے جب کہ پروگراموں کی سامعین میں مقبولیت اور رائے اور ان
میں بہتری کی تجاویز کے حصول کے لیئے پروگرام مانیٹر بھی مقرر کیے جاتے ہیں
۔
تمام بین الاقوامی نشریاتی ادارے سامعین کے درمیان انعامی مقابلوں کا بھی
انعقاد کرتے ہیں جن سے سامعین کو ان ممالک کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا
ہے اور معلوماتِ عامہ میں بھی خاصہ اضافہ ہوتا ہے ۔ کئی نشریاتی اداروں کی
جانب سے خصوصی انعامی مقابلوں کا بھی انعقاد ہوتا ہے جس میں کامیاب سامعین
کو نشریاتی ادارے کی جانب سے اپنے اخراجات پر اپنے ملک کی سیر کرائی جاتی
ہے ۔پہلے یہ سلسلے اردو اور انگریزی نشریاتی اداروں میں یکساں جاری تھے
لیکن اب زیادہ تر نشریاتی اداروں کی جانب سے یہ سلسلے طویل عرصے تعطل کا
شکار ہیں جس کا جواز بجٹ میں کٹوتی بتایا جاتا ہے۔یہاں گذشتہ کئی سالوں میں
ہونے والی مایوس کن تبدیلی یہ بھی ہوئی ہے کہ نصف صدی تک جاری رہنے والی
اور سامعین کے دلوں پر راج کرنے والی نشریات بند کردی گئیں جن میں بی بی سی
اردو، وائس آف جرمنی اور صدائے روس ہیں ۔ حال ہی میں بی بی سی کی نشریات
بند کرنے کا جواز بھی نئی ٹیکنالوجی پر منتقلی بتائی گئی لیکن ان لاکھوں
سامعین کو یکسر فراموش کردیا گیا جن کی دسترس میں جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے
ان کے پاس دنیا سے باخبر رہنے کا واحد ذریعہ ریڈیو ہی ہے۔ فریکیونسی ریڈیو
کی اہمیت کا اندازہ مقبوضہ کشمیر میں لگے طویل ترین کرفیو اور ٹی وی ،
اخبارات، انٹرنیٹ اور موبائل فون کی بندش سے لگایا جاسکتا ہے جہاں ان کے
لیے باخبر رہنے کا واحد ذریعہ ریڈیو ہی ہے ۔ کئی قدرتی حادثات میں بھی جہاں
تمام نظام درہم برہم ہوجاتا ہے وہاں دنیا سے باخبر رہنے کا واحد ذریعہ بھی
فریکیونسی ریڈیو ہی ہوتا ہے۔
ریڈیو پاکستان کی تاریخ میں بھی بہت سے ایسے پروگرام نشر ہوتے رہے ہیں جو
آج تک ہمارے ذہنوں میں نقش ہیں، جن میں ہر اتوار کو صبح نشر ہونے والا بچوں
کا پروگرام پھلواری جسے مُنی باجی اور رفیق بھیا پیش کرتے تھے، بچوں کا
مقبول ترین پروگرام تھا۔ اسی طرح بڑے بزرگوں کا مقبول ترین پروگرام گھسیٹا
خان تھا اور حامد میاں کے ہاں تھا، جسے بزرگ حضرات شام میں ایک ساتھ بیٹھ
کر سنا کرتے تھے۔ اُن شاندار یادوں کے علاوہ آج بھی ریڈیو پاکستان سے بہت
سے معلوماتی پروگرام نشر ہوتے ہیں، جس میں اسپورٹس راؤنڈ اپ، صوتی ڈرامے،
موسیقی کے پروگرام کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے لئے نشر ہونے والا پروگرام
تعلیمی خبرنامہ وغیرہ ہیں، جس میں تعلیمی خبریں نشر کی جاتی ہیں۔
یہاں میں ایک دلچسپ بات آپ کے گوش گذار کرتا چلوں کہ کئی طالبعلم جو بین
الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں یا کررہے ہیں وہ باقاعدگی سے ان غیر
ملکی نشریات کو سنتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ ہمارے لئے نہایت مدد گار
ثابت ہوتی ہیں۔ ریڈیو کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے حکومتی سطح
پر پروگراموں کے انعقاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو
ریڈیو سے روشناس کرایا جاسکے
|