ایک تو ماں باپ کا اکلوتا، اور باپ، چار گاؤں کا ایک
چوہدری اور اوپر سے نام بھی چوہدری حشمت، سو لوگ میری وحشت سے دہشت کھاتے
تھے اور یار لوگ مجھے چوہدری وحشت کہتے تھے.
بچپن سے ہی میرا دماغ تیل کی ابلتی ہوئی کڑاہی تھا جو چوبیس گھنٹے جلتے
چولہے پر دھرا رہتا میرا غصہ میری ناک پر نہیں، میری زبان اور ہاتھ پر دھرا
رہتا تھا. یار لوگ کہتے تھے باقی دنیا گالیاں دیتی ہے، چوہدری وحشت گالیاں
ایجاد کرتا ہے.
گھر کے کامے اور گاؤں کے کمی کمین میرے ہاتھوں اور جوتوں کے نیچے ہی رہتے
تھے، میں مارتا تھا کہ میں چوہدری حشمت تھا، وہ مار کھاتے تھے کہ وہ بھوکے
تھے.
رشتے میرے لئے بـے وقعت تھے، کیونکہ میرے پاس طاقت تھی، دولت تھی اور دولت
سے سب خریدا جا سکتا ہے، میرا یقین کیا، ایمان تھا کہ دنیا میں محبت، جو کہ
ہر رشتے کی بنیاد ہے، پیسے کے آگے بِک جاتی ہے اور اپنے اسی کامل ایمان کے
ساتھ میرے ہر تعلق کی بنیاد تھی. سو سبھی رشتے دار، یار دوست، تعلق دار
میرا دم بھرتے تھے، میں ان پر پیسے لٹاتا تھا، وہ مجھ پر جان لٹاتے تھے.
یہی میں تھا اور یہی میرے دن رات کہ ابا نے میری شادی اپنے ایک دوست کی
بیٹی سے طے کر دی. گو کہ میرے باپ نے دو باقاعدہ اور جانے کتنی انتہائی بـے
قاعدہ شادیاں کر رکھی تھیں مگر میرے لئے عورت حقیقت میں پاؤں کی جوتی تھی.
جو فقط غصہ نکالنے کے کام آ سکتی تھی. عورت بنی ہی دو چیزوں کے لئے ہے کہ
ایک تو چولہا گرم رکھےاور دوجا بستر.
سو زینب گھر کی بہو بن کے آ گئی. دیکھنے میں اچھی تھی اور پھر رفتہ رفتہ
کھلا کہ چولہا اور بستر دونوں گرم رکھنے میں بھی بہت اچھی تھی مگر میرا وہی
وحشی پن تھا کہ وہ میرے ہاتھوں اور زبان سے مسلسل لہولہان ہوتی رہتی تھی.
وہ میرے نکاح میں آئی تھی سو اس نے کبھی چوں تک نہ کی.
وقت گزرتا گیا، ابا کے گزرنے کے بعد زمین داری، پنچایت، گھڑ سواری اور شکار
یہی میری زندگی تھے. مگر وقت نے گزرتے گزرتے سر گوشی سی کی کہ شادی کو دو
سال سے اوپر ہو چلے ہیں مگر باپ نہیں بن پایا ہوں. اور آہستہ آہستہ یہ
سرگوشی چنگھاڑ میں بدلتی گئی، زینب میری لاتوں، مکّوں اور گالیوں پر دھری
رہتی تھی پھر آہستہ آہستہ سب میرے لئے برف بنتے گئے، سو میں تھا اور میری
وحشت کا غبار نکالنے کو زینب. وہ میری بیوی تھی اور اپنا سب کچھ میرے نام
کر چکی تھی، اورشاید ہی اس کے بدن کا کوئی حصہ میری وحشت و بربریت سے بچا
ہو.
میں مارتا تھا کہ میں چوہدری حشمت تھا، وہ مار کھاتی تھی کہ وہ بیوی تھی.
سیاست سے دلچسپی اتنی تھی کہ اپنے حلقے کا ایم این اے اور باقی سیاسی
کارندے میری جیب میں پڑے رہتے تھے، سو جو جی میں آتا کر گزرتا تھا، اور
اپنے اسی زعم میں ساتھ والے گاؤں کے تین بندوں کو سرعام گولیوں سے بھون
دیا. انھیں لگتا تھا کہ چوہدری حشمت کمزور پڑ گیا ہے سو ان کی لاشوں پر
تھوک کے گھر لوٹ آیا تھا. مگر برا ہو ایک ٹی وی چینل والے کا کہ اس نے سب
کچھ ٹی وی پر چلا دیا اور پھر ہر طرف سے میں نشانے پر تھا، سب کو جوتی کی
نوک پر رکھنے والا آج خود نشانے پر تھا تو وحشی بھیڑئیـے کی طرح بـے قابو
ہو رہا تھا، وہ سب ایم این اے، ایم پی اے جو میری جیب میں پڑے رہتے تھے،
کھوٹے سکّے نکلے. دیت کے ذریعے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ وہ
خاندان کے تین ہی بندے تھے، باپ اور دو بیٹے جنہیں قتل کر آیا ہوں. سو
معافی تلافی کا راستہ بھی بند نکلا اور میں عمر قید کی سزا پا کے جیل کی
کوٹھڑی میں آ پہنچا.
مجھے ساڑھے چھے سال ہو چلے ہیں اس جیل میں، اور میرے سبھی رشتے دار، یار
لوگ جنہیں میں نے اپنے اس کامل ایمان کے ساتھ کہ پیسہ ہی اصل تعلق ہے، اپنا
بنایا تھا پچھلے ساڑھے چھے سال سے ایک بار، ایک بھی بار مجھ سے ملنے نہیں
آئے تھے.
ابھی ابھی منظور سپاہی نے کہا ہے کہ میری ملاقات آئی ہے. آج جمعرات ہے، اور
پچھلے ساڑھے چھے سال سے زینب ہر جمعرات، ہر ایک جمعرات کو کھانا اور نئے
دھلے، استری ہوئے کپڑے لے کے آتی ہے. |